بحرین سے ابن عیسیٰ کی آمد!

64سالہ بحرین کا بادشاہ الشیخ حمد بن عیسیٰ پاکستان کے سرکاری دورے پر تشریف لائے ہیں۔جنہوں نے امریکہ و برطانیہ سے عسکری امور کی تعلیم حاصل کی ہوئی ہے۔وہ ایک تربیت یافتہ پائلٹ بھی ہیں اور فوجی تعلیم کے زیور سے آراستہ ہونے کے لیے پاکستان نیول کالج کراچی میں بھی زیر تعلیم رہے۔ اس سے 40 سال قبل ان کے والدالشیخ عیسیٰ بن سلمان الخلیفہ 22 فروری 1974 ء کو دوسری اسلامی سربراہی کانفرنس کے موقع پر لاہور تشریف لائے تھے۔ الشیخ حمد بن عیسیٰ نے 6مارچ 1999ء کو اپنے والد الشیخ عیسیٰ بن سلمان کی وفات پر ملک کا انتظام سنبھالا ۔اہالیان پاکستان ان کی آمد پردل کی اتھاہ گہرائیوں سے خوش آمدید کہتے ہیں۔ 50سے 60ہزار پاکستانی بحرین کو اپنا مسکن بنائے ہوئے ہیں جو حصولِ روزگار کے لیے اپنے گھروں کو خیر باد کہہ کر یہاں مصروف ہیں۔ اس اہم موقع کو غنیمت جانتے ہوئے بحرین کی تاریخی حیثیت کو قلمبند کر کے الشیخ حمد بن عیسیٰ کی خدمت اقدس میں پیش کر رہا ہوں جو کہ پاکستانیوں کی والہانہ محبت کا واضح ثبوت ہے۔ بحرین تیسری صدی قبل مسیح سے ہی تجارتی نقطہ نظر کے لحاظ سے ایک اہم مرکز کی حیثیت رکھتا ہے۔ جبکہ اس کا پتھر کے زمانے والا نام دلمون (Dilmun) اب متروک ہو چکا ہے۔فارس نے چوتھی صدی عیسوی میں اس پر شب خون مارااور مسند حکومت پر براجمان ہو گئے۔ عربوں کو اپنے بازوؤں پر فخر محسوس ہوا تو جنگ و جدل کے ذریعے قابض ہوئے، یہاں تک کہ 1541ء میں پرتگالیوں نے شورش و ہنگامہ آرائی کر کے حملہ و قبضہ کر لیا۔ 1602ء میں دوبارہ فارس نے اپنے مقدر کو جگانے کی کوشش کی اور ننھی سی اس ریاست پر اپنا حق جتانے لگے کہ یہ تو ہمارا ہی ہے اور مالک بن بیٹھے۔ پھر 1783ء میں احمد ابن الخلیفہ و ہمنوا نے اپنے آپ کو تسلی دی کہ اس پر تو ہم بھی قابض ہو سکتے ہوں حتیٰ کہ حملہ کر دیا اور فاتح قرار پائے۔ مگر 1820ء میں برطانیہ نے اپنے دل و دماغ میں حکومت کرنے کی ٹھانی اور قابض ہو کر ڈیڑھ صدی یعنی کہ 151سال تک طویل حکمرانی کی اور اپنی طاقت کے جوہر دکھلاتے رہے۔ بہرکیف 15دسمبر 1971ء میں برطانیہ سے غلامی کی بیڑیاں تڑاخ تڑاخ کر کے توڑ کر آزادی کا سورج دیکھنے والا، خلیج فارس کا ایک چھوٹا ساخطہ جسے ہم نقشہ دنیا میں ’’بحرین‘‘ کے نام سے جانتے ہیں۔ ملک ہذا نے خود کو ایک جدید ریاست بنانے کے لیے بیکراں تگ و دو کی۔یہ دنیا کے اہم ترین آبی علاقوں میں شمار ہوتا ہے۔ یہاں 1930ء میں تیل دریافت کر لیا گیا تھا حالانکہ یہ دیگر خلیجی ممالک سے کافی چھوٹا بھی ہے۔7000مربع کلومیٹرز رقبہ پر محیط قطر اور سعودی عرب کے درمیان تیل کی دولت سے مالا مال ایک چھوٹی سی خود مختار ریاست ہے ۔جو33چھوٹے بڑے جزیروں پر مشتمل ہے۔ خلیج تعاون کونسل ممالک کا رکن بھی ہے۔ یہاں یہودی، عیسائی مذاہب کے ماننے والے بھی موجود ہیں مگر 80فیصد مذہب اسلام کے پیرو کار ہیں۔ اس ملک کی آبادی 13 لاکھ افراد پر مشتمل ہے جن میں 3لاکھ تعداد غیر ملکیوں کی ہے سرکاری زبان تو اس کی عربی، لیکن انگریزی،فارسی اور اردو بولنے والے بھی کثیر تعداد میں موجود ہیں۔ اس کی مغربی سمت میں مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ جیسے دو عظیم شہروں کا حامل ملک سعودی عرب ہے جس سے 25کلو میٹرز طویل سمندر کے اوپر شاہ فہد پُل کے ذریعے آمد و رفت ہے۔ ملکی تقسیم کے اعتبار سے کل پانچ صوبے ہیں۔ جو جنوبی شمالی عاصمہ، محرق اور وسطیٰ کے نام سے جانے جاتے ہیں جبکہ مناما، محرق، مشرقی رفاع، مغربی رفاع، حمد سٹی، عیسیٰ سٹی، الحد، جد حفص، عوالی، زاید سٹی، الزلاق، عراد، عوالی، البدیع پر مشتمل ہیں ۔