شخ شرف الدین سعدیؒ ایک حکایت
میں تحریر کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں جامعہ مسجد میں حضرت یحییٰ ؑ کی قبر
پر فاتحہ خوانی کے لیے گیا اس دوران وہاں عرب کا بادشاہ وقت بھی آیا یہ
بادشاہ اپنے ظالم رویے اور بے انصافیوں کی وجہ سے پوری دنیا میں مشہور تھا
اور تمام لوگ اس کے ظلم و ستم سے پناہ مانگتے تھے وہ مسجدمیں گیا اور دعا
مانگنے کے بعد مجھے دیکھا پھر بولا آپ درویش لوگ بڑے با اثر ہوتے ہیں ہمیشہ
نوازتے رہتے ہیں مجھ پر بھی ذرا کرم کریں آج کل میرا مقابلہ ایک خطرناک
دشمن سے ہے کچھ ایسا کریں کہ میں اسے شکست دے دوں ۔شیخ ؒ فرماتے ہیں کہ میں
نے اسے جواب دیا تم لوگ اپنے لوگوں پر رحم و کرم کرو اﷲ تم پر رحم کرے گا
اگر تم لوگوں پر ظلم وستم کرنا چھوڑ دو تو کوئی تمہارے اوپر ظلم نہ کرے گا
کیونکہ کوئی آدمی باجرہ بیج کر گندم کی خواہش کرے تو یہ اس کی بے وقوفی ہو
گی تشریح میں شیخ ؒ لکھتے ہیں کہ اس دنیا میں جیسا کرتے ہو تمہیں اس کا
ویسا ہی بد لہ ملے گا ۔
قارئین اﷲ تعالیٰ قرآن پاک میں اپنے منتخب کردہ خلیفتہ الارض کے بارے میں
بار بار واضح طور پر اس کی کمزوریاں ،خامیاں ،عیب ،غلطیاں بیان کرتے ہیں
اور کہیں پر انسان کو ’’ جلد باز ‘‘ کہا گیا کہیں پر انسان کو ’’ بے صبرا‘‘
کہا گیا ،کہیں پر انسان کو ’’ بھول جانے والا‘‘ کہا گیا الغرض انسان سمیت
کائنات کی ہر شے تخلیق کرنے والے مالک نے اپنی اس بہترین تخلیق انسان کے
وجود ،عقل ،دل ،فہم اور احساسات سے لے کر ہر بات کو کھول کھول کر بیان کر
دیا اور یہ بھی بتادیا کہ انسان کو نیکی اور بدی دونوں راستوں میں سے کسی
بھی راستے کو منتخب کرنے کے لیے عقل و شعور جیسی نعمت دی گئی ہے اور اس عقل
و شعور کی اہمیت کو بیان کرنے کے لیے قرآن پاک سینکڑوں مقامات پر انسان کو
مخاطب کر کے یہ کہتا ہے ’’ تم غور کیوں نہیں کرتے‘‘ اور دیگر تمثیلی طریقوں
سے عقل و شعور کی اہمیت کو واضح کیا گیا ایک لاکھ چوبیس ہزار کے قریب
انبیاء کرام اﷲ تعالیٰ کے احکامات اﷲ کے بندوں تک پہنچانے کے لیے اس دنیا
میں تشریف لائے اور بندوں کو رب سے جوڑنے کا کام کرتے رہے رحمان کے وہ بندے
جو انبیاء کا ساتھ دیتے رہے انہیں اﷲ نے دنیا او رآخرت کی عزت نصیب کی اور
نافرمانوں کا انجام دنیا میں بھی بُرا ہوا اور آخرت میں بھی ان کے لیے
آزمائش ہے ۔
قارئین آج کے کالم کے عنوان سے آپ سمجھ سکتے ہیں کہ آج ہم کونسا ’’ نیا
کبوتر‘‘ انصار نامہ کی ’’ پوٹلی اور پٹاری ‘‘ سے برآمد کر رہے ہیں ویسے یہ
