گولیوں کی آواز نے سب کو پریشان
کردیا تھا ،استاذکلاس میں موجود تھااس کے باوجود بھی پہلی نشست سے ’’طالب
علم ‘‘اُٹھ کر کلاس کے عقبی حصے میں موجود روشن دان نما کھڑکیوں سے باہر
اقبال کے’’ شاہینوں‘‘کو جھپٹتا دیکھ رہے تھے ،یہ شاہین ابھی ابھی اپنے پروں
کو گرم ہوا دے چکے تھے ،ایسے میں کلاس کا ردھم و تسلسل یک بارگی ٹوٹ چکا
تھا جس کو’’ سلیم الطبع ‘‘اپنی فطرت سے پھر سے ہمکنار کرنے کی پھر پور کوشش
کررہا تھا مگر اُن کی یہ سعی لاحاصل اُس وقت اپنا دم توڑ گئی جب بار بار
دوازہ واہو کر اب مکمل کلاس کو برہنہ کرچکا تھا ،جس کی وجہ سے کلاس کی اب
تما م نظریں باہر کے طلاطم کو دیکھ رہی تھیں اوریہی وہ لمحہ تھا کہ بغیر
حاضری لئے ’’سلیم الفطرت ‘‘اُستاذ اپنے دفتر کی طرف روانہ ہو چکاتھا،جب کہ
یہی وہ لمحہ ہوتا ہے جہاں لمحوں کی خطا سے صدیوں نقصان برداشت کرتی اور
دُکھ جھیلتی ہیں ۔لڑکیاں اپنی فطرت کے مطابق ٹولیوں میں جمع ہو چکیں
تھیں،ہر طرف ہیجان کی کیفیت تھی،ہر دوسرا شخص اپنے گھر کی فکر میں مگن
اِدھر سے اُدھر کا سفر ایویں ہی کر رہا تھا ۔یہ وہ لمحہ تھا جس میں مجھے
انجان سی خوشی ہو رہی تھی،گھر کی فکر تھی نہ اندر رہ جانے کا خوف تھا ،کچھ
بے قصوروں کو دیکھ کر دل اپنی فطرت پر آنا چاہ رہا تھا مگر یہ غم بھی غلط
کرنے کے لئے لٹکتے اور مایوس چہروں سے دو جملوں میں ہی سہی ہمددی کر کے
اپنے دوست ’’موبائل ‘‘کی مدد سے اپنا فریضہ انجام دینے لگا تھا ۔کہ اسی
لمحے’’عزت مآب خواتین ‘‘کے لئے بخفاظت نکل جانے کے احکامات جاری ہو چکے تھے
،جس کی تعمیل میں ٹولیاں اب بٹنا شروع ہو گئیں تھیں ،چند ہی ساعتوں میں
یونیورسٹی کا صدر گیٹ بند کردیا گیا تھا چور دروازے سے اساتذہ کو باہر
نکالا جارہا تھا ۔
اب گیٹ بند مگر طلباء کرام کی سوچوں کے دریچے کھل چکے تھے ،دنیا بھر کی نئی
قیاس آرائیاں تھوک کے حساب سے جنم لے رہی تھیں ،تبصرے اور تجزئے ایسے شروع
ہو چکے تھے کہ جی چاہتا تھا کہ واشنگٹن ڈی سی کا اداریہ انہی سے لکھوایا
جائے ، دوسری طرف ’’وفاقی مجاہدین ‘‘اپنے ماتحت ’’مجاہدوں ‘‘کی صفیں آراستہ
کرر ہے تھے ،دل ہی دل میں دشمن سے نبرد آزما ہوکر فتح کے نقشوں میں رنگ بھی
بھررہے تھے ،گیٹ کے اُس پار بھی دشمن کو ناکوں چنے چبوانے کا عہد کیا رہا
تھا،حکومتی اور طالبان کمیٹی کے مذاکرات موسم کی خرابی کے باعث اگرچہ آج کے
