آج ہمارے معاشرے میں کو ئ ایسا
بندہ نہیں ہے ۔ جو طالبان اور ان روئیوں سے اتفاق کرے۔ ہم روز سنتے چلے
آرہے ہیں ۔ کہ طالبان درندے ہیں ۔طالبان انسانیت کے دشمن ہیں ۔ طالبان
ظالمان ہیں ۔ یہ ملک دشمن ہیں ۔ یہ ملک کے غدار ہیں ۔ وغیرہ وغیرہ ۔لیکن جو
لوگ یہ رٹا لگائے نہیں تکھتے ۔ان لو گوں نے کبھی اپنے روزمرہ کے معاملات
خواہ وہ اپنے گھر میں ہوں یا کاروبار میں ۔ ملازمت میں کسی عہدے کی صورت
میں ہوں ۔ یا دوسرے دنیائ معاملات میں ۔ پر غور کیا ہے ۔ اگر اس پر غور کیا
جائے تو ہم میں سے ہر بندہ طالب سے دو ہاتھ آگے ہے ہم ہر جگہ قانون کی بات
کرتے ہیں ۔ لیکن اگر کو ئ قانون کا رکھوالا کسی غیر قانونی فعل پر ہمھیں
روک کر پوچھ گچھ کر لے تو ہم اس کو کھوستے رہتے ہیں ،اس کو بر ا بھلا کہتے
ہیں ۔ اگر گھر میں بیوی کھانا تھوڑا سا لیٹ کر لے تو اس کے ماں باپ کی عزت
کو پاؤ ں تلے روند تے رہتے ہیں ۔ لیکن جب طالبان کی بات آجاتی ہے تو ہم ان
کو درندے کہہ کر نہیں تکھتے ۔ یاد رکھیں طالبان بھی کو ئ غیر نہیں ہمھارے
جیسے گوشت پوست کے انسان ہیں ۔ بس صرف انسانی روئیے نے ان کو متشدد ذہن
بنانے پر مجبور کیا ہے ۔سوچ لیں اگر کو ئ تیرے آنکھوں کے سامنے تیرے ماں
باپ یا بال بچوں کو قتل کردے ۔ تمھار اگھر کسی ڈرون حملے میں تباہ کیا جائے
۔تیر ا گھر بار سب لٹ جائے ۔ کسی تھانے میں تیری عزت کا جنازہ نکل جائے ۔
کو ئ تیری کسی عزیز کی عزت کو پامال کردے ۔ تو تیرے پاس اس کے سواء اور
کونسا راستہ بچے گا ۔ کہ تم ان کے خلاف ہتھیا ر نہ آٹھالے ۔ بظاہر تو یہ
بالکل ہی غلط طریقہ ہے ۔لیکن جب برداشت جواب دے جائے ۔ تو ہم میں سے کسی کو
بھی طالب بننے میں دیر نہیں لگے گا ۔ طالبان کو ئ مستقل فورس نہیں ہے ۔
بلکہ یہ معا شرے کے وہ پسے ہو ئے لوگ ہیں ۔ جن کو معا شرتی زندگی کے کسی نہ
کسی موڑ پر دیوار کے ساتھ لگایا گیا ہے ۔ اور مجبور ہوکر ان لوگوں نے بندوق
اٹھایا ہو اہے ۔ آج اگر حکومت وقت نے فیصلہ کیا ہے ۔ کہ ان کے ساتھ مذاکرات
کرکے ان کو قومی دائرے میں دوبارہ واپس لایا جائے تو اس پر حکومت کو بر ا
بھلا کہنے کی بجائے داد دینے کی ضرورت ہے ۔ اور جو قوتیں یا طبقات اس
مذاکرت کے خلاف ہیں ۔ تو یاد رکھیں ان کے اپنے کچھ عزائم ہیں ۔ اسی دہشت
گردی کے خلاف جنگ کے نام پر سابقہ حکومت نے جتنی لوٹ مار کی ہے ۔ اس کی
مثال نہیں ملتی ۔ اور اب اس حکومت پر طنز کر رہے ہیں ۔کہ یہ ڈرپوک ہیں ۔طالبان
سے ڈر کر ان سے مذاکرات کر رہے ہیں ۔ اسی سابقہ حکومت کے وزارت داخلہ نے
دہشت گردی کے نام پر رکھے ہو ئے فنڈ کو اپنے ذاتی مفاد کے لیے استعمال کیا
۔ اور اب ان کا ایک بغل بچہ لیڈر طالبان کو اپنی بھڑکوں سے للکار رہے ہیں ۔
وہ خود تو بلٹ پروف اور بم پروف میں بیٹھ کر گھومتے ہیں ۔ لیکن بے چارے
عوام کو ان کے رحم وکرم پر چھوڑا ہو اہے ۔ ان کو تو شیر کا دل دے دو یہ
بغیر سیکورٹی کے ٹوائیلٹ میں بھی نہیں جاسکتے ۔تو بات ہو رہی تھی ہمارے
روئیوں کی ۔ ہم میں سے ہر بندہ طالب ہے ۔لیکن شرط یہ ہے ۔ کہ کو ئ ہمیں
للکارلے ۔ہم پھر یہ نہیں دیکھتے کہ کسی کا کیا عزت ہے ۔ بس ہاتھ اٹھا لیتے
ہیں ۔ اور طالب بن کر اس کی جان لیتے ہیں ۔ آخر میں مٰیں یہپوچھنے میں حق
بجانب ہوں ۔کہ مظفر گڑھ میں نوجوان لڑکی کے ساتھ ریپ کی صورت میں اس نے
معاشرے سے مایوس ہوکر جو خودکشی کی ہے ۔اس کا حل ہمارے موجودہ اخلاقی کرپٹ
نظام میں کسی کے پاس نہیں ۔ بلکہ اس کا حل طالبان کےاس نظام میں ہے کہ اس
مجرم کو جس نے اس لڑکی کے ساتھ ریپ کیا ہے ۔شہر کے کسی چو راہے پر لٹکا کر
انجام تک پہنچایا جائے ۔ اگر یہ کام غلط ہے تو پھر بگھت لو ۔روز یہ جرم
ہوتے رہیں گے ۔عزتین پامال ہوتے رہیں گے ۔اور ہم طالبان کو ظالمان پکارتے
رہیں گے ۔ یا د رکھیں ہمارا یہ اخلاقی کرپٹ نظام ہمارے عزتوں کا دشمن ہے ۔
جب تک ہم اپنے روئیوں پر نظر ثانی نہ کریں ۔ اور مجرم کو سپورٹ اور مظلوم
سے آنکھیں پھیر کر نظر انداز کریں گے۔ تو یا د رکھیں طالبان بنتے رہیں گے ۔اور
ہم اسی طرح روتے رہیں گے۔ میرا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ طالبان نے جو قتل عام
کیا وہ جائز ہے۔ لیکن ہر عمل کا کوئ نہ کوئ ردعمل ہو تا ہے ۔ طالبان ایک
ذہن کا نام ہے ۔ جن کو جتنا دباؤگے اتنا یہ سر اٹھائیں گے اور یہی قتل عام
ہو تی رہے گی ۔ |