پشاور میں وفاق المدارس العربیہ پاکستان کی حیرت انگیز تقریب

اس وقت جامعہ عثمانیہ پشاورمیں ہوں اور یہاں وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے زیراہتمام منعقدہ ملک گیر’’ تحفظ مدارس واسلام کا پیغام امن‘‘ اجتماعات کے سلسلے کا چوتھا اجتماع انعقاد پذیر ہے ۔جامعہ عثمانیہ کے پبی نوشہرہ میں واقع وسیع وعریض نیوکیمپس میں منعقدہ یہ پروقار ،شاندار ،یادگار اور ایمان افروز تقریب بلاشبہ مدارس دینیہ اور وفاق المدارس کی خدمات وکردار اور شان وشوکت کا مظہر ہے ۔ تقریب کے کنوینئروفاق المدارس صوبہ خیبر پختونخواہ کے مولانا حسین احمد ، حسن انتظام کے اعتبار سے شہرت رکھنے والے جامعہ عثمانیہ کی میزبانی اور مولانا مفتی غلام الرحمن جیسی ہستی کی سرپرستی میں اس تقریب کا انعقاد ایسی سلیقہ مندی کے ساتھ سرانجام دیا جا رہا ہے کہ انسان ورطہ حیرت میں ڈوب جاتا ہے ۔یوں محسوس ہوتا ہے جیسے مولانا حسین احمدا ور ان کے جملہ رفقاء نے ،صوبہ خیبر پختونخواہ کے تمام اضلاع کے مسؤولین وفاق المدارس ،صوبہ خیبر پختونخواہ کے تین ہزار پانچ سو بیس مدارس کے مہتممین اور طلباء نے دن رات ایک کر کے،دامے درمے سخنے قدمے ہر طرح سے اپنا حصہ ڈال کر اس فقید المثال تقریب کا انعقاد یقینی بنایا ۔

نوشہرہ میں داخل ہوتے ہی خیر مقدمی بینر ،استقبالیہ کیمپ ،راستوں کی رہنمائی کرتے رضاکار پروگرام کے حوالے سے پہلا تاثر قائم کرتے ہیں پھر جامعہ عثمانیہ میں داخل ہوتے ہی یوں محسوس ہوتا ہے جیسے جامعہ کے درودیوار اور گل بوٹے جشن منا رہے ہوں،راقم الحروف کو وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے جنرل سیکرٹری مولانا محمد حنیف جالندھری کی قیادت ومعیت میں یہاں حاضری کی سعادت نصیب ہوئی۔ حضر ت جالندھری کے استقبال کے لیے جامعہ عثمانیہ کے طلباء نے خیر مقدم کا انتہائی منفرد انداز اختیار کیا اور غالباً تمام اکابر اور معزز مہمانوں کو اسی اندازسے پنڈال میں لایا گیا۔ جامعہ عثمانیہ کے مستعداور متحرک طلباء نے مولانا جالندھری کو اپنے جھرمٹ میں لے لیا ……راستے کے دونوں اطراف میں سفید براق لباس میں ملبوس طلباء نے خیر مقدمی ترانے پڑھتے ہوئے سلام عقید ت پیش کیا ……مختلف مراحل پر نمائندہ طلباء آگے بڑھ کر استقبال کرتے رہے اردو ،عربی اور انگریزی میں خیر مقدمی کلمات کہتے۔خیر مقدم کا یہ انداز’’first impression is the last impressionیعنی پہلا تاثر ہی آخری تاثر ہوتا ہے‘‘ کا مصداق تھا ۔پھر پنڈال میں آئے تو مزید بہت سی حیرتیں منتظر تھیں ۔تاحد نگاہ پھیلا ہوا پنڈال نوارانی چہروں سے دمک رہا تھا ،پورے صوبے خیبر پختونخواہ کی نمائندگی موجود تھی ۔اسٹیج پر نامی گرامی اکابر ،علماء کرام ،مشائخ عظام کی کہکشاں دلوں کے اطمینان کا باعث بن رہی تھی۔مجمع میں زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگ موجود تھے ……صوبہ خیبر پختونخواہ کی یونیورسٹیز کے وائس چانسلرز اورمیڈیا کے نمائندوں کی بڑی تعداد موجود تھی ۔