پوٹلی اور پٹاری بھی بڑی کمال کی چیزیں ہیں دور کا سفر کرنے والے مسافر
اپنی پوٹلی میں عموما زاد راہ او ر توشہ ساتھ لے کر جاتے ہیں تا کہ راستے
میں ضروریات پوری ہو سکیں ہم سب انسانوں نے ایک مخصوص مدت اس دنیا میں گزار
کر ہمیشہ ہمیشہ باقی رہنے والی زندگی کے سفر پر روانہ ہوتا ہے لیکن نہ جانے
کیوں مجھ سمیت اکثر دوست ’’ پوٹلی اور پٹاری ‘‘ میں آخر ت کا توشہ اور زادِ
راہ ساتھ لے کر نہیں چلتے اﷲ ہم سب کے حال پر رحم فرمائے اور عمل کی توفیق
دے آمین ۔
یہاں بقول چچا غالب کہتے چلیں
سادگی پر اُس کی مر جانے کی حسرت دل میں ہے
بس نہیں چلتا کہ پھر خنجر کفِ قاتل میں ہے
دیکھنا تقریر کی لذت کی جو اُس نے کہا
میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے
گرچہ ہے کس کس برائی سے ولے با ایں ہمہ
ذکر میرا مجھ سے بہتر ہے کہ اس محفل میں ہے
بس ہجوم نا امیدی خاک میں مل جائے گی
یہ جو اک لذ ت ہماری سعیِ بے حاصل میں ہے
رنج ِ رہ کیوں کھینچئے ؟واما ندگی سے عشق ہے
اُٹھ نہیں سکتا ہمارا جو قدم منزل میں ہے
جلوہ زارِ آتشِ دوزخ ہمارا دل سہی
فتنہ شورِ قیامت کس کی آب و گل میں ہے
ہے دلِ شوریدہ غالب طلسمِ پیچ و تاب
رحم کر اپنی تمنا پر کہ کس مشکل میں ہے
یہاں پر ہم میڈیا پر رپورٹ ہونے والی ایک انتہائی اہم خبر آپ کے ساتھ شیئر
کر رہے ہیں میڈیا رپورٹس کے مطابق آزاد کشمیر کے میڈیکل کالجز کو پاکستان
میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کی طرف سے پابندی کے معاملے کی اصل کہانی سامنے
آگئی پی ایم ڈی سی نے میرپور میڈیکل کالج کے پرنسپل پروفیسر میاں عبدالرشید
کو غیر رسمی اور غیر قانونی طور پر آزاد کشمیر حکومت کی طرف سے برطرف کرنے،
میڈیکل کالجز کی فیکلٹی نامکمل ہونے، تربیتی ہسپتالوں میں مناسب سہولیات کی
کمی اور دیگر وجوہات پر کئی بار شوکاز نوٹس جاری کیے لیکن آزاد کشمیر حکومت
کے کسی سیکشن آفیسر تک نے کوئی بھی جواب دینے کی زحمت گوارا نہیں کی جبکہ
پی ایم ڈی سی نے تمام وارننگ لیٹرز چیف سیکرٹری خضر حیات گوندل، سیکرٹری
ہیلتھ جنرل عباس کو جاری کیے اور براہ راست آزاد کشمیر حکومت اور وزیراعظم
آزاد کشمیر کواصلاح احوال کے لیے سخت الفاظ میں مخاطب کیا اس تمام معاملے
کی اصل وجہ نزاع سامنے آگئی وہ پراسرار شخصیت کہ جس کے کہنے اور فرمائش
کرنے پر میرپور میڈیکل کالج کے انتہائی دیانتدار، فرض شناس اور اہل ترین
پرنسپل پروفیسر ڈاکٹر میاں عبدالرشید کو بغیر کسی چارج شیٹ کے برطرف کیا
گیا کوئی اور نہیں بلکہ پی ایم ڈی سی کے سابق چیئرمین اور سابق صدر پاکستان
