وقت گزرتا گیا اور یہ مثالیں کم
ہوتے ہوتے معدوم ہوکر رہ گئی ہیں نتیجتاً نا صرف انفرادی زندگی بلکہ
اجتماعی زندگی انحطاط کا شکار ہے۔یہ بجاہے کہ استاد معمار قوم ہوتاہے جس کے
ہاتھوں ملک وملت کے نونہال پروان چڑھتے ہیں اور قوموں کی زندگی میں انقلاب
برپاہوتے ہیں لیکن آج استاد اور شاگرد کے درمیان قربت کی بجائے دوریاں ہی
دوریاں ہیں کسی بھی کلاس روم میں چلے جائیں خواہ وہ گورنمنٹ اسکول ہو یا
پرائیوٹ اسکول زیادہ تر طلبہ وقت گزارنا چاہتے ہیں اور استاد تنخواہ حلال
کرنا چاہتے ہیں۔لیکن ایک فرق ہے وہ یہ ہے کہ گورنمنٹ اسکولز میں بچے پڑھنا
چاہتے ہیں، پڑھ لکھ کر طبقاتی فرق کو کم کرنا چاہتے ہیں لیکن اساتذہ جن کو
نوکری چلے جانے کا کوئی خطرہ نہیں ہوبغیر تیاری کے کلاس روم میں آتے ہیں
اور وقت گزار کر چلے جاتے ہیں انہیں صرف تنخواہ سے غرض ہے جو یکم کے یکم
انہیں ملنی چاہیے۔اسی لئے ہم ایک آزاد ملک میں رہنے کے باوجود غلامی کی
زندگی گزار رہے ہیں۔ تعلیمی نظام خراب ہونے کی سب سے بڑی وجہ طبقاتی نظام
ہے ہمارے ملک میں دوہرے معیار کی تعلیم دی جاتی ہے۔انگلش میڈیم اور اردو
میڈیم ملک کے 1973ء کے آئین میں اردو کو قومی زبان کا درجہ دیا گیا ہے مگر
افسوس کی بات یہ ہے کہ ہم شاید اردو کو اس قابل نہیں سمجھتے کہ اس میں
تعلیم حاصل کریں۔سب سے بڑی مثال چین کی موجود ہے جس نے انگریزی کے بجائے
چینی زبان کو اپنی تعلیمی زبان بنائی۔ ساری دنیا میں اس کی ترقی کی مثال ہے
معمار قوم بننے کے جذبے سے ضروریات زندگی کا حصول مقدم ہوچکا ہے مانا کہ
اساتذہ کی تنخواہیں کم ہیں،مسائل زندگی سے نپٹنے کے لئے ناکافی ہیں لیکن اس
میں اس کے بچوں کا کیا قصور ہے جن کی تعلیم وتربیت کے وہ ذمہ دار ہیں جہاں
تک پرائیوٹ اسکولز کا تعلق ہے وہاں صورت حال مختلف ہے اور تمام پڑھے لکھے
اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ہنرمند خواتین وحضرات کہیں کسی اور شعبے میں ملازمت
نہیں ملتی وہ پرائیوٹ اسکولز کے ذریعے روزگار کمانے پر مجبور ہیں اس لیئے
اسکول مالکان ان کا استحصال اپنا حق سمجھتے ہیں اور ہر کسی سے بھاؤ تاؤ کر
کے کم سے کم تنخواہ پر انہیں رکھ لیا جاتا ہے ان میں سے بیشتر لوگ اپنے کام
سے انصاف کرنے کی کوشش کرتے ہیں کیونکہ یہ سلسلہ روزگاران کے لئے غنیمت
ہوتاہے لیکن یہاں طلبہ کا حال مختلف ہے اور استاد کو اپنے سے کم حیثیت جان
کر اس کی عزت کرنا اپنے لئے لازم نہیں گردانتے ان اسکولز میں بچوں کی
اساتذہ کے ساتھ بدتمیزی معمول کی بات ہے۔کیونکہ گھروں میں والدین نے الگ
ٹیوٹر کا انتظام کردکھا ہوتاہے اور ہو ٹیوٹر تنخواہ ہی لیتے ہے جس سے طلبہ
کی امتحان کی تیاری تو ہوجاتی ہے۔دولت کا دعم استاد شاگرد کا تعلق بننے میں
رکاوٹ بنتا ہے۔یونیورسٹیوں میں تو استادوں کی کوئی عزت ہی کرتے کلاس روم
میں تو ایسے آتے ہے جیسے اساتذہ پر احسان کررہے ہویا اپنے گھروالوں پر
احسان کررہے ہو۔یونیورسٹیوں کا ماحول دن بہ دن خراب ہوتا جارہا ہے۔
اگر پاکستان میں حکومت اور تعلیم ایسے لوگوں کے ہاتھ میں ہوتی ہے جو سمجھی
ارتقاء کا شعور رکھتے تو انہیں معلوم ہوتاکہ مغربی جو آج علم وفنون کی
بلندیوں پر ہے انہیں کہاں تک پہنچنے میں آزادی افکار واظہار نے بہت اہم
کردار ادا کیا ہے۔ |