محمد عبداﷲ احمد گرلاٹی
بد قسمتی سے پاکستان دنیا کے ان چند ممالک میں شامل ہے جہاں خواندگی کا
تناسب تشویشناک حد تک کم ہے اور لازمی پرائمری تعلیم بدستور خواب بنی ہوئی
ہے‘ دستیاب اعداد و شمار کے مطابق ملک میں 5 سال سے 19 سال کی عمر کے بچوں
کی تعداد 7 کروڑ ہے جن میں صرف 27 فیصد اسکول یا کالج جاتے ہیں۔ جس کا مطلب
یہ ہے کہ پاکستان میں کروڑوں بچے تعلیم سے محروم ہیں اور سڑکوں پر پھر رہے
ہیں۔ ایک جانب اسکول جانے والے بچوں کی تعداد تشویشناک حد تک کم ہے تو
دوسری جانب تعلیم ادھوری چھوڑنے والوں کی تعداد بھی بڑھ رہی ہے۔ لازمی
پرائمری تعلیم کے مقاصد آج تک حاصل نہیں ہو سکے حالانکہ پہلی جماعت سے
میٹرک تک تعلیم کی ذمہ داری ریاست کی ہے لیکن ایسا لگتا ہے تعلیم کا شعبہ
حکومت کی ترجیحات میں شامل ہی نہیں۔۔۔ ایک قومی اخبار میں پاکستان اپنا
مستبل کھو رہا ہے کے عنوان سے لکھے گئے کالم میں برطانوی ہائی کمشنر ایڈم
تھامسن کہتے ہیں کہ پاکستان کے ایک کروڑ بیس لاکھ بچے سکول جانے سے محروم
ہیں اور یہ تعداد دنیا بھر کے ممالک میں سکول جانے سے محروم بچوں کی شرح
میں دوسری بڑی تعداد ہے ،یہ تعداد گریٹر لندن کی پوری آبادی سے زائد ہے ۔اس
تعلیمی ایمرجنسی کے اثرات پاکستان کی آنے والی نسلوں پر پڑیں گے۔یہ حقیقت
ہے کہ تعلیم پاکستان کو ترقی کی راہ پر گامزن کر کے ہمیشہ کے لیے امداد پر
انحصار کرنے سے نجات دلا سکتی ہے۔تعلیمی لحاظ سے سندھ اور سرحد نے ناقابل
یقین حد تک پیش رفت کی ہے۔ 18 ویں ترمیم کے تحت اب تعلیم کا شعبہ صوبوں کو
منتقل ہو چکا ہے۔ اس لحاظ سے صوبوں کی ذمہ داریاں بڑھ گئی ہیں یہ امید کی
جانی چاہئے کہ صوبے آئندہ مالی سال میں تعلیم کیلئے زیادہ سے زیادہ فنڈز
مختص کر کے زیادتیوں کا ازالہ کریں گے۔ تعلیمی مقاصد کو حاصل کرنے کے لئے
معاشرہ کے مختلف طبقات کے کردار کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ جن کو تعلیم
کے فروغ کے لئے آگے بڑھنا ہو گا۔ اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ لازمی اور مفت
تعلیم کے پلان پر مؤثر عملدرآمد کیلئے مشترکہ کوششیں کی جائیں اور سول
سوسائٹی،میڈیا تعلیم و دشمن عناصر کی بیخ کنی کیلئے مشترکہ جدوجہد کرے۔
آرٹیکل 25 اے کو قانون کا حصہ بنایا جائے۔ یہ آرٹیکل میٹرک تک مفت تعلیم کی
وارنٹی ہے اسے مکمل گارنٹی میں بدلنے کے لیے 25 اے کو قانون کا حصہ بنانے
کے لیے ہر ایک کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا ۔ پاکستان کولیشن فار ایجوکیشن
کی نیشنل کوآردینیٹر زہرہ ارشد کہتی ہیں کہ کولیشن کا مقصد تعلیمی زبوں
حالی کا خاتمہ، معیار تعلیم کی بہتری اور مفت تعلیم کی فراہمی کے لیے
