سنیل گاوسکر کو کِرکٹ کنٹرول بورڈ کا کانٹوں بھرا تاج

سُپریم کورٹ کی صلاح پر کِرکٹ کنٹرول بورڈ کی سربراہی سنیل گاوسکر کے ہاتھ میں آتے ہی دوسرے علاقے کے کھِلاڑیوں کی اَن دیکھی شروع ہوجانے کاامکان ا ور ممبئی اور مہاراشٹر کی کھیل سیاست عروج پر آجانے کاخطرہ۔

میچ فِکسنگ اور ہندستانی کرکٹ کی سربراہی کے انتظامات کی رساکشی میں جیسے ہی پولیس انتظامیہ، سی۔بی۔آئی اور پھر سُپریم کورٹ کی دخل اندازی سے معاملات کو سُلجھانے کی مہم شروع ہوئی تھی، ہمیں یہ اندازہ ہوگیا تھا کہ اب نتائج غیر اطمینان بخش ہی سامنے آئیں گے۔ ایسا ہی ہوا۔ کھیل کی جانچ اور تفتیس بھی کھیل کی طرح ہی سامنے آئی۔ میدان میں کھیل کود کا نقطۂ نظر تفریحی رہتا ہے لیکن میدان کے باہر کی تفتیش کا انداز تادیبی اور نفرت آمیز دِکھائی دے رہا ہے۔ جگرؔ نے کبھی ’’سِمٹے تو دِل عاشق، پھیلے تو زمانہ ہے‘‘ کہا تھا لیکن آج کِرکٹ کے بارے میں ہمیں معلوم ہے کہ جب میدان میں کھیلتے ہیں تو مُلک و قوم کھِلاڑیوں کے کارناموں پر جان چھِڑکتی ہے لیکن تھوڑے سے بدعنوان کھِلاڑی، کھیل انتظام کار اور بازار کے ماہرین کی بھی ایک محدود تعداد مِل کر اب ایک صورتِ حال ایسی پیدا کردی ہے کہ لوگ طنزاً یہ کہتے پھِرتے ہیں : عاشق کا جنازہ ہے ذرا دُھوم سے نکلے۔

مقبولیت اور دولت کے بعد اکثر ایمان کا زیاں دیکھنے میں مِلتا ہے۔ پہلے مشق اور ریاضت کی بازار کی طرف سے کوئی قیمت نہیں تھی۔ شاعر، ادیب، موسیقار اور مصوّر سب آج بھی اِس بات سے دُکھی رہتے ہیں کہ اُن کے لفظوں یا سُریارنگوں کی بازار نے قیمت طے نہیں کی۔ میرؔ اور غالبؔ سے لے کر آج تک کے فن کاروں کے جینے پہ آفت پڑی ہوئی ہے۔ تھوڑے سے خُوش نصیب لوگ ہوں گے جنھیں اُن کے فن کے عوض بازار نے کوئی قیمت عطا کی۔ سب کے سب خوش حالی کی حسرت لیے اور غالبؔ کے لفظوں میں ’’جیتے ہیں آرزو میں مرنے کی‘‘ جیسی کیفیت میں مبتلا ہوتے ہیں۔ اکثر و بیشتر فنونِ لطیفہ کے ماہرین داد اور شہرت تو پالیتے ہیں لیکن معاشی خوش حالی ایک بڑے حلقے میں اُس طرح سے اب تک نہیں پہنچی جیسی اُن کی عِلمی حیثیت ہوتی ہے۔ تھوڑے سے انگریزی کے لکھنے والوں کو چھوڑ دیجیے تو ابھی بھی فنکاروں کے شایانِ شان اُن کی مالی قدروقیمت کا دروازہ بند ہی تصوّر کیا جارہا ہے۔