اس ملک کا دارالحکومت مناما ہے اور مزید بڑے بڑے شہر، محرق، رفاع، مدینہ حمد، عالی، مدینہ عیسیٰ، سترہ، البدیع، جد حفص، المالکیہ، العدلیہ، الجسرہ کے ناموں سے جانے جاتے ہیں۔ پاکستان کے سٹینڈرڈ وقت کے مطابق اس ملک کاوقت دو گھنٹے پیچھے ہے۔تعلیمی میدان میں دنیا کا مقابلہ کر نے کے لیے چند مشہور یونیورسٹیاں قائم ہیں جن کے نام یہ ہیں:الاھلیہ یونیورسٹی، رائل یونیورسٹی فار وومین، کنگڈم یونیورسٹی، یونیورسٹی کالج آف بحرین، یونیورسٹی آف بحرین،گلف یونیورسٹی، دلمون یونیورسٹی فار سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، عربین گلف یونیورسٹی، اپلائیڈ سائنس یونیورسٹی، A.M.A انٹرنیشنل یونیورسٹی، نیو یارک انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی۔ دنیا سے فضائی رابطے کے لیے بحرین انٹرنیشنل ائیرپورٹ مناما، محرق ائیرپورٹ محرق،آف لائن پوائنٹ ائیر پورٹ مناما بھی قائم ہیں۔ بحرین کے ساحلی شہر الجسرہ سے سعودی عرب کے ساحلی شہر الخبرکا فاصلہ 29کلو میڑز ہیں۔ بحرین کی زراعت اور کھیتی کی زمینیں چھوٹے چھوٹے ٹیلوں اور وادیوں میں ہے۔ بحرین کے شمال کا ساحلی علاقہ اپنی زرخیزی کی مثال آپ ہے اسی لیے اکثر باغات اور فصلیں اس علاقہ میں ہی ہے۔ کم و بیش اس 5مربع کلو میٹرز پر مشتمل اس حصے میں وہ سب کچھ اﷲ نے عطا کیا ہے جو باشندوں کو ضرورت ہے۔ یہ علاقہ شمال سے مشرق تک کجھوروں سے بھرا ہوا ہے۔ مزید اس میں ڈرائی فروٹ، خرمے، بادام، آنار، کیلے، انجیر، آم، انگور، اور مختلف انواع و اقسام کی سبزیاں ہیں۔ بحرین کا سب سے اونچا علاقہ جبل الدخان ہے۔ جبکہ آب و ہوا کے لحاظ سے عمومی موسم گرم ہے۔ المونیم مشرق وسطیٰ کے ممالک میں سب سے زیادہ بحرین میں ہوتا ہے۔یہاں غیر ملکی اور انٹر نیشنل کمپنیوں کے ہیڈ آفس بھی ہیں۔خلیج میں کویت، عراق جنگ کے موقع پر بحرین نے امریکہ کو فوجی اڈے فراہم کیے اور اس وقت بھی امریکی فوج کا پانچواں بحری بیڑا موجود ہے جو خلیج کا سب سے بڑا فوجی اڈہ ہے۔ دنیا کے چند ممالک میں اس کا شمار ہوتا ہے جہاں کوئی ٹیکس نہیں دینا پڑتا ۔ یوٹیلٹی بلوں میں 50فیصد کمی اور بیروزگاری الاؤنس بھی متعارف کروایاہوا ہے۔ انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ میں تیزی آئی ہے۔ ملک میں سڑکوں اور شاہراہوں کا جال بچھایا گیا۔ فوج اور پولیس میں مقامی لوگوں کو بھرتی نہیں کرتے جبکہ حکومت وسیع تعداد میں غیر ملکیوں کو شہریت دے رہی ہے۔ تین سال قبل بحرین میں ناکام بغاوت کے بعد تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ سعودی فوج کی مداخلت اور بحرین سکیورٹی فورسز میں پاکستانیوں کی موجودگی کی وجہ سے شاہ بحرین اپنے اقتدار کو بچانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ بحرین نیوی ائیر فورس، آرمی اورپولیس میں ہزاروں پاکستانی نہایت جانفشانی سے خدمات انجام دے رہے ہیں۔ پاکستان اور بحرین کے درمیان دوستانہ تعلقات کے قیام کا کلیدی کردار اداکرنے والا شاہ بحرین کے چھوٹے بھائی اور بحرین نیشنل گارڈ کے کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل شیخ محمد بن عیسیٰ الخلیفہ ہیں جو ہمیشہ پاکستان کو اپنا دوسرا گھر سمجھتے ہیں وہ اکثر پاکستان آتے رہتے ہیں اور پاکستانیوں کو بہت پسند کرتے ہیں۔ ان کے بارے میں مشہور ہے کہ منامہ میں پاکستانی سفارتخانے کے پاس سے گزر رہے ہوں تو پاکستانی ہلالی پرچم کو نہایت ادب و احترام اور مخصوص فوجی انداز میں سلیوٹ کرتے ہیں۔
 

Abdul Rehman Aajiz
About the Author: Abdul Rehman Aajiz Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.