کراچی: کامیاب کانفرنس مدارس ”اصلاحات “کے خلاف ریفرنڈم قرار

رواں سال فروری کے آخر میں حکومت پاکستان کی جانب سے قومی سلامتی پالیسی میں مدارس دینیہ کے حوالے سے متنازع شقوںکے سامنے آنے کے بعد سے دینی مدارس ان شقوں کی مخالفت کررہے ہیں۔ چونکہ مدارس دینیہ کے ذمہ دار حضرات قومی سلامتی پالیسی کومدارس کے نظام تعلیم اور فنڈنگ سسٹم کے لیے خطرہ اورمدارس کی آزادی کو سلب کرنے سے تعبیر کرتے ہیں، اس لیے دینی مدارس اور مذہبی جماعتوں کی جانب سے قومی سلامتی پالیسی کے خلاف منظم انداز میں احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔اس پالیسی کے خطرناک پہلوﺅں کو قوم کے سامنے آشکارا کرنے اور معاشرے میں مدارس دینیہ کے مثبت کردار و اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے مدارس کی جانب سے ملک بھر بڑے بڑے اجتماعات اور کانفرنسوں کے انعقاد کا سلسلہ جاری ہے۔ ملتان میں”تحفظ مدارس دینیہ و اسلام کا پیغام امن کانفرنس“ کے بعد گزشتہ روز دارالعلوم کراچی میں وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے زیراہتمام اور وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے سربراہ شیخ الحدیث مولانا سلیم اللہ خان کی صدارت میں ”تحفظ مدارس دینیہ و اسلام کا پیغام امن “کے عنوان سے ایک عظیم الشان کانفرنس کا اہتمام کیا گیا۔ کانفرنس کا آغاز صبح نو بجے ہوا اور شام تک مقررین کے خطابات کا سلسلہ چلتا رہا۔ اتوار کے روز کانفرنس کے موقع پر دارالعلوم کراچی میں ہر جانب انسانوں کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر دکھائی دے رہا تھا،چار سو سر ہی سر نظر آرہے تھے۔ ذرائع کے مطابق دارالعلوم کراچی میں منعقدہ کانفرنس میں 25سے 30ہزار افراد نے اس کانفرنس میں شرکت کی، جن میں سندھ کے تقریباً 4 ہزار مدارس کے مہتممین بھی شامل تھے ۔ اس کانفرنس کا مقصد چونکہ مدارس دینیہ میں نمایاں کارکردگی دکھانے والے اہل مدارس کو انعامات سے نوازنا بھی تھا، اس لیے کانفرنس میں 340 طلبہ و طالبات میں انعامات و اسناد تقسیم کی گئیں۔جن میں میں 200 طالب علموں کو امتیازی کارکردگی پر انعامات و اسناد دی گئیں، جبکہ 140 طالبات کی شیلڈ ان کے سرپرستوں نے وصول کیں۔اس کے ساتھ ساتھ سندھ بھر کے 4 ہزار مدارس میں سے 76 کے مہتممین کو بھی بہتر کارکردگی پر اسناد دی گئیں۔انعامات حاصل کرنے والے تمام طلبہ و مہتممین حضرات کو وفاق المدارس العربیہ کے ناظم اعلیٰ نے کانفرنس کی جانب سے انعام حاصل کرنے پر مبارکباد پیش کرتے ہوئے نیک تمناﺅں کا اظہار بھی کیا۔

دارالعلوم کراچی میں منعقد ہونے والی کانفرنس میں مفتی محمد رفیع عثمانی، شیخ الاسلام مولانا مفتی محمد تقی عثمانی، جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن، مولانا ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندر، اہلسنّت والجماعت کے سربراہ مولانا محمد احمد لدھیانوی، جے یو آئی کے رہنما مولانا حافظ حسین احمد، وفاق المدارس کے سیکرٹری قاری محمد حنیف جالندھری، مولانا اسفند یار خان، جامعة الرشید کے شیخ الحدیث و رئیس دارالافتاءمفتی محمد، وفاقی وزیر مولانا عبدالغفور حیدری، مفتی ابوہریرہ محی الدین،مولانا حق نواز، مولانا ادریس، مولانا سعد یوسف، مولانا قاضی محمود الحسن اشرف، مولانا سید عدنان کاکا خیل، قاضی عبدالرشید سمیت ہزاروں جید علمائے کرام اور رہنماﺅں نے شرکت کی، جن میں سے متعدد علمائے کرام نے کانفرنس سے خطاب بھی کیا۔کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کا کہنا تھا کہ آئے دن حکومتیں مغرب کے اشاروں پر مدارس کے حوالے سے نئی نئی پالیسیاں بناتی ہیں۔ 1994ءسے 2004ءتک مدارس کی رجسٹریشن پر مکمل پابندی تھی۔ وفاق ہائے مدارس اور حکومت کے تعاون سے نیا قانون بنا، جس کے تحت مدارس کی رجسٹریشن کی گئی۔ اب اس مسئلے کو دوبارہ کیوں اٹھایا جارہا ہے؟۔ اس کا مطلب ہے کہ کہیں اسلام اور پاکستان دشمن قوتیں موجود ہیں ،جو پاکستان کو غیر مستحکم کرنا چاہتی ہیں۔ حالات اچھے نہیں ہیں۔ دنیا نے طے کرلیا ہے کہ مدارس کے حوالے سے کچھ کیا جائے، لیکن ہم نے بھی طے کیا ہے کہ ہم مدارس کا ہر محاذ پر تحفظ کریں گے۔ آج آئین کی بات کی جاتی ہے۔ جتنے بڑے مجرم آئین کو نہ ماننے والے ہیں، اتنے ہی بڑے مجرم آئین پر عمل نہ کرنے والے بھی ہیں۔مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد رفیع عثمانی نے بھی کانفرنس سے خطاب کیا جس میں انہوں نے کہا کہ مدارس نے ہمیشہ اپنے نصاب میں تبدیلی کی ہے اور وقت کے ساتھ تبدیلیاں ہوتی رہتی ہیں۔ لوگ مدارس میں بدامنی قرار دیتے ہیں، مگر عصری تعلیمی اداروں کے مقابلے میں کوئی ایک مثال پیش نہیں کی جاتی۔ مدارس امن کا گہوارہ ہیں۔ یہاں دنیا بھر کے طلبہ وطالبات دین کی تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ ان میں کوئی تفریق نہیں ہے۔ ہم نے عصری تعلیم کے خلاف کبھی بات نہیں کی، بلکہ خود بیشتر مدارس میں دین کے ساتھ دنیاوی تعلیم بھی دی جارہی ہے۔مدارس کا ماحول جدید دور کے تقاضوں کے مطابق معیاری اور اعلیٰ ہے۔

اہلسنت والجماعت کے سربراہ مولانا احمد لدھیانوی نے کانفرنس سے اپنے خطاب میں کہا کہ مدارس کا ہر ممکن تحفظ کریں گے۔ حکومت مدارس کی آزادی کو چھیننے کی کوشش کررہی ہے اور بعض قوتیں مدارس کو ختم کرناچاہتی ہیں۔ ہم ان کو آگاہ کرتے ہیں کہ دشمن کی گولیاں اور بم دھماکے گزشتہ دو دہائیوں سے کراچی میں مدارس کی راہ میں رکاوٹ بن سکے اور نہ ہی اب حکومتی اقدام رکاوٹ بن سکیں گے۔ اسلام کے نام پر قائم ہونے والے ملک میں مدارس عربیہ کی بھیک مانگنا افسوسناک ہے۔ پاکستان جس نظریے کے تحت بنا اس کے حقیقی محافظ علمائ، طلبہ اور مدارس ہی ہیں اور یہی لوگ نظریہ پاکستان کے محافظ بھی ہیں۔ ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندر نے کہا کہ مدارس میں وحی کے علوم پڑھائے جاتے ہیں اور یہی علوم ہماری بقاءکا ذریعہ ہیں۔ اگر دین نہ ہوتا تو آج پاکستان بھی نہ ہوتا۔ مسلمانوں کو دین اور مدارس کے ساتھ اپنا رشتہ مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔ تحفظ مدارس دینیہ اور اسلام کا پیغام کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے شیخ الاسلام مولانا مفتی محمد تقی عثمانی نے کہا کہ دنیا کی کوئی طاقت استاد اور شاگرد کے تعلق کو ختم نہیں کرسکتی۔ پروپیگنڈوں کے باوجود مدارس قائم ہیں اور آیندہ بھی رہیں گے، کوئی بھی ان کو ختم نہیں کرسکتا۔ مدرسہ کسی عمارت کا نام نہیں بلکہ یہ استاد اور شاگرد کے باہمی تعلق کا نام ہے، جہاں بھی جگہ ملے گی علمائے کرام دین کی خدمات انجام دےتے رہیں گے۔مدارس کی خدمات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، مدارس کے خلاف اگر کوئی اقدام ہوا تو ہر ممکن اس کا دفاع اور تحفظ کیا جائے گا اور ہم مرتے دم تک اپنی اس جدوجہد کو جاری رکھیں گے۔ مدارس کے نصاب میں جدید دور کے تقاضوں کے مطابق چیزیں شامل ہیں۔ وفاق المدارس ایک عظیم چھتری ہے جس کے نیچے مختلف الخیال جماعتیں اور رہنما بیٹھ کر فیصلے کرتے ہیں۔ وفاق المدارس العربیہ کے ناظم اعلیٰ قاری محمد حنیف جالندھری نے کہا کہ مدارس کے خلاف ہونے والی سازشوں کے خلاف احتجاج کا سلسلہ جاری رہے گا، اس حوالے سے ملک کے مختلف حصوں میں اسی طرح کے بڑے اجتماعات منعقد کیے جاتے رہیں گے۔ مدارس کو خراج تحسین پیش کرتاہوں جہاں پر علم وتحقیق کے شناور پیداہوئے اورانہوں نے اصلاح امت کے لیے اپناکردار ادا کیا۔ اسلام دشمن عناصر مدارس کو ناکام بنانے کے لیے مختلف ہتھکنڈے استعمال کررہے ہیں، تاہم یہ اجتماع اس بات کا اعادہ کرتاہے کہ اس طرح کی تمام سازشوں کوناکام بنادیا جائے گا۔ اجتماع اس حقیقت کا اعادہ کرتاہے کہ پاکستان کا استحکام، امن وامان اور ملک میں نفاذ اسلام ہرشہر ی کابنیادی مقصد ہونا چاہیے۔

کانفرنس کے بعد متعددمذہبی وسیاسی جماعتوں کے رہنماﺅں نے وفاق المدارس کے زیراہتمام دارالعلوم کراچی میں اتوار کے روز عظیم الشان تحفظ مدارس واسلام کاپیغام امن کانفرنس کی کامیابی پرپوری قوم کومبارکبادپیش کرتے ہوئے اسے قومی سلامی پالیسی میں مدارس اصلاحات کے خلاف ریفرنڈم قراردیااورکہاکہ کراچی کی موجودہ پیچیدہ صورتحال کے باوجودہزاروں افراد کی تعدادمیں کانفرنس میں شرکت کرکے حکمرانوں پرواضح کردیاکہ مدارس کے تحفظ کے لیے کسی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے۔علمائے کرام نے حکمرانوں کوواضح پیغام دیاکہ مدارس کی خودمختاری پرکوئی سودہ بازی نہیں کریں گے اورنہ ہی کسی کواجازت دیں گے کہ وہ مغرب کے ایجنڈے پرعمل درآمدکرتے ہوئے مدارس کی خودمختاری پامال کریں۔مبصرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں دینی مدارس ہزاروں کی تعداد میں ہیں، جن کی تاریخ طویل ہے، ان مدارس نے ہمیشہ بغیر کسی لالچ اور دباﺅ کے اسلام اور وطن کی خدمت کی ہے۔اگر تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ جنگ آزادی اور آزادی پاکستان سمیت ہر تحریک میں یہ مدارس ہراول دستہ رہے ہیں،جنہوں نے قوم کے ایمانوں اور ان کی جانوں کی حفاظت کی ہے۔دوسری جانب اسلام دشمن قوتیں ہمیشہ ان مدارس کی مخالف رہی ہیں، کیونکہ یہی مدارس ہمیشہ ان قوتوں کے گھناﺅنے مشن کی راہ میں رکاوٹ بنتے ہیں،ان کی عیاری و منافقت کو قوم کے سامنے عیاں کردیتے ہیں، یہی بات ان قوتوں کو کھٹکتی ہے اور وہ مختلف حیلوں بہانوں کے ساتھ معاشرے میں مدارس دینیہ کا امیج خراب کرنے کی تگ ودو میں مگن ہیں۔