لہولہو لیاری

اگر چہ لیاری کا لہو لہان ہونا تو معمول بن چکا ہے ، مگر بروز بدھ ، مورخہ 2 1مارچ 2014 ء کو کراچی کی یہ قدیم بستی اتنی لہو لہان ہوئی کہ پورا لیاری سو گوار ہو گیا ۔ اخباری اطلاعات کے مطابق کلاکوٹ تھانے کی حدود لیاری جھٹ پٹ مارکیٹ میں بدھ کی صبح لیاری گینگ وار ملزمان کی جانب سے اندھا دھند فائرنگ اور راکٹ لانچروں سے حملہ کیا گیا ، جس کے باعث خواتین اور بچوں سمیت 16 یا 18 افراد جاں بحق اور 27 یا 37 افراد زخمی ہو گئے ۔اس سانحے کا سب سے درد ناک پہلویہ ہے کہ اندھا دھند فائرنگ اور راکٹ لانچروں سے حملے عین مارکیٹ میں کیے گئے، جہاں بہت سی خواتین خریداری کر رہی تھیں ، اس کے علاوہ یہ واقعہ ایک ایسے وقت میں رونما ہوا ، جب اسکولوں کے بچے اسکولوں سے گھروں کو لوٹ رہے تھے ، جس کی وجہ سے اس سانحے سے خواتین سمیت بچے بھی متاثر ہوئے ۔ شاید یہی وجہ ہے کہ جمعرات کو لیاری کے تقریبا سارے پرائیو یٹ اسکول بند کر دیے گئے ۔اس حادثہ ِ جاں کاہ میں جاں بحق اور زخمی ہونے والے افراد کو سول اسپتال منتقل کیا گیا تو وہاں ایمر جنسی نافذ کردی گئی ۔ لیاری کے مظلوم لوگ اپنے پیاروں کی لاشوں سے لپٹ کر روتے رہے ۔ رقت آمیز مناظر نے وہاں کی فضا کو بھی سوگ وار کر دیا ۔دوسری طرف لیاری سنسان ہو گیا ۔ لوگوں میں خوف و ہراس پھیل گیا ۔ جھٹ پٹ مارکیٹ ، جہاں یہ حادثہِ الم ناک وقوع پزیر ہوا ، اب تک ویران اور سنسان پڑی ہے ۔

لیاری کتنا خوف ناک ہو چکا ہے ، اس امر کا اندزہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ کراچی کی اس قدیم بستی میں دیگر علاقے کی سواری(رکشہ اور ٹیکسی وغیرہ) خوف کے باعث نہیں آتی ۔ لیاری کے باشندوں کو اس وقت بڑی مشکل درپیش آتی ہے ، جب وہ کراچی کے کسی دوسرے علاقے میں جائیں اور انھیں لیاری میں آنے کے لیے کوئی سواری چاہیے ہو۔ ۔ بہت کم رکشے اور ٹیکسی والے اس طرف رخ کرتے ہیں ۔اس کی سب سے بڑی وجہ یہاں کے حالات ہیں ۔لیاری کے عام باشندے نہایت سادہ اور غریب ہیں ۔یہاں کی اکثریت محنت مزدوری کر کے اپنے بچوں کا پیٹ پالتی ہے ، مگر اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ یہاں کچھ لوگ ایسے ہیں ، جن کی وجہ سے پورا لیاری بے سکون ہے ۔

موجودہ حکومت نے لیاری میں جو آپریشن شروع کیا ہے ، اس سے لیاری کے حالات مزید خراب ہو گئے ، اگرچہ گینگ وار کے کئی ملزمان اب تک پولیس اور رینجرز کے ہاتھوں ہلاک ہو چکے ہیں ، لیکن اسی آپریشن کی وجہ سے ہی لیاری میں ایک نئی "متحارب گروپوں کی لڑائی" نے جنم لیا ہے ۔ اس لڑائی میں روازنہ کی بنیاد پر معصوم اور بے گناہ لوگ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں ۔لیاری کی ابتر صورتحال کی وجہ سے لوگ نقل مکانی پر مجبور ہو چکے ہیں ۔ کاروبار ِ زندگی بری طرح مفلوج ہو چکا ہے ۔ لیاری۔۔۔ جہاں کبھی رات کو بھی دن کا سماں ہوتا تھا ، اب وہاں دن کو بھی رات کا سماں ہوتا ہے ۔