آصف علی زرداری کے لنگوٹیے دوست سابق مشیر پٹرولیم ڈاکٹر عاصم حسین نکلے۔
کراچی میں آزاد کشمیر کے وزیراعظم چوہدری عبدالمجید کو آصف علی زرداری اور
محترمہ فریالتالپور سے ہونے والی ملاقات کے دوران ڈاکٹر عاصم حسین نے طنزیہ
انداز میں مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ آزاد کشمیر کی حکومت خاک چلائیں
گے جبکہ ان سے آزاد کشمیر کے میڈیکل کالج کے پرنسپل پروفیسر میاں عبدالرشید
اور دیگر دو ممبر پی ایم ڈی سی بھی قابو نہیں ہوتے اس طنزیہ جملے کی بنیادی
وجہ ڈاکٹر عاصم حسین کی طرف سے پی ایم ڈی سی پر اپنے گروپ کی حکمرانی کوشش
تھی جو پروفیسر ڈاکٹر میاں عبدالرشید اور دیگر مخالف گروپ کے اصولی اسٹینڈ
کی وجہ سے ناکامی سے دو چار ہو رہی تھی ڈاکٹر عاصم حسین ہی کی فرمائش پر
وزیراعظم آزاد کشمیر چوہدری عبدالمجید نے بغیر کسی مشاورت اور بغیر کسی
نقصان کی پرواہ کیے کراچی سے واپس آتے ساتھ ہی پہلا حکم نامہ میرپور میڈیکل
کالج کے پرنسپل پروفیسر ڈاکٹر میاں عبدالرشیدکی برطرفی کا جاری کیا اور اس
کے بھیانک ترین نتائج آزاد کشمیر کے میڈیکل کالجز کے پروفیسرز جو پاکستان
سے آکر کام کر رہے تھے ان کی بے چینی کی شکل میں سامنے آیا اور ڈیڑھ ماہ کے
اندر آزاد کشمیر کے میڈیکل کالجز پر پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل نے
اگلے سال داخلوں پر پابندی عائد کر دی پی ایم ڈی سی نے بارہا وارننگ لیٹرز
کے ذریعے آزاد کشمیر حکومت کو سمجھانے کی کوشش کی کہ پی ایم ڈی سی کے واضح
اور لازمی قوانین کے مطابق کسی بھی میڈیکل کالج کے پرنسپل کو کنٹریکٹ یا
مستقل جاب کے ذریعے تعیناتی کے بعد پانچ سال سے پہلے معطل یا برطرف نہیں
کیا جا سکتا کیونکہ اس سے کالج میں موجود تدریسی سرگرمیاں بھی متاثر ہوتی
ہیں اور میڈیکل فیکلٹی میں کام کرنے والے معزز پروفیسرز کا اعتماد بھی
مجروح ہوتا ہے اور اسی طرح پروفیسر ڈاکٹر میاں عبدالرشیدکو پی ایم ڈی سی کے
لازمی قوانین کی دوسری شق کی خلاف ورزی کرتے ہوئے دوران سیشن فروری کے
مہینے میں برطرف کیا گیا جبکہ قوانین میں واضح طور پر یہ تحریر ہے کہ کسی
بھی میڈیکل کالج کے پرنسپل کو برطرف کرنے کے لیے پی ایم ڈی سی سے این او سی
لے کر اکتوبر یا دسمبر کے مہینے میں یہ کام کرنے کی اجازت ہے اس کے ساتھ
ساتھ پی ایم ڈی سی نے آزاد کشمیر حکومت کو مالیاتی لحاظ سے انتہائی نااہل
اور کمزور قرار دیا تھا کہ آخر کیا وجہ ہے کہ گزشتہ پانچ ماہ سے میڈیکل
کالجز کے عملے کو آزادکشمیر حکومت تنخواہیں دینے سے قاصر ہے ڈاکٹر عاصم