لئے ملتوی ہوچکے تھے مگر ہماری سپاہ اور رینجرز کے کڑیل جوان پوری سُرعت سے
’’مذاکرات‘‘کا عمل شروع کرچکے تھے سیز فائر کا اعلان کیا جا چکا تھا
’’شاہینوں ‘‘کے جُھنڈ میں کرگسوں ،شکروں اور چیلوں کو متاثر ہونے سے بچانا
اِس ’’سپاہ ‘‘کی اولین ترجیع بن چکی تھی ۔
لڑکی کو ’’چھیڑنے ‘‘سے شروع ہونے والی مذکورہ گھمسان کی لڑائی میں لڑنے کا
عزمِ صمیم کئے ہوئے’’وفاقی مجاہد ‘‘سر بکف و سر بلند تھے ،دُشمن کی صفوں کو
چیرنے کے لئے دونوں طرف عملی تدبیریں کی جاچکی تھیں ،لمحہ بہ لمحہ آگاہ
ہونے اور مذید جانکاری کی جُستجو کھائے جارہی تھی،مجھے مکمل آگاہی کی
فکرتھی ،بہت سی بریکنگ’’ٹوئیٹر‘‘پر نقش جما چکی تھیں جس کے بعد ’’ٹکرز ‘‘نے
معاملے کو دو آتشہ کے بجائے سہ آتشہ کردیا تھا ۔بس انتظار تھا کہ وصل ہو
اورگولیوں کی گن گرج میں لاشیں گریں تا کہ’’وفاقی مجاہدین ‘‘ کے جوانوں کی
شہادت کو سرخ ،سبز اور سفید سلام پیش کرتے ہوئے شہداء کے جنازوں کو پورے
اعزازو احترام کے ساتھ سپرد’’ خاک ‘‘کیا جائے ۔یہی سوچ جارہی تھی کہ مسجد
سے اﷲ و اکبر کی صدا بلند ہوگئی ۔سوچ اپنا حصار کھو بیٹھی تھی ۔جس میں اب
تسلسل لانا ممکن ہی نہیں تھا ۔دو دنوں کی جھڑپوں میں صرف 15’’وفاقی مجاہدین
‘‘ہی اسپتال کا راستہ دیکھ سکے تھے ۔
اس سے پہلے کہ میری منتشر سوچ پھر شہداء کے ’’نوحے ‘‘پڑھنے کی طرف آتی،مگر
اِس جاتی آتی سوچ نے مجھے دم بخود کردیا تھا ،لاشعور سے شعور کا رابطہ
ہوچکا تھااوریہ خیالات نقشِ ذہن پر مسلسل اُبھر رہے تھے کہ یہ لڑائی لڑنے
والے دشمن تو نہیں ہیں،اِن کی وردیاں بھی اک جیسی ہیں اور اِن پر موجود’’
تمغے‘‘ بھی بہادری کی ایک ہی جیسی مثال و علامت بنے ہوئے ہیں ،ان کا’’ بال
سے چال تک ،ڈھال سے کھال تک ،پیاس سے کیف و مستی تک ، کلاس سے استاز تک اور
کہیں کہیں دوست سے دوست تک ‘‘سب کچھ ایک ہی جیسا تو ہے ،یہ دشمن ہر گز نہیں
ہیں،ضرور کوئی نہ کوئی چال ہے ،ہو نہ ہو اِس چال کے پیچھے کسی انتہا پسند
’’مولوی‘‘ کا ہاتھ ہے،یہ ’’دقیانوسی ‘‘ہوتے ہی ایسے ہیں، تھوڑی دیر پہلے جو
گولیوں کی آواز سنی گئی تھی وہ ضرور کسی مدرسے سے لائی گئی ہوں گی ،ہو سکتا
ہے اب بھی گولیاں وافر مقدار میں موجود ہوں،ان ’’وفاقی مجاہدین‘‘یہیں کراچی
کے مدرسے کے ’’طالب علم ‘‘ہیں، اِنہوں نے مہلک ہتھیاروں کو چلانے کا گُر