کہتے ہیں ، بے گناہ لوگوں کا خون رائیگاں نہیں جاتا ۔ جھٹ پٹ مارکیٹ سانحے کے بعد فوری طور پر پولیس اور رینجرز حرکت میں آگئی اور 8 ملزمان کو ہلاک کر دیا۔ دوسری طرف وزیر ِ اعظم نے بھی اس سانحے کا نوٹس لے لیا ۔ تفصیلات کے مطابق بدھ کو وزیر ِ اعظم کو وفاقی وزیر ِ داخلہ نے کراچی کی صورت حال کے بارے میں بریفنگ دی ۔ اس دوران وزیر ِ داخلہ نے لیاری واقعے اور پر تشدد کا ر روائیوں سے متعلق ڈی جی رینجرز کی رپورٹ بھی پیش کی ۔ جس پر وزیر ِ اعظم نے سخت تشویش کا اظہا ر کیا ۔ساتھ ساتھ انھوں نے رواں ہفتے کراچی کے دورے کا فیصلہ بھی کر لیا ۔14 مارچ بروز ِ جمعہ کو وزیر ِ اعظم نے کراچی کا دورہ کیا ۔ یہاں بھی انھوں نے لیاری کی صورت حال پر خاصی تشویش کا اظہار کیا ۔انھوں نے کہا کہ لیاری کھیلوں کے حوالے سے پاکستان کی پہچان ہے ۔سندھ حکومت لیاری کو پر امن بنائے ۔اس کے علاوہ انھوں نے سندھ حکومت کولیاری میں صورت حال کو کنٹرول کرنے کے لیے مزید تھانے قائم کرنے اور مفرور ملزمان کے سر کی قیمت مقرر کرنے کی ہدایت بھی کی ۔وزیر ِ اعظم کے کراچی کے دورے کے بعد پولیس اور رینجرز مزید حرکت میں آگئی ۔ شنید ہے کہ اب وہاں پولیس اور رینجرز کی بڑی تعدا د موجود ہے ۔

لیار ی کے معصوم لوگ امن کے لیے ترساں ہیں ۔لیاری کے معصوم بچے اسکول اور مدرسے میں جانے سے ڈرتے ہیں ۔ اس لیے نہیں کہ "متحارب گروپوں کی لڑائی " دیکھ دیکھ کر ان کے پڑھنے کا شوق ماند پڑ گیا ہے ، بلکہ اس لیے کہ ان کی دانست میں لیاری کی سرزمین پر ، قدم قدم پر جھٹ پٹ سانحے جیسے خطرات جنم لے چکے ہیں اور وہ کسی بھی لمحے اوان گولے ، کسی اندھی گولی یا کسی ظالم راکٹ کا نشانہ بن سکتے ہیں ۔لیاری کے نوجوان جب ارد گرد غربت ، جہالت اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی بے روز گاری کو دیکھتے ہیں تو خود بہ خود گینگ وار کے بھینٹ چڑھ جاتے ہیں ، یہ گینگ وار بالآخر ان کی زندگیوں کے چراغ ہی گل کر دیتی ہے ۔ شنید ہے کہ لیاری کے پرانے بابے آج کل سر ِ شام اپنے گھروں اور پارکوں کے باہر تاش بھی نہیں کھیلتے ، کیوں کہ کوئی اندھی گولی کسی بھی لمحے انھیں بھی نشانہ بنا سکتی ہے ۔ ۔۔ اور ہاں ۔۔۔ اب کوئی اماں جھٹ پٹ مارکیٹ میں سبزی لینے بھی نہیں جاتی!!!!

1950 ء سے جاری گینگ وار کی بیخ کنی کرنے کے لیے بالخصوص سندھ حکومت اور بالعموم وفاقی حکومت کو سخت محنت کی ضرور ت ہے ۔ کیوں کہ اب لیاری کے بدن میں مزید غیر قانونی کاموں اور دھندوں کو جھیلنے کی سکت نہیں ہے اور نہ ہی اپنے باشندوں کا لہو جذب کرنے کا حوصلہ !!
 

Naeem Ur Rehmaan Shaaiq
About the Author: Naeem Ur Rehmaan Shaaiq Read More Articles by Naeem Ur Rehmaan Shaaiq: 122 Articles with 159075 views میرا نام نعیم الرحمان ہے اور قلمی نام نعیم الرحمان شائق ہے ۔ پڑھ کر لکھنا مجھے از حد پسند ہے ۔ روشنیوں کے شہر کراچی کا رہائشی ہوں ۔.. View More