ہندوستانی تعلیم کی مشہور کہاوت ہمیں بچپن سے اَزبر کرا دی گئی تھی کہ ْ پڑھو گے، لکھو گے تو ہو گے نواب اور کھیلو گے، کُودو گے تو ہوگے خراب ٗاِسے تُک بندی نہیں کہنا چاہیے بلکہ ہماری سماجی فِکر کا یہ وہ آئینہ ہے جِس سے ہزاروں اور لاکھوں برس ہم اُسی انداز میں جانتے اور سمجھتے ہیں۔ کھیل کُود کر کِتنے واقعتا بھُو کے مرگئے، یہ تو تاریخ میں رقم ہی نہیں ہُوا۔ ایسے ہی کبھی فِلموں کے بارے میں ایک تصوّر تھا۔ ناچ، گانا، عریانیت اور فحاشی کی زنجیروں سے فِلموں کو بھی باندھ رکھا گیا تھا لیکن قربان جایئے وقت کے بدلتے منظروں کو سمجھنے والے افراد پر جِنھوں نے عمومی سماجی فکر سے مقابلہ کر کے کھیل اور سنیما کی دُنیا میں شہرت اور عزّت کے ساتھ ساتھ دولت کی بہاریں بھی شامل کرانے میں کامیابی حاصل کی ۔ ۱۹۸۳ء میں ہندستان کے فاتحِ عالم بننے سے ہندستانی کِرکٹ اور اُس کے کھِلاڑیوں کی بازار کی قیمت اور شہرت اِس قدر بڑھ گئی کہ گذشتہ تین دہائیوں میں شاید ہی کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ کِرکٹ کھیلنے سے کِسی طالب عِلم کی زندگی خراب ہوجائے گی۔

یہ صحیح ہے کہ ہندستان میں دوسرے کھیل ابھی بھی معاشی اعتبار سے زندگی بدلنے کا ذریعہ نہیں ہیں اور اُن کے کھِلاڑیوں کی زندگی میں پتا نہیں کب روشنی آئے گی لیکن کرکٹ نے شہرت اور عزّت کے ساتھ دولت کا ایک ایسا راستہ حاصل کیا جس نے فلم اسٹار اور سیاست دانوں کے اسٹارڈم کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ نت نئی جلوہ سامانیاں اِس معاملے میں اضافہ ہیں چاہے آئی۔ پی۔ایل ہو یا اُس کی چمک دمک بھری پارٹیاں، ہرجگہ اسٹارڈم اور دولت کا ریلا ہے۔ یہ بھی کِرکٹ کی مقبولیت کا جادو ہے۔ دیکھتے دیکھتے وہ ہندوستان جِس کے کرکٹ بورڈ کو ہندستان میں ہی کوئی بڑی اہمیت حاصل نہیں تھی، اُسے دنیا کا سب سے دولت مند اور بااختیار کرکٹ بورڈ بن جانے کا موقع ملا۔

یہ کون نہیں جانتا کہ شہرت، عزّت اور دولت جِس دروازے سے داخل ہوں گی، اُنھی کے ساتھ مکروفریب، بے ایمانی اور متعدّد طرح کی بُرائیاں بھی داخل ہوں گی۔ ہم بھُول جاتے ہیں کہ جنگِ آزادی کے بے لوث خدمت گاروں نے جِس طرح ہزار قربانیوں کے بعد اِس مُلک کو آزادی دِلائی تھی، بعد کے سیاست دانوں نے جو کارہائے نمایاں بہ طورِ اضافہ پیش کیے، اُن میں بدعنوانی، گھوٹالے، بے انصافی، بے ایمانی، دولت اُگانے کا جوش اور شان وشوکت جیسے غیر سیاسی اعمال شامل ہیں۔ ہمیں یہ پتا ہی نہیں چلا کہ کب سیاست دانوں سے سماجی خدمت اور قربانی کی کیفیت چھِن گئی اور وہ دولت اور طاقت کے اسیر ہوگئے۔ پورا ہندستان کم از کم دِل سے ضرور ماتم کرتا ہے اور پُورے مُلک میں اقتداریافتہ سیاست دانوں میں شاید ایک ہاتھ کی اُنگلیوں پر گِنے جانے والے افراد بھی نہیں ہونگے جِنھیں غیر بدعنوان مانا جا سکے یا سیاست کی خدمت اور قربانی کا اُنھیں سبق یاد ہو۔

