بسم اﷲ الرحمٰن الرحیم ہ
روشن خیالی کے نام پر ایمان و یقین، زبان و تہذیب سب کچھ داؤ پر !کیا ہند
میں اسلامی روایات کو بچانا ممکن ہو سکے گا؟؟
دنیا جس تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے ،قومِ مسلم خاص کر نیٔ نسل اسلام سے دور
اور دیگر مذاہب کے قریب ہوتی ہویٔ یا اپنی تہذیب سے دور ،اغیار کے رنگ میں
رنگتے ہوے ٔ نظر آ رہی ہے ،لیکن ستم بلاے ستم یہ ہے کہ ذمّدار یا سرپرست اس
بگاڑ یا تنزل کو اپنی ترقی یا کامیابی تصوّر کر رہے ہیں،یعنی جس طرح ترقی
کے نام پرزمانہ آگے بڑھ رہا ہے اُسی طرح کفر و الحاد کاشکار ہو کر ضلالت و
گمراہی کی طرف بھی گامزن ہے،ایک طرف دوسری قومیں بے چین ہو کر ،حق کو تلاش
کرتے ہوے ٔ اسلام کے دامن میں پناہ لے رہی ہیں ،دوسری طرف ہماری نیٔی نسل
دنیا کی رنگنی یا چمک دمک کو دیکھ کر اسلام سے بے بہرہ ہو رہی ہیں ،اس کے
کیٔ وجوہات ہیں ،ان میں ایک اہم وجہ اپنی زبان اور ہندستان میں ہماری مادری
زبان اردو سے دوری یا اردو اسکولوں کی بڑھتی ہویٔ بد حالی ہے،جس کی بناپر
زبانِ اردو اپنے ہی گھر میں یتیمی کے دن کاٹ رہی ہے،نتیجتاً قوم کا ایک بہت
بڑا طبقہ نہ صرف اردو زبان سے انجان ہو رہا ہے ،بلکہ دین اسلام سے بھی دور
ہوتا جارہا ہے،کیونکہ ہندستان میں ذیادہ تر اسلامیات تو اردو زبان پر ہی
منحصرہے، ہاں یہ اور بات ہے کہ دینی مدارس اس ضمن میں اہم کردار ادا کر رہے
ہیں،اور ان حالات میں بھی اس زبان کے نگہبان بنے ہوے ہیں ،لیکن اس کا نفع
بہت ہی کم ہے او ر ایک ر پورٹ کے مطابق یہ شرح صرف ۳ فیصدی کے اوپر نہیں ہے
،اوراسطرح قوم کا بہت بڑا طبقہ اس سے نا آشنا ہورہا ہے ،اوردوسری طرف
دشمنانِ اسلام یا اسلام مخالف عناصرباقعدہ ایک منصوبہ بند طریقہ سے تعلیمی
معیار کے نام پر فریب دے کرقومِ مسلم کو اردو زبان سے ہی کاٹنے کی کوشش میں
ہیں ،کیونکہ انہیں اندازہ ہو چکا ہے کہ ہندستان میں دین اسلام کی اشاعت و
ترویج اسی زبان ِ اُردوسے ہی ہویٔ ہے ،اور یہاں کامعاشرتی نظام اور تہذیب و
تمدّن،ثقافت اور اسکی اخلاقی قدریں وغیرہ سب اسی زبان سے وابستہ رہی ہیں،
اسلیٔے ایک گہری سازش کے تحت اردو زبان ا ور اروداسکولوں کی اہمیت وافادیت
پر پردہ ڈال کر اس کے وجود کو ہی ختم کرنا چاہتے ہیں ،مگر افسوس !ہم میں سے
اکثر اس سازش کو سمجھ نہں پا رہے ہیں،اسلیٔے جھوٹی ترقی اور روشن خیالی کے
نام پر دھوکہ کھا کر اغیارکے ترجمان بن رہے ہیں،اور اسطرح یہ ہندستانی
مسلمانوں کیلیٔے اس دور کا اہم مسلۂ تعلیم اور ترقی کے نام پر بنا ہوا
ہے،اوراسی بہانے خود اپنوں میں سے کچھ افراد ایسے بھی ہیں جو اس مسلم دشمن
پروپگیندہ کا شکار یا الہ ٔ کار ہو کر نہ صرف خود اردو زبان سے دور ہو رہے
ہیں،بلکہ دوسروں کو بھی اس زبان سے کاٹنے کی کوشش میں ہیں،جو کہ تشویش ناک
بات ہے ، اگر اس بات کونہیں سمجھا گیا اور اسکو بچانے یا ان اداروں کو طرقی
دینے کی کوشش نہ کی گی،ٔ تو وہ دن دور نہیں ہم مسلمان ہندستان میں اپنی
شناخت کھو دینگے،
یہ سچ ہے کے ہمارے اردو مڈیم اسکول کا تعلیمی نظام غیر معیاری یا نہایت
خستہ حال ہے ،جس کی شکایت ہر کویٔ کرتا ہے ؛ مگر اس کی اصلاح کی فکر کون
کرے؟ لیکن ہم میں سے اکثر اپنی اولاد کو یہاں سے نکال کر اغیا ر کے اداروں
میں داخلہ دلا کر اپنے اداروں کو نہ صرف کمزور بنا رہے ہیں،بلکہ زبانِ
اُردودیگراُردواسکولوں کے تباہی کے اسباب تیار کر رہے ہیں ،جو کے اگے جا کر