ہماری ہر آنے والی نئی حکومت کبھی انجانے میں اور کبھی جان بوجھ کر مدارس دینیہ کے خلاف مختلف قسم کے قوانین بناکر ان قوتوں کے مشن کو آگے بڑھاتی ہیں ۔حالانکہ مدارس کے حوالے سے قومی سلامتی پالیسی میں جو شقیں زیر بحث ہیں ،وہ گزشتہ حکومتوں میں کئی بار زیر بحث رہ چکی ہیں اور مدارس کی جانب سے ہر بار حکومت کے تحفظات بھی دور کروائے جاتے رہے ہیں، اس کے باوجودہر نئی آنے والی حکومت کا مدارس کے خلاف پروپیگنڈا کرنا اور بلاوجہ ان کو مورد الزام ٹھہرانا عقل سے ماورا ہے۔ ملک میں مدارس دینیہ کا ایک بہت بڑا تعلیمی نیٹ ورک ہے، جس کو تمام عصری تعلیمی اداروں کی طرح وزارت تعلیم کے تحت اثر ہونا چاہیے، لیکن حکومت نے مدارس دینیہ کو وزارت داخلہ کے تحت دیا ہوا ہے،جس کا مطلب یہ ہوا کہ حکومت ان مدارس کو تعلیمی ادارے ہی نہیں سمجھتی اور مدارس کے ساتھ تعلیمی اداروں کا سا سلوک ہی نہیں کرنا چاہتی۔حکومت کو چاہیے کہ مدارس کے ساتھ امتیازی سلوک نہ کرے، کیونکہ یہ مدارس ہی اسلام کے قلعے اور وطن کے محافظ ہیں۔

کانفرنس کا اعلامیہ
تحفظ مدارس دینیہ کانفرنس میں 17 مختلف قراردادیں منظور کی گئیں، جن میں مطالبہ کیا گیا کہ ملک میں بلاتاخیر اسلامی نظام نافذ کیا جائے، اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کو مدنظر رکھتے ہوئے قانون سازی کی جائے، مدارس امن، اخوت کی تعلیم دے رہے ہیں، مدارس اصلاحات کے نام پر ہونے والے اقدامات کو مستردکرتے ہیں، اسلام کا انتہاپسندی سے کوئی تعلق نہیں،مدارس کے خلاف تمام الزامات مستردکرتے ہیں، امن قائم کرنے کے لیے سپریم کورٹ کے ججوں پر مشتمل کمیشن تشکیل دیاجائے جو 3 ماہ میں بدامنی کے اسباب کا سراغ لگا کر سفارشات مرتب کرے، دینی مدارس میں ایجنسیوں کی مداخلت اور طلبہ و علماءکی ٹارگٹ کلنگ بندکی جائے، ڈرون حملوں کی مذمت کرتے ہیں، فاٹا میں شہید ہونے والے مدارس و مساجد کو حکومت ازسرنو تعمیرکیا جائے، میڈیاکے لیے ضابطہ اخلاق جاری کیا جائے، بے حیائی کو اسلامی اقدار کی خلاف ورزی قراردیاجائے، ایک قرارداد میں طالبان اور حکومت کے مابین مذاکرات کا خیر مقدم کرتے ہوئے مطالبہ کیا گیا کہ مذاکرات کو بامقصد اور نتیجہ خیز بنانے کے لیے پارلیمنٹ کی منظور کردہ قراردادوں اور قبائل کے جرگے میں طے شدہ امور کو مدنظر رکھا جائے۔ مذاکرات کو نتیجہ خیز بنانے کے لیے خواتین اور بچوں کی فوری رہائی ممکن بنائی جائے۔ امریکا اور نیٹو سے گزشتہ 12 سالوں میں ہونے والے نقصانات کے ازالے کا مطالبہ کیا جائے اور ڈرون حملوں میں جاں بحق ہونے والے افراد کے ورثاءکو دیت دی جائے۔ مدارس کی سند کو ایم فل اور پی ایچ ڈی میں داخلے کے لیے تسلیم کیا جائے۔ ایک قرارداد میں ڈاکٹرعافیہ صدیقی کی رہائی کا مطالبہ اور وفاق المدارس پر مکمل اعتماد کا اظہار کیا گیا۔
عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 700956 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.