ہندستانی سیاست کی وبائیں فلموں میں بھی آئیں اور اب کر کٹ کی باری ہے۔ سیاست دانوں، بدعنوان کاروباریوں اور جرائم پیش گان کی دولت پر فِلم انڈسٹری کا ایک بڑا حلقہ کھڑا ہے۔ آسانی سے یہ نہں کہا جا سکتا کہ ہماری فِلمی زندگی بدعنوانیوں سے پاک ہو چُکی ہے۔ رہ رہ کر اِن کی گرم ہواؤں سے فِلم کے لوگ بھی جھُلستے رہتے ہیں لیکن گذشتہ دو دہائیوں میں کِرکٹ کی دُنیا اور بالخصوص برصغیر اس طرح متاثرہوئے ہیں کہ اِس حمّام میں کب کون ننگا ہوجائے، اِس کا اندازہ بھی نہیں کیا جا سکتا؟ سٹّہ بازی کے الزام میں اُس وقت کے کپتان محمد اظہرالدّین اور اجئے جڈیجا پر ملّوث ہونے کے الزامات عائد ہوئے اور عین کھیلنے کی عُمر میں اُنھیں کِرکٹ سے ہاتھ دھونا پڑا ۔بعد میں دونوں پر سے الزامات ختم ہوئے اور کاغذی طور پر اِنھیں پاک صاف تسلیم کیا گیا لیکن اُن کے کھیل کی عُمر تب تک ضائع ہو چُکی تھی۔ سوال یہ ہے کہ جِن کی زندگی کِرکٹ کھیلنے کی تھی، اُنھیں کاغذی طور پر بری کر دینے سے کیا ملا؟ جانچ کے نام پر یہ الگ طرح کی بے انصافی ہے جِسے اُس زمانے کے تمام کھیل شائقین نے بھی محسوس کیا ہوگا۔

شاید یہی وجہ ہو کہ سپریم کورٹ نے کرکٹ کنٹرول بورڈ کے معاملات پر اپنے فیصلوں میں عجلت پسندی نہیں دکھائی اور ابتدائی کچھ تجاویز جو جوش میں سامنے آگئی تھیں، ان سے کنارہ کرتے ہوئے سنیل گاوسکر کو آ ئی پی ایل ۷ کی دیکھ ریکھ کرنے کے لیے کرکٹ کنٹرول بورڈکا عبوری صدر بنایا گیا ہے۔ بورڈ کے عمومی کام کاج اس کے نائب صدر شیولال یادو کے ذمّے ہی ہے۔ سپریم کورٹ نے یہ بھی درست رخ اپنا یا کہ چنئی سپر کنگس اور راجستھان رائلس کی ٹیموں کو حسب سابق آئی پی ایل میں شامل رکھا اور یہ بھی معقول فیصلہ ہوا کہ ہندستانی کپتان مہندر سنگھ دھونی کے سلسلے سے بے جا الزامات کو قابل قبول نہیں سمجھا گیا۔ اس طرح سے مل جل کر کام کرنے کا ایک اصول پیشِ نظر رکھا گیا ہے جیسے یہ کوئی سیاسی فیصلہ ہو اور سب کو تھوڑا تھوڑا حق مل جائے۔ اس سے ہندستانی کرکٹ کنٹرول بورڈ کی طاقت اور اس کے کھلاڑیوں کا دبدبہ سامنے آتا ہے، کیونکہ سپریم کورٹ کی سماعت کے دوران اخباروں میں جس شور و غوغا کی کیفیت تھی، وہ ’’جو چیرا تو اِک قطرۂ خوں بھی نہ نکلا‘‘ کی کیفیت کا ترجمان ہے۔

کرکٹ کنٹرول بورڈ کا سربراہ ہر حالت میں اس کے اراکین سے منتخب کیے جائیں گے لیکن اس قانون کی اس فیصلے میں خلاف ورزی کی گئی ہے۔ عدالت کا یہ تسلیم کرلینا کہ کرکٹ بورڈ میں کوئی بھی ممبر ایمان کے ترازو پر درست نہیں اترے گا، یہ جمہوری ملک میں جمہوری مزاج کی توسیع نہیں ہے۔ سنیل گاوسکر کی عظمت کے بارے میں کوئی کیوں سوال کرے لیکن اس سطح کے چند اور کھلاڑی بھی موجود تھے جیسے انیل کمبلے، راہل دراوِڈ، کپل دیو وغیرہ ۔بشن سنگھ بیدی تو سنیل گاوسکر سے سینئر کھلاڑی ہیں لیکن کسی پر سپریم کورٹ نے یقین نہیں کیا۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ کرکٹ کنٹرول بورڈ ان جیسے پانچ سات کھلاڑیوں کی ایک کمیٹی بناکر سب سے لائق کھلاڑی کو اس کا سربراہ بنا دیتا۔ اس سے کورٹ کے بارے میں یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس نے اپنی پسند سے کرکٹ بازار سے کسی ایک شخص کو اٹھا کر ایسے نازک مرحلے میں بڑی ذمہ داری سونپ دی۔

