بسم اﷲ الرحمن الرحیم
ہر نظام اپنے مبادیاتی نظریات پرانحصار کرتا ہے ،مبادیات وہ تصورات ہوتے
ہیں جو کسی بلند و بالا عمارت کے لیے زمین میں دبی ہوئی گہری بنیادوں کاکام
کرتے ہیں۔مبادیاتی تصورات جتنے گہرے اور مضبوط ہوں گے عمارت اتنی ہی پائدار
اور دیر پا ہوگی اور اگر اساسی تصورات میں کسی طرح کا جھول ہوایا وہ حقیقت
سے دور ، جذباتیت پر مبنی اور وقتی و عارضی مصلحتوں کو اپنے اندر سمیٹے
ہوئے ہوں تو انسانی تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ ایسی اساس پر تعمیر ہونے
والے نظام ریت کی دیوارثابت ہوتے ہیں اورجیسے ہی مصنوعی سہارے نیچے سے ہٹتے
ہیں تب یہ نظام کتنے ہی بلند و بالا نظر آرہے ہوں لیکن چشم زدن میں یہ
دھڑام سے زمین بوس ہوتے نظر آتے ہیں اور پھر تاریخ میں ہمیشہ کے لیے دفن
ہوجاتے ہیں جیسے ماضی قریب میں کیمونزم کاانجام ہوا۔اسلامی نظم معیشیت کی
بنیادیں وحی الہی سے تعلق رکھتی ہیں اور صدیوں سے موجود یہ نظام اس بات کی
قوی شہادت ہے کہ اسلامی نظام کی اساسی بنیادیں نہ صرف یہ کہ بہت گہری اور
مضبوط ہیں بلکہ انسانی فطرت سے قریب تر ہیں۔
اسلامی نظام معیشیت کی پہلی مبادی یہ ہے کہ انسان کو ملنے والی تمام
صلاحیتیں،طاقتیں اورقوتیں امانت ہیں،وہ خود ان کا مالک نہیں ہے بلکہ اس کا
اصل مالک اﷲ تعالی ہے اورجس خدا نے عارضی طور پر چنداختیارات اور ملکیتیں
انسان کو دی ہیں وہ انکا حساب بھی لے گا۔ان ملکیتوں کو دینے سے پہلے اﷲ
تعالی نے اپنے انبیاء علیھم السلام کے ذریعے انسان کو بتادیاتھا کہ ان کا
کونسا استعمال اﷲ تعالی کے نزدیک درست ہے۔اﷲ تعالی نے اس دنیاکاتمام ریکارڈ
تیارکیاہوا ہے اور دوسری زندگی میں وہ انسان کے سامنے اس ریکارڈ کو پیش
کرکے پوچھے گا کہ یااس نے ان ملکیتوں کو انبیاء کی بتائی ہوئی ہدایات کے
مطابق استعمال کیاتھا ؟پس کل انسانی ملکیتوں کا وہ استعمال جو انبیاء علیھم
السلام کی تعلیمات کے عین مطابق ہے وہی اس دنیا میں بھی کامیابی کا ضامن ہے
اور اس دنیاکے بعد بھی وہی فلاح و کامرانی کی ضمانت ہے۔
اسلامی نظام معیشیت کی دوسری مبادی یہ ہے کہ انسان کا رزق
مقررکیاجاچکاہے۔ایک حدیث نبوی ﷺ کے مطابق انسان ابھی ماں کے پیٹ میں ہوتا
ہے اور اسکا رزق لکھ دیا جاتا ہے چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ ایک شخص ساراسارا
دن دھوپ میں اور سخت حالات میں محنت مزدوری کرتا ہے لیکن پھر بھی اسکی آمدن
محدود ہوتی ہے جب کہ دوسراآدمی محض ایک متمول خاندان میں پیدا ہونے کے باعث