وہ خیبر پختونخواہ جس کے بارے میں یہ تاثر ہے وہاں کی فضاؤں میں بارود کی بو پھیلی ہے ……جس خطے کو دہشت گردی کا گڑھ قرار دیا جاتا ہے ……جس خطے کے دینی وضع قطع کے طلباء کو دنیا بھر میں خرابی کا ذمہ دارا قرار دیا جاتا ہے ……جس علاقے کی پہچان اب بم دھماکے اور کلاشنکوف بنا دی گئی اس خطے میں ایسی پروقا ر تقریب ……امن وامان کا ایسا عملی پیغام ……نظم وضبط کا ایسا مظاہرہ ……ایسی شاندار تعلیمی تقریب جو شاید کسی یونیورسٹی کی انتظامیہ کے بس کا روگ بھی نہ ہو ……سوچتا ہوں دہشت گردی کے ڈانڈے مدارس سے جوڑنے والے اس تقریب کو دیکھ لیتے تو وہ ضرور اپنی رائے پر نظر ثانی پر مجبور ہو جاتے ……غیرت منداور اسلام پسند پختون بھائیوں کے بارے میں لطیفے تراشنے والے وفاق المدارس کے اس اجتماع میں آجاتے تو وہ پختونوں کے اس اجتماع کو جھک جھک کر سلام عقیدت پیش کرنے پر مجبور ہو جاتے ……دینی مدارس پر طعن وتشنیع کے نشتر برسانے والے اس تقریب میں آئے ہوئے پوزیشن ہولڈر طلباء کے دمکتے چہروں کو دیکھتے اور ان کے جذبات اور ارادوں کو جاننے کی کوشش کرتے تو شاید ہدایت ان کا مقدر بن جاتی ……

اکابر علما ء کرام کی پشاور اجتماع میں آمد نے اجتماع کو چار چاند لگا دئیے ……کراچی سے مولانا مفتی رفیع عثمانی تشریف لائے ،مولانا ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندر جلوہ افروز ہوئے ،حضرت صدر وفا ق کے صاحبزادہ مولانا عبیداﷲ خالدحضرت شیخ کا تحریری بیان لائے اور پڑھ کر مجمع کو سنایا ……حضر ت شیخ نے علماء وطلباء کو اخلاص وﷲیت اور تقوی ٰ وپرہیزگاری کو اپنا شعار بنانے کا پیغام دیا ۔انہوں نے حکمرانوں کو خبردار کیا کہ وہ مدارس دینیہ میں مداخلت اورا نہیں نقصان پہچانے کے منصوبے بنانے سے باز رہیں اور یاد رکھیں کہ مدارس کے بارے میں منصوبے بنانے والے صفحہ ہستی سے مٹ گئے مگر مدارس قیامت تک باقی رہیں گے ۔وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے جنرل سیکرٹری،ترجمان مدارس دینیہ ،وکیل اہلِ حق مولانا محمد حنیف جالندھری کاخطاب اجتماع کی جان تھی ۔مولانا جالندھری نے مدارس دینیہ کی خدمات ،مدارس پر لگنے والے الزامات اور قومی سلامتی پالیسی کے حوالے سے وفاق المدارس کا موقف اور پالیسی اپنے مخصوص انداز سے اس طرح بیان کی کہ ہر دل باغ باغ ہو گیا ……مولانا قاضی عبدالرشید نے اپنے مخصوص انداز میں ولولہ انگیز خطاب فرمایا ……مولانا سمیع الحق کے خطاب میں امن کا حقیقی پیغام اور اہل حق کی اس ملک میں قیام امن کی جدوجہد کا تذکرہ تھا ۔مولانا سمیع الحق نے فرمایا آج جس وقت ہر طرف آگ ہی آگ ہے ایسے میں وفاق المدارس نے امن کا جھنڈا اٹھایا اور سب لوگوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا اس پر میں وفاق المدارس کے قائدین کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں ۔ دنیا مدارس کے خلاف جھوٹے پروپیگنڈے میں مصروف ہے اور مدرسہ سے امن کی آواز بلند ہورہی ہے اور قیام امن کے لیے دعائیں اور اوراد واعمال کیے جا رہے ہیں۔انہوں ے کہا مدرسہ نے دنیا سے اپنی طاقت منوا لی ہے کہ اسلام کا تشخص اور بقا مدرسہ کے دم قدم سے ہے اس لیے دشمن نے مدارس کے خلاف اکٹھ کر لیا ،سب کا مشترکہ ایجنڈہ ہے کہ مدرسہ کے خلاف بے بنیاد پروپیگنڈہ کر کے اسے غیر موثر قرار دیا جائے ۔آج دشمن نے بھی اتحاد کرلیا اس لیے ہمیں بھی اتحاد کرنا چاہیے اور ہم سب کو ملکر وفاق المدارس کو مضبوط بنانا چاہیے ۔ مدرسہ کی حفاظت کے لیے ہم سب ایک ہیں ۔