حسین کی طرف سے فرمائش کرنے پر پروفیسر ڈاکٹر میاں عبدالرشید کی غیر قانونی
فراغت کے بعد پی ایم ڈی سی پر ان کی حکمرانی کا خواب پورا ہو گیا اور نو
ممبران پر مشتمل گروپ نے ڈاکٹر عاصم حسین گروپ سے اتحاد کر لیا اور کورم
پورا کر کے قومی اسمبلی اور سینٹ کی صحت کے حوالے سے بننے والی قائمہ کمیٹی
کی تمام سفارشات ڈاکٹر عاصم حسین گروپ نے رد کر دیں اور قومی اسمبلی اور
سینٹ میں مسلم لیگ ن اور وفاقی حکومت کو زبردست قسم کی شرمندگی کا سامنا
کرنا پڑا انا کی اس جنگ میں ڈاکٹر عاصم حسین نے وقتی طور پر تو فتح حاصل کر
لی لیکن آزاد کشمیر کے میڈیکل کالجز کا مستقبل سوالیہ نشان بن گیا اس وقت
آزاد کشمیربھر کے سیاسی وسماجی حلقے وزیراعظم پاکستان میاں محمدنواز شریف،
وزیر امور کشمیر چوہدری برجیس طاہر، صدر مسلم لیگ ن وسابق وزیراعظم آزاد
کشمیرراجہ فاروق حیدر خان، وفاقی سیکرٹری کشمیر افیئرز اینڈ گلگت بلتستان
شاہد اﷲ بیگ اور چیف سیکرٹری آزاد کشمیر خضر حیات گوندل سے اس انتہائی حساس
معاملے کا نوٹس لینے کا مطالبہ کر رہے ہیں یاد رہے کہ آزاد کشمیر کے میڈیکل
کالجز پر آئندہ سال داخلوں پر پابندی اپنی جگہ ہے اگر جلد از جلد اس معاملے
کو حل نہ کیا گیا اور پروفیسر ڈاکٹر عبدالرشید میاں کو بحال نہ کیا گیا تو
پی ایم ڈی سی آزاد کشمیر کے میڈیکل کالجز پر مستقل پابندی اور بعد ازاں
انہیں بند کرنے کاحکم بھی جاری کر سکتی ہے۔
آج کا کالم ہم بغیر کسی تبصرے کے یہیں پر نا تمام چھوڑے جا رہے ہیں اس کا
فیصلہ وقت کرے گا کہ کیا سچ تھا او رکیا جھوٹ تھا اور کوئی بات سچی ہو یا
نہ ہو لیکن اس حقیقت کا کوئی کافر بھی انکار نہیں کر سکتا کہ ہر انسان فانی
ہے اور ہر کسی نے مر جانا ہے ہمیں امید ہے کہ لوگوں کی تقدیروں کے بظاہر
مالک بنے بیٹھے لوگ بھی اس حقیقت کو دل سے سمجھنے اور تسلیم کرنے کی کوشش
کریں گے جس دن یہ بات سمجھ آگئی اس دن تمام معاملات درست ہو جائیں گے ۔
آخر میں حسب روایت لطیفہ پیش خدمت ہے
ایک دفعہ یونس سلیم نے جوش ملیح آبادی سے پوچھا
’’ آخر کیا بات ہے آپ آج کل غزلیں نہیں لکھتے بلکہ الٹا اس کی مخالفت کر
رہے ہیں جبکہ آپ ابتداء میں بہترین غزلیں کہتے رہے ہیں ‘‘
جوش ملیح آبادی نے مسکرا کر جواب دیا
’’ بچپن میں ننگا رہا کرتا تھا کیا میں سمجھ آنے کے بعد بھی ننگا رہا
کروں‘‘
قارئین کوئی بے چینی بے چینی سے ہے اور اخلاقیات کے تمام کپڑے ہمیں یوں لگ
رہا ہے کہ اتارے نہیں بلکہ پھاڑے جا رہے ہیں یا تو ہم دیوانے ہیں یا پھر یہ
دنیا جنگلی ہے اﷲ ہم سب کو عقل و شعور نصیب کرے آمین ۔ |