جعلسازی کا ناسور

اولمپکس 2012 کی تقریبات شروع ہوئیں تو دنیا بھر کی توجہ کا مرکز بن گئیں۔ ایسے اہم موقع پر برطانوی اخبار میں پاکستان کے حوالے سے شائع ہونے والا ’’پاسپورٹ اسکینڈل‘‘ ہمارے ملک کے لیے بدنامی کا باعث بنا رہا۔ اس رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ مبینہ طور پرپاکستانی حکام اور ایک سیاستدان نے رقوم کے عوض برطانیہ میں داخلہ کے خواہشمند حضرات کو اولمپکس میں شرکت کرنے والے پاکستانی طائفے کاحصہ ظاہر کیا اور جعلی دستاویزات کی مدد سے ویزہ حاصل کرنے اور بر طانیہ میں داخل ہونے میں مدد فراہم کی۔ لہٰذا اولمپک جیسے اہم موقع پر برطانیہ میں دہشت گردوں کے داخلے کا خدشہ ظاہر کیا گیا۔ صد شکر کہ رپورٹ کافی حد تک غیر مصدقہ قرارپائی اور یوں ہم کسی بڑی بد نامی سے بچ گئے۔ گو بین الاقوامی اہمیت کے حامل اس موقع پر جعلسازی کے الزام سے بریت ہمارے ملکی وقار کے لئے خوش آئند رہی۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ جعلی ویزوں اور غیر قانونی طریقوں سے بیرون ملک داخلے کا کاروبار ہمارے ہاں ہر طرف پھیلاہوا ہے۔ گمنام ادارے تو ایک طرف ، بہت سی معروف کمپنیاں ، جو آئے روز اپنی تشہیر کے لیے لاکھوں روپے کے اشتہارات دیتی ہیں، اس گھناؤنے کاروبار میں ملوث ہیں۔بیرون ملک مستقل رہائش، تعلیم یا نوکری جیسے پر کشش خواب دیکھنے والے سینکڑوں افراد آئے روزجعلی امیگریشن اور ویزہ کمپنیوں کا شکار بنتے ہیں۔ ان ویزہ ایجنٹوں کی وجہ سے عوام کو فقط لاکھوں روپے سے ہاتھ ہی نہیں دھونا پڑتا بلکہ بعض اوقات غیر انسانی اور غیر فطری طریقوں سے بیرون ملک داخلے کی کوشش سے بہت سے افراد اپنی جان سے ہاتھ بھی دھو بیٹھتے ہیں۔ اول تو ایسے واقعات رپورٹ ہی نہیں ہوتے، پھر بھی کنٹینرمیں چھپ کر یا کشتی کے ذریعے سرحد پار کرنے کے خواہشمند افرادکی اموات کی خبریں ہمارے اخبارات کی زینت بنتی رہتی ہیں ۔ ایف آئی اے کی حالیہ رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال اومان، مسقط اور دیگرخلیجی ممالک سے 6223افراد کو جعلی ویزوں کی وجہ سے ڈی پورٹ کیا گیا۔ بالکل اسی طرح فقط سندھ سے جعلی دستاویزات پر سفر کرنے والے 3378مسافر آف لوڈ کیے گئے۔

جعلسازی اور فراڈ کا ناسور ہمارے ملک میں بری طرح پھیل چکا ہے۔ روزمرہ زندگی میں ہم اس رویے کے اس قدر عادی ہو چکے ہیں کہ بہت سے مواقع پر ہمیں ایسی صورتحال کا سامنا کرنے پر حیرانگی نہیں ہوتی۔ خریداری کے لیے جائیں تو دوکاندار خود ہمارے سامنے ایک، دو یا تین نمبر مال کی آپشن رکھ دیتا ہے۔ کسی بھی قسم کی دستاویزات کی تصدیق اور حصول کا معاملہ ہو یا ٹیکس سے متعلق معاملات۔۔۔ ہر ادارے میں پائے جانے والے ایجنٹس ہمیں "شارٹ کٹ "کے حوالے سے مکمل "رہنمائی" فراہم کرتے ہیں۔ ڈرائیونگ لائسنس جیسی حساس نوعیت کی دستاویز، جو اصل میں ایک فردکی اپنی اور سینکڑوں دوسرے شہریوں کی جان کا معاملہ ہے، مطلوبہ مراحل مثلا امتحان یا دفتری کاروائی سے گزرے بغیر باآسانی حاصل کی جا سکتی ہے۔

جعلسازی کی ایک خوفناک صورت ہاوسنگ اسکیموں، زمین کی خریداری اور انویسٹمنٹ کمپنیوں کی شکل میں موجود ہے۔ یہ ایک ایسا معاملہ ہے جس میں اپنا گھر بنانے یا کاروباری نفع حاصل کرنے کے سینکڑوں افراد اپنی عمر بھر کمائی سے یکمشت ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ بہت سے افراد تو کئی سالوں تک اپنی پائی پائی بچا کر گھر یا زمین کی اقساط کی ادائیگی کرتے رہتے ہیں اورآخر میں انہیں پتہ چلتا ہے کہ وہ جعلسازی کا شکار ہو چکے ہیں اور یوں وہ کنگال ہو کر بیٹھ رہتے ہیں۔ بہت سے مشہور و معروف ادارے، نامی گرامی لوگوں کی سر پرستی میں قائم ہیں اور قانون و انصاف کے رکھوالوں کی مدد سے بڑے ہی "قانونی "طریقے سے لوگوں کو لوٹنے کا کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔ آئے روز ایسے واقعات با قاعدہ رپورٹ ہوتے ہیں مگر کوئی پرسان حال نہیں ۔ حالانکہ جعلی دستاویزات ، رقوم کی ادائیگی کی رسیدوں، بڑے بڑے دفاتر اور میڈیا اشتہارات جیسے ثبوتوں کی موجودگی میں ایسے اداروں پر گرفت کرنا نہایت آسان ہے۔