ایک آسودہ زندگی کا ملک بن جاتا ہے۔اﷲ تعالی نے اس دنیا کو دارالامتحان
بنایا ہے اور انسان کو اس لیے پیدا کیا کہ وہ نیک عمل کرے ،اس امتحان گا ہ
میں کسی کو دولت دے کر آزمایا جاتا ہے تو کسی کو محروم کر کے اسکا امتحان
لیاجاتا ہے۔اس تصویر کا دورا رخ یہ ہے کہ بعض لوگ بہت دولت کے مالک ہوتے
ہیں لیکن انکا کھانا پینامحدودبلکہ بہت ہی محدود ہوتا ہے اور بعض اوقات وہ
محبتوں کے رشتوں سے بھی محروم کر دیے جاتے ہیں جبکہ بعض لوگ بہت کم ترین
آمدن کے مالک ہوتے ہیں لیکن ان کے دنیا کی ساری نعمتیں قابل استعمال ہوتی
ہیں وغیرہ۔یہ خدائی تقسیم ہے جس کی مصلحتیں اﷲ تعالی خود ہی جانتا ہے اگرچہ
کبھی کبھی انسان پر بھی وہ اپنے راز آشکارکر دیتاہے لیکن بہت کم۔
اسلامی تعلیمات کی اگلی مبادی یہ ہے کہ انسان کسب معاش کے لیے خوب تگ و دو
کریں۔کل انبیاء علیھم السلام نے معاشی ذمہ داریاں ادا کی ہیں اورکسی نے
بھیڑوں کی پرورش کی تو کسی نے تجارت کی اور کسی نے کوئی اور معاشی شغل
اختیارکیا۔اسلامی تعلیمات میں کسب معاش کو تحسین کی نگاہ سے دیکھاگیاہے اور
مرد کی شرعی ذمہ داریوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ اپنے اہل و عیال کے نان
نفقہ کو پورا کرے۔قرآن نے اﷲ تعالی کے رزق کو ’’فضل‘‘کے نام سے یاد کیاہے
اور اسکی تلاش کو مستحسن گرداناہے اور نبی علیہ السلام نے مسلمانوں کو
سکھایا کہ مسجد سے نکلو تو اﷲ تعالی سے اسکے فضل کا یعنی اسکے رزق کا سوال
کرو:
اسلامی نظم معیشیت کی بہت بڑی مبادی یہ بھی ہے کہ اس نظام زندگی نے معیشیت
کو اخلاق سے جدا نہیں کیا۔ایک خاص نظر سے دیکھاجائے توشاید دنیاکا یہ واحد
نظام معیشیت ہے جس نے انسان کے پیٹ کو عقائد کے ساتھ جوڑ دیاہے۔اسلامی نظام
معیشیت کے گہرے مطالعے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اس نظام کا مقصد
معیارزندگی بلند کرنے کی بجائے معیاراخلاق بلند کرنا ہے۔بظاہریہ دونوں ایک
حد تک ایک دوسرے کی ضد ہیں جب معیاراخلاق کی بلندی مقصود ہو تو مالیات کی
قربانی دینی پڑتی ہے اور اگر معیارزندگی میں بڑھوتری چاہیے ہو تو اخلاقیات
کا جنازہ نکالاجاتاہے ان دونوں صورتوں میں سے اسلام نے معیار اخلاق کی ترقی
کوپسند کیاہے اگرچہ پیٹ پر پتھر ہی باندھنے پڑیں۔امانت ۔دیانت،شرافت،وعدے
کی پابندی اور خیرخواہی وغیرہ وہ اعلی اخلاق ہیں جو انسانوں کو اسی نظم
معیشیت کے سوتے سے ملے ہیں۔
اسلامی تعلیمات میں معیشیت کے سات درجات ہیں:
پہلا درجہ:فرض ہے،وہ معاشی اعمال جنہیں اسلامی سریعت نے لازمی قرار دیاہے