بھی کسی مدرسے کے ذریں خانے میں ہی سیکھا ہو گا ۔یہ اسلحہ ،گولیاں ، مار
دھاڑ، اورعدم برداشت تو مدرسوں کا خاصہ ہے ،ایک ایک مدرسے کے باہر باقاعدہ
پولیس اور رینجرز کے جوان ہر وقت چاق و چوبند رہتے ہیں ،مدرسوں میں تو بہت
سی طلباء تنظیمیں ہوتی ہیں جس کا کام ہی فساد بپا کرنا ہوتاہے ،پڑھنا اِن
کا مقدر وترجیع کبھی رہا ہی نہیں ہے ،نقل مار کے عقل بھی گنوا بیٹھتے ہیں
،مدرسے کی چاردیواری میں ہزاروں’’لڑکے‘‘24گھنٹے ساتھ رہتے ہیں ،اسی لیے
پولیس اور رینجرز کی نفری میں آئے روزاضافہ ہوجاتاہے کہ کہیں بڑا ہنگامہ نہ
کھڑا کردیں ،ہر سال یہ امتحان میں گڑ بڑ بھی کرتے ہیں، ان کی وجہ سے ہمیشہ
پرچے ملتوی ہوتے ہیں ،امتحانات کے نتائج بھی دیر سے آتے ہیں ، بھلا
یونیورسٹی کا بھولا بھالااور احساسِ کمتری کا شکار ’’طالب علم‘‘ کیوں کر
ایسی غیر اخلاقی سرگرمیوں کا حصہ بنے گا؟ اور پھرقسمت کی مہربانی کہ ’وفاقی
اردو یونیورسٹی کے طلباء کے بارے میں تو ایسا سوچنا ہی فضول ہے ۔ یہاں بجٹ
کا باقاعدہ حصہ’’ سیکورٹی ‘‘ کے لئے مختص ہے ،ویسے بھی یہاں پر ہر وقت
مختلف علوم و فنون سیکھائے جاتے ہیں یہاں ایک ڈیپارٹمنٹ دوسرے سے الگ ہے
،یہاں تو ڈیپارٹمنٹ کی طرح وسعت قلبی بھی طلبا ء میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوتی
ہے ،موضوعات کے ساتھ ساتھ یہاں تو ڈیپارٹمنٹ کی بلڈنگ تک الگ الگ ہیں ،یہاں
لڑائی جھگڑا ممکن ہی نہیں ہے ،یہاں اقبال کے ’’شاہین ‘‘خودی ‘‘ تلاش کررہے
ہوتے ہیں ،چٹانوں پر بسیرے کی عملی مشق سے بھی انہی کا گزر ہو رہا ہوتا ہے
اور اِس سے بڑھ کر اور وزنی دلیل کیا ہوسکتی ہے کہ الزام لگنے والی ایک
تنظیم پیپلزاسٹوڈنٹس فیڈریشن(پی ایس ایف) کاتعلق روٹی ،کپڑا اور مکان کے
’’نعرے ‘‘ کی شہرت رکھنے والی شہداء کی پارٹی سے ہے جب کہ دوسری بھی مقدس
جماعت انجمن طلبا ء اسلام (اے ٹی آئی ) جس کا منشور ہی خوف خدا اور عشق
مصطفے ہے ۔ جب تک کہ میں صحیح نتیجہ تک پہنچتا ،پولیس اور رینجرز نے
محصورین یونیورسٹی کو بحفاظت نکال لیاتھااورتب تک میڈیا یک طرفہ اور’’جھوٹے
الزامات‘‘ مستقبل کے ان مہماروں اور حقیقی ’’طالب علموں‘‘پر لگاچکاتھا،مگر
قارئین و ناظرین خوب جانتے ہیں کہ شدت پسند مدرسوں والے ہیں یونیورسٹیاں تو
امن کاگہوا راہوتی ہیں۔ |