شعبہ تعلیم بھی جعلسازی اور دھوکہ دہی کے عناصر سے محفوظ نہیں۔ جعلی ڈگری کے کیسز بے حد عام ہیں۔ اس کے علاوہ بہت سے بوگس تعلیمی ادارے کئی سالوں سے کام جاری رکھے ہوئے ہیں ۔ لا تعداد ڈگری ایوارڈنگ ادارے ایسے ہیں جنہیں ڈگری پروگرام شروع کرنے کی باقاعدہ اجازت بھی حاصل نہیں اس کے با وجود وہ طلباء سے ماہانہ لاکھوں روپے فیس وصول کرتے ہیں ۔ ان اداروں کے طلباء جب کئی سالوں کی محنت کے بعد ڈگری حاصل کر کے نوکری کی تلاش میں نکلتے ہیں تو تب انہیں معلوم ہوتا ہے کہ اس ڈگری کی اہمیت ایک کاغذ کے ٹکڑے سے زیادہ نہیں۔ اس حوالے سے حکومتی ذمہ دار اداروں کا کردار بھی قابل تعریف نہیں رہا۔ کچھ سال قبل HECکی طرف سے بلیک لسٹ تعلیمی اداروں کی ایک فہرست شائع کی گئی ۔ بہت سی سیاسی و سماجی شخصیات کے زیر سر پرستی یا زیر ملکیت چلنے والی یونیورسٹیاں اس فہرست کا حصہ تھیں۔ مگر اس کے باوجود ایسے اداروں کے خلاف کوئی ایکشن نہ لیا گیا۔ بہت سے اداروں کے سر براہان اس فہرست کی اشاعت کے بعد ، اپنی سیاسی وابستگیوں کی وجہ سے الحاق اور ڈگری ایوارڈ سٹیٹس حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔ بہت سے پرائیویٹ تعلیمی ادارے ایسے ہیں جن کے پاس یونیورسٹی کا درجہ حاصل کرنے کے لیے درکار عمارت، اساتذہ اور انفراسٹرکچر بھی میسر نہیں مگر اپنے" زور بازو" پر وہ اپنا کاروبار جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اگر ایسے ادارے تعلیم ادارے ڈگری جاری کرنے کا استحاق حاصل کرنے میں کامیاب ہو بھی جاتے ہیں تو ناقص معیار تعلیم کی وجہ سے آگے چل کر عملی میدان میں یہ ڈگری نوجوانوں کے مستقبل پر کوئی خاطر خواہ مثبت اثرات ڈالنے سے قاصر رہتی ہے۔ ایسے تعلیم اداروں کے فارغ التحصیل ڈاکٹرز، وکلاء یا انجیئنرز ملک و قوم کی بھلا کیا خدمت کر سکتے ہیں؟

حد تو یہ ہے کہ ہمارے مذہبی معاملات بھی جعلسازی مستثنٰی نہیں ۔مساجد کے لئے چندے کا حصول ہو، رمضان المبارک کے مہینے میں اشیائے خوردونوش میں کی جانے والی ملاوٹ یا حج کوٹہ میں بے ایمانی و بد نیتی پر مبنی اقدامات کے ذریعے حاجیوں کی دوران حج خواری کا معاملہ ۔۔۔ہمیں ہر جگہ اس وبا کا سامنا ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ سیاسی معاملات پر اپنا 80فیصد وقت صرف کرنے والا نیوز میڈیا عوام کو روزمرہ زندگی میں سامنا کرنے والے اس ناسور کے خاتمے کے حوالے سے مناسب کردار ادا کرنے میں بری طرح نا کام رہاہے۔ حقوق صارف کے حوالے سے کوئی معاملہ شاذ ہی میڈیا کی زینت بنتا ہے۔ غالباََ ایسے معاملات پر بات کرناخود میڈیا کے مفادات کے منافی ہے۔ آئے روز جعلی عاملوں اور چند ہی گھنٹوں میں آپ کو سلم سمارٹ، گورا یا خوبصورت بنانے کے دعویدار نیم حکیموں اور جعلی ڈاکٹروں کے بڑے بڑے اشتہارات اخبارات کی زینت بنتے رہتے ہیں۔ ۔۔۔ اور انہی عاملوں، حکیموں اور ڈاکٹروں کے ہاتھوں روپیہ، عزت آبرو اور اکثر اوقات جان گنوانے والے خواتین و حضرات کی خبریں بھی ۔ اصولی طور پر میڈیا میں اشتہارات کے حوالے سے باقاعدہ ایک کوالٹی کنٹرول کا نظام وضع کیا جانا چاہیے۔ عوام الناس کی جان و مال، عزت و آبرو سے متعلق اشتہارات باقاعدہ تحقیق کے بعد شائع یا نشر کیے جانے چاہیں۔ حکومت کا بھی اولین فرض ہے کہ اس حوالے سے میڈیا کو پا بند کیا جائے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومتی سطح پر کوئی فراڈ مینجمنٹ پالیسی وضع کی جائے اور کوئی ایسا ادارہ قائم ہونا چاہیے جو عوام کو جعلسازی کا نشانہ بنانے والے افراد اور اداروں پر گرفت کر سکے۔ مگر اس سب کے لیے ضروری ہے کہ قانون کی بالا دستی قائم ہو اور قانون ساز اور قانون کا نفاذ کرنے والے سب سے پہلے خود پر قانون کی پابندی کو لازم قرار دیں۔
 

Lubna Zaheer
About the Author: Lubna Zaheer Read More Articles by Lubna Zaheer: 40 Articles with 28578 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.