جدوجہد کرنا ہے۔پی سی ای اس حوالے عدالتی دروازہ بھی کھٹکھٹا چکی ہے اور
مقدمات زیر سماعت ہیں ، منتخب ممبران اسمبلی کواپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔
زہرہ ارشد کا کہنا تھا کہ پی سی ای معاشرے میں معیاری تعلیم تک یکساں رسائی
کے حصول کے لئے ایک قدم ہے جو صنف،مذہب اور طبقاتی امتیا زکے بغیر ہرایک کے
لئے مفت تعلیم کے تصور کو حقیقت دینے کے لئے برسر پیکار ہے۔تعلیم کے بنیادی
حق سے محروم لوگوں کی آواز کا پارلیمنٹ تک پہنچنا ناگزیر ہے۔شعبہ تعلیم میں
نئے چیلنجوں اور متواتر تربیت کی اہمیت کا ادراک رکھتے ہوئے آگے بڑھا
جاسکتا ہے۔تعلیم ملک کی معاشرتی ترقی میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔مستقبل میں
مثبت تبدیلی لانے کے لیے تعلیم اہم ترین عنصر ہے ،تعلیم معیشت کی افزائش
کرتی ہے ،نقطہ نظر اور امکانات میں وسعت پیدا کرتی ہے،درخشان مستقبل کی
نوید دیتی ہے،ایکسپرٹ سجاد کا کہنا ہے کہ تعلیم کے حوالے سے بہتر منصوبہ
بندی،پالیسی سازی اور عمل درآمد کیلئے منظم طریقے سے جمع کردہ تعلیمی
معلومات اور مناسب بجٹ مختص کرنابنیادی عوامل ہیں۔ پاکستان میں نظام تعلیم
کو معلومات کے کمزور انتظام،نامناسب بجٹ اور دستیاب وسائل کواستعمال میں
لانے کے لئے اہلیت کے فقدان جیسے اہم چیلنجوں کا متواتر سامنا رہا ہے۔
خواتین کو تعلیم کے حق سے کوسوں دور دھکیل دینے والے معاشرے اور خود ساختہ
سرپرستوں کی سوچ میں تبدیلی لانا کسی معجزے سے کم نہیں گا۔ ہمیں متحد ہو کر
تعلیمی بجٹ میں اضافہ کے لئے آواز بلند کرنا ہو گی۔ عالمی اداروں کے فنڈ
بھی خورد برد کئے جا رہے ہیں۔ پاکستان نہ صرف دنیا کے ان بدقسمت ممالک میں
شامل ہے جہاں تعلیم پر سب سے کم اخراجات ہو رہے ہیں۔ بلکہ جنوبی ایشیاء اور
مشرق بعید کے ممالک میں بھی پاکستان میں تعلیم کے اخراجات سب سے کم ہیں۔
ویت نام جیساا ملک تعلیم پر جی ڈی پی کا 5.3 فیصد خرچ کر رہا ہے۔ تھائی
لینڈ کا شمار امیر ملکوں میں نہیں ہوتا لیکن وہاں تعلیم پر 4.5 فیصد
اخراجات ہو رہے ہیں۔ نیپال جیسے پسماندہ ملک میں یہ اخراجات 4.7 فیصد ہیں۔
تمام تر پابندیوں اور مجبوریوں کے باوجود ایران پیچھے نہیں جہاں تعلیم کے
شعبہ کا بجٹ 5.2 فیصد ہے۔ بھارت بہت بڑا ملک ہے اس کی معاشی مجبوریاں زیادہ
ہیں لیکن بجٹ میں 3.3 فیصد رقم خرچ کر رہا ہے۔ بنگلہ دیش کے اخراجات زیادہ
ہیں۔ اس طرح انڈونیشیا اور ملائشیا بھی کسی سے پیچھے نہیں ہیں۔ ماہرین
تعلیم اب حکومت پر زور دے رہے ہیں کہ وہ لازمی پرائمری تعلیم پر فوکس کرے۔
اس کے ساتھ یہ ضروری ہے کہ حکومت 2015 ء تک بجٹ میں تعلیم کے لئے 7 فیصد
رقم مختص کرے اور آئندہ مالی سال میں کم از کم 4 فیصد بجٹ رکھے۔ سچ تو یہ