ہمارے لیٔے ایک بڑاالمیہ بن سکتا ہے، ہمیں یہ خوش فہمی ہے کے ہمارے لاڈے
وہاں سے کچھ بن کر ایٔں گے،لیکن وہاں سے شاہد ہی کچھ بن کر آیٔں ، مگر یہ
اخلاقی گراوٹ کی تازہ مثالیں ضرور پیش کرینگے، اور اس لارڈ میکالے کے
تعلیمی نظام کی وجہ سے ان میں اسلام ایک ٹمٹماتے ہوۓے چراغ کی طرح رہ
جاۓگا، جسے ہوا کا ایک جھونکا کسی بھی وقت گل کر دیگا، ہم میں سے ہر کویٔ
اپنی اولاد کو معیاری تعلیم دلوانا چاہتا ہے، مگر افسوس ہمارا کویٔ مناسب
انتظام نہ ہونے کے سبب اکثروں کو عیسایٔ مشینری اسکولوں کا رُ خ کرنا پڑ
رہا ہے ،جہاں صبح وشام مشرکانا یا ملحداناخیالات کی ترجمانی کی جاتی ہے ،اور
خالی ذہن بچوں کے دل ودماغ میں ایسی باتیں سرایت یا inject کی جاتی ہیں جو
اسلامی عقیدہ کے منافی ہوتی ہیں،مگر باوجود اسکے شایٔد ہی کویٔ ان کے ایمان
و عقیدہ کی فکر کرتا ہو ، اور کرے بھی کیسے اور وقت کہاں سے نکالیں؟
عمرسے زیادہ تعلیم کا بوجھ اوربچے کے وزن سے زیادہ کتابوں کا وزن لے کر جب
بچے گھر پہنچتے ہیں تو والدین ان کوعملی مشق، ہوم ورک میں لگا دیتے ہیں، یا
ٹیوشن کیٔلے بھیج دیتے ہیں، ایسے میں تو اسلامی تعلیم و تربیت کا سوچنا تو
دور کی بات اہم ترین فریضہ نمازکی ترغیب بھی مشکل ہے، الا ماشا ء اﷲ،
کیا ان حالات میں یہ نسل دین اسلام پر باقی بھی رہ پایٔگی؟ کیا ان بچوں میں
اسلام مخالف عنصر پیدا ہو کر پروان نہیں چڑے گا؟ اور کیا ایٔندہ یہ اسلام
سے بیزار یا منحرف نہیں ہونگے؟ اور کون بنے گے اس کے ذّمدار؟ والدین یا
سرپرست ؟ رہبرانِ قوم، علما ء الاسلام؟ خدارا سوچیٔے! اور اپنے رسولﷺ کے
فرمان پر غور کیجیے ٔجس کا مفہوم ہے ،تم میں ہر کویٔ ذمّدار ہے اسے اسکی
ذمّداریوں کے متعلق پوچھا جایٔگا،
ہمیں معلوم ہونا چاہیے کے صحیح تعلیم سے تو بصیرت اور اﷲ کی معرفت حاصل ہو
تی تب ہی اسے علم کہا جا سکتا ہے اور اگر یہ چیز میسّر نہیں تو ساری چیزیں
بیکار ہیں یا صرف چند روزہ دنیوی نفع کیٔلے تو شایٔد ہو سکتے ہیں مگر
اُخروی خسارے کے اسباب ضرور ہیں،جسے ہم اپنی محنت کی کمایٔ سے غیرارادی طور
سے خرید رہے ہیں، اسلیٔے ضروت ہے اس بات کی کے ہم اپنے آپ کو سنبھال لیں
اور اپنی سوچھ و فکروں کو بدلیں اور اپنی اولاد کی تعلیی معیار کے ساتھ ان
کی دین کی بھی فکر کریں، ورنہ جب موقع ہاتھ سے نکل جایٔگا اور ہمیں اپنی
غلطی کا احساس بھی ہوگا، مگراس دلدل سے یا اسکے اثرات سے بچنے یا اس کے
ازالے کی کویٔ صورت نہیں ہوگی ، سواے ٔافسوس و ندامت کہ اور آنسو بھی خشک
ہو کر خون کے انسوں رویٔنں گے ، مگر کچھ حاصل نہیں ہوگا، بلکہ اس ذمّداری
کے انحراف پر اﷲ عزوجل کے یہاں مجرم ٹھریں گے،
اسلیٔے ہمیں اس مسٔلہ پرغور کرنے کی ضروت ہے ،بجاے اس کے کہ ہم اپنا رُخ
موڑیں یا دوسری طرف متوجہ ہوں یا کویٔ ایسا اقدام جس سے ہمارے ادارے مزید
کمزور ہو کر یہ چراغ ہی گل نہ ہو جایٔں، بلکہ اپنے باقی ماندہ اداروں کو ہی
مضبوط اور مستحکم کرنے اور زمانے کے تقاضوں سے نمٹنے کیلیٔے ایک دوسرے کا
تعاون کرنے کی ضروت ہے، اور یہی وقت اور زمانے کا تقاضہ ہے ،ورنہ اردو زبان
اور اسکے اداروں کا جنازہ اُٹھنے میں دیر نہیں لگے گی اور اسطرح ہندستان
میں اسلامی روایات ،تہذیب،تمدّن و ثقافت کا باقی رہنا آسان نہیں ہوگا اور
اس کے ذمّدار ہم خود ہونگے ،اور کہیں ہم کو اقبالؒ کا یہ شعر یہاں کہنا نہ
پڑے ،
رو لے دل کھول کر اے دیدۂ خُو ننابہ بار،وہ نظر آتا ہے تہذیبِ حجازی کا
مزار۔۔۔۔ اللّھمّ حفظنا منہم |