قائد جمعیت مولانا فضل الرحمن کا خطاب انتہائی مدلل اورفکر انگیز تھا ۔انہوں نے اپنے خطاب سے پہلے ایسے رقت آمیز انداز سے تلاوت کی کہ حاضرین آبدیدہ ہو گئے ۔پھر مولانا کے بیان کا زیر وبم ،ان کے جملے اور الفاظ کا انتخاب لاجواب تھا ۔مولانانے کہا دارالعلوم دیوبند،جمعیت علماء ہند،جمعیت علماء اسلام اور وفاق المدارس میرے سلسلہ نسب میں شامل ہیں اور مجھے ان پر فدا ہونے کو جی چاہتا ہے ۔انہوں نے کہا کہ آج استعماری قوتیں ہماری آزادی پر ایک مرتبہ پھر جھپٹی ہیں اور اس کے لیے انہوں نے ہمارے مذہب اور تہذیب کو ہدف بنایا ہے مدرسہ مذہب کا بھی پاسبا ن ہے اور تہذیب کا بھی پشتی بان ہے اس لیے آج مدرسہ طاغوتی قوتوں کا ہدف ہے اور مدرسہ کا دفاع میری ذمہ داری ہے ۔ مولانا فضل الرحمن نے فرمایا’’میں آٹھ سال حقانیہ میں زیر تعلیم رہا ،جب میں نے ایک مرحلے پر یہ بات محسوس کی کہ کچھ قوتوں کے دارالعلوم کے بارے میں ارادے ٹھیک نہیں تو اس وقت میں نے ان قوتوں کو پیغام بھیجا کہ اگر تم نے حقانیہ کی طرف ٹیڑھی آنکھ سے دیکھا تو فضل الرحمن سمیع الحق کا سپاہی بن کر دارالعلوم کا دفاع کرے گا۔مولانا کا خطاب ان کی شخصیت کی طرح واقعی لاجواب تھا لیکن ایک گزارش کے بغیر شایدبات ادھوری رہے گی اور وہ یہ کہ مولانا تعلیم القرآن راولپنڈی کے وفاق المدارس اجلاس سے لے کر آج تک کے تمام اجتماعات میں نوجوانوں کی ’’اصلاح‘‘فرماتے ہوئے مدارس کا جو نقشہ کھینچتے ہیں وہ صرف کسی خاص علاقے کے مدارس کا مسئلہ تو ہو سکتا ہے تمام مدارس کا مسئلہ ہر گز نہیں اور انہیں بھی شاید اپنی مجالس میں زیر بحث لانامناسب ہو عمومی مجمعوں میں میڈیا کے سامنے اگر وہ باتیں مولانا جیسی ہستی کی زبان سے نہ ہی نکلیں تو زیادہ مناسب ہو ۔

کانفرنس کے دوران وہ منظردیدنی تھا جب تمام قائدین نے کھڑے ہو کر ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر اظہار یکجہتی کیا ۔اتفاقا پہلے مولانا فضل الرحمن اور مولانا سمیع الحق دور دور تھے لیکن پھر بعض حضرات کے توجہ دلانے پر مولانا فضل الرحمن والہانہ انداز سے آگے بڑھے مولانا سمیع الحق کا ہاتھ تھاما اور فضا میں بلند کیا تو پورا پنڈال نعروں سے گونج اٹھا ۔اجتماع کے کنوینئر مولانا حسین احمد نے جو اعلامیہ پیش کیا وہ پورے اجتماع کا نچوڑ اورحاصل تھا ۔مولانا مفتی کفا یت اﷲ نے قرار دادیں پیش کیں اور حاضرین نے ہاتھ فضا میں بلند کر کے ان کی تائید کی ۔اجتماع کے اختتام پر پرتکلف ظہرانہ دیا گیا ……اﷲ رب العزت سے دعا ہے کہ اﷲ اس اجتماع کو خیر وبرکت اور صوبہ خیبر پختونخواہ کے روشن مستقبل کی بنیاد بنائیں ……آمین

Abdul Qadoos Muhammadi
About the Author: Abdul Qadoos Muhammadi Read More Articles by Abdul Qadoos Muhammadi: 120 Articles with 142031 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.