سپریم کورٹ نے جیسے ہی سنیل گاوسکر کو عبوری صدر بنانے کی پیش کش کی، میڈیا کی اطلاعات پر سنیل گاوسکر نے فوری طور پر کرکٹ کنٹرول بورڈ کی صدارت کے لیے اپنی رضا مندی ظاہر کردی۔ اتنے بڑے کاموں کے لیے اس طرح ایجاب و قبول کو پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھنا مشکل ہے۔ آخر سنیل گاوسکر کو اتنی جلدی کیا تھی؟ کیا انہیں باضابطہ سپرم کورٹ کے فیصلے اور اعلان نامہ آنے تک انتظار نہیں کرنا تھا؟ یہاں ان کی دبی ہوئی خواہش کا اپنے آپ اظہار ہوگیا۔ سنیل گاوسکر جب کپتان تھے تو کئی معاملات میں وہ تنازعات میں الجھے تھے۔ لگاتار ٹسٹ کھیلنے کے رکارڈ کو کپل دیو توڑ نہ دیں، اس کے لیے سنیل گاوسکر نے کپل دیو کو اپنی کپتانی کے زمانے میں ٹسٹ سے باہر کردیا تھا۔ سنیل گاوسکر جب چمکتے ہوئے ستارے تھے اس وقت ان پر ہندستانی کرکٹ کی مہاراشٹر لابی کی سیاست کے بجا طور پر الزامات عائد ہوتے رہتے تھے۔ وہی دور ہے جب ہندستانی ٹیم میں گیارہ میں آٹھ کھلاڑی مہاراشٹر کے ہوتے تھے۔

سنیل گاوسکر اپنی کمنٹریز میں غیر ضروری طور پر کھلاڑیوں کی کار کردگی کے تئیں سیاست کرتے ہوئے دیکھے جاتے رہے ہیں۔ پچھلے ایک سال میں انہیں جب بھی موقع ملتا ہے، مہندرسنگھ دھونی کو کپتانی سے ہٹاکر کسی دوسرے کو سامنے کرنے کی ایک خفیہ مہم پروہ کاربندرہتے ہیں ۔ ان کی جو عظمت ہے، اس کے یہ شایانِ شان نہیں ہے۔ ہمیں افسوس ہے کہ ان کی عبوری صدارت میں ہندستان کرکٹ کا کوئی سنہرا دور شروع ہوگا، اس پر یقین نہیں آتا۔ سب سے بڑا اندیشہ یہی ہے کہ علاقائی اعتبار سے ابھی ہندستانی کرکٹ ٹیم واقعی پورے ملک کی نمائندگی کررہی ہے، اس پہ کوئی حرف نہ آجائے۔ نئے نئے کھلاڑیوں کی جو ایک فوج تیار ہورہی ہے، سنیل گاوسکر کی سابقہ علاقائیت پسندی کا گہن اس پر نہ لگ جائے۔ اب ہندستانی کرکٹ کا وقار اس درجے تک پہنچا ہوا ہے کہ ایک عام آدمی سے لے کر سپریم کورٹ، پارلیامنٹ اور صدر جمہوریہ تک ایک آن میں معاملات پہنچ جاتے ہیں۔ ہم توقع کرتے ہیں کہ سنیل گاوسکر اس کانٹوں بھرے تاج کو پہنتے ہوئے ہندستانی کرکٹ کے مسیحاثابت ہونگے، تبھی ان کی عظمت قایم رہ سکے گی۔
(مضمون نگار کالج آف کامرس پٹنہ میں سابق صدر شعبۂ اردو ہیں)

Safdar Imam Qadri
About the Author: Safdar Imam Qadri Read More Articles by Safdar Imam Qadri: 50 Articles with 155748 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.