ہے کہ پاکستان کو اپنے قومی مقاصد سے دور اور ہر لحاظ سے ایک پسماندہ ملک
کے طور پررکھنے کا جو منصوبہ ہماری آزادی سے بھی قبل تیار ہوا تھا اس کی
تکمیل کے لیے پاکستان کو حقیقی تعلیم سے محروم رکھنا ہم پر مسلط کیے گئے
سیاسی نظام کی خود اپنی پالیسی کا حصہ رہا ہے کیونکہ اپنے ذاتی مفادات کا
غلام یہ نظام پاکستان میں کسی مضبوط اور باوقار قومی وجود کو قبول کرنے کے
لیے تیار نہیں تھا اور تعلیم چونکہ قومی تشکیل کی بنیاد ہے تعلیم سے آراستہ
مخلوق اپنی اجتماعی حیات اور حقوق کے بارے میں باشعور ہو کر یکجہتی پیدا کر
لیتی ہے جس سے ایک بامقصد قوم جنم لیتی ہے جو اپنے مشترک مقاصد کے لیے مفاد
پرستانہ اقتدار کے ایوانوں سے بھی ٹکرانے کے لیے تیار رہتی ہے جبکہ تعلیم
سے محروم معاشرے میں ہر قسم کی پستی اور پسماندگیخود بخودبڑھتی رہتی ہے۔
لہذا ہماری یہ تعلیمی حالت کسی اتفاق یا غفلت کا نتیجہ نہیں بلکہ اپنے ہی
حکمرانوں کا سوچا سمجھا کارنامہ ہے۔تعلیم اور ترقی کے حوالے سے اصل چیز
ہمارے نظام کے معماروں کی نیت ہے۔ اس لیے جب تک حکومت تعلیم پر اپنی گرفت
مضبوط کر کے تعلیم کو قانوناً لازمی قرار نہیں دیتی ، جب تک سارے ملک میں
یکساں نصاب نافذ کر کے تعلیم سے امیر و غریب اور دین اور دنیا کی منفی
،مہلک تفریق اور دوریاں مٹا نہیں دی جاتیں اور علم کو غیر جانبدار، سیاست
سے پاک ماحول فراہم نہیں کیا جاتا تو تعلیم نتیجہ خیز نہیں ہو سکتی،اہل
مغرب نے گزشتہ پانچ صدیوں میں علم و فکر میں جو حیرت انگیز مقام حاصل کیا
وہ لازماً ساری انسانیت کے لیے باعث فخر ہے کیونکہ علم و فکر نمودار ہونے
کے بعد مشترک انسانی سرمایہ بن جاتا ہے۔ مغرب کا نیا ورلڈ آرڈ اکیسویں صدی
میں مسلمان ملکوں سے علم و تعلیم اور انسانیت کا نام تک مٹا رہا ہے۔
افغانستان، عراق،لیبیا،شام ،مصر پر حملوں اور اتحادی اور امن فوج کے نام پر
ان ہی ممالک میں قیام کے مقاصد میں اس خطے کو بدترین عدم استحکام اور
انتشار کا شکار کرنا سر فہرست تھا ۔ یہ مقصد سو فیصد حاصل کر لیا گیا ہے
اور یہاں پر سلگائی ہوئی آگ اب بھٹرک کر خود ہی شعلے پیدا کرتی رہے گی۔ظاہر
ہے کہ ایسی فضا تعلیم اور تہذب کے لیے توسازگار نہیں ہو سکتی ایسے میں اگر
کوئی برطانوی ہائی کمشنر ہماری آنکھیں کھولنے کے لیے ہماری لاپروائی اور
کوتائی کی نشاندہی کرے تو ہمارا آنکھیں کھول لینا ہی قوم کے مفاد میں ہو گا
۔ زہرہ ارشد ،ایڈم تھامسن سمیت ہر ایک محب وطن اور تعلیم دوست کا یہی
روناہے کہ بد قسمتی سے پاکستان دنیا کے ان چند ممالک میں شامل ہے جہاں
خواندگی کا تناسب تشویشناک حد تک کم اور لازمی پرائمری تعلیم بدستور خواب
ہے……۔ |