وہ معیشیت کے پہلے درجے میں ہیں،ان میں زکوۃ،عشر اور خمس ہیں۔زکوۃ کے لیے
ضروری ہے کہ مال نصاب سے زائد ہو یعنی ساڑھے سات تولے سونا یا ساڑھے باون
تولے چاندی کی بازاری قیمت کے برابریااس سے زائد کی ملکیت پرسال بھرکی مدت
گزرجائے اور وہ ذاتی استعمال میں نہ رہاہو۔تب اس میں ڈھائی فیصداﷲ تعالی کے
راستے میں خرچ کرنا فرض ہے۔عشرسے مراد فصل کی زکوۃ ہے اگر فصل کی سیرابی کے
لیے پانی کی قیمت اداکی گئی ہو تو پانچ فیصدفصل اور اگر پانی مفت ملتارہاہو
تو فصل کا دس فیصداﷲ تعالی کے راستے میں خرچ کرنا فرض ہے اور اسی طرح کسی
طرح کا دفینہ مل جانے سے اسکے بیس فیصد کی راہ ﷲ ادائگی خمس کہلاتی ہے۔
دوسرادرجہ:واجب ہے ،واجب اعمال میں صدقہ فطر،کفارے ، سالانہ قربانی اور اہل
خانہ کا نان نفقہ وغیرہ شامل ہیں۔فطرانہ کی ادائگی ڈاھائی سیر گندم فی کس
کے حساب سے گھر میں جتنے افراد ہوں ان کی طرف سے ادائگی ضروری ہے۔روزہ
توڑنے کاکفارہ ساٹھ مساکین کو کھانا کھلانا ہے اور سال خیریت سے گزرنے پر
ہر صاحب نصاب پر واجب ہے کہ سال بھر میں ایک قربانی کرے اور اس واجب کو
اداکرنے کا سنت طریقہ دس ذوالحجہ کے دن اپنے رب کے حضور قربانی پیش کرنا
ہے۔اہل خانہ کانان نفقہ بھی صاحب خانہ پر واجب ہے،اگر اپنی زوجہ کو چھوڑ
چکاہے لیکن اسکابچہ اپنی ماں کا دودھ پیتاہے توجب تب تک بچے کی پرورش ہوتی
رہے گی بچے اور اسکی ماں کے جملہ اخراجات بچے کے باپ پر یا اسکے ددھیالی
رشتہ داروں پر عائد ہوں گے۔
تیسرادرجہ:سنت ہے،لوگوں کو کھانا کھلانا،تحائف و ہدایا پیش کرنا اور ولیمہ
وغیرہ سنت اعمال معاش ہیں۔آپ ﷺ نے فرمایاکہ جو خود پیٹ بھر کر سویااور اسکا
پڑوسی بھوکا سو گیاتو وہ ہم میں سے نہیں ہے۔آپ ﷺ نے محبت بڑھانے کے لیے
تحائف دینے کی ترغیب دی ہے۔آپ ﷺ خود شوق سے تحفہ قبول کرتے تھے اور جوتحفہ
دیتاپھراس کوجواباََ بہتر تحفہ بھی پیش کیاکرتے تھے۔چوتھادرجہ مستحب صدقات
نافلہ کاہے،یہ وہ صدقات ہیں جن کی ادائگی کارثواب ہے اور عدم ادائگی سے
گناہ نہیں ملتا ،انہیں عرف عام میں نوافل بھی کہاجاتا ہے۔حضرت ابراہیم علیہ
السلام بغیر مہمان کے کھانا نہیں کھاتے تھے۔قرآن مجید نے ایک دانہ صدقہ کے
بدلے سات بالیوں کا وعدہ کیاہے جس میں سے ہر ہر بالی کے اندر سوسودانے
ہوں۔پانچواں درجہ:مباح کا ہے،اپنی ذات پر خرچ کرنا اور دیگر ضروریات زندگی
کے جملہ اخراجات مباح ہیں ۔آپ ﷺ کاارشاد ہے کہ اگرکوئی شخص اپنی جوروکے لیے
بھی کچھ کھانے کو لاتاہے تو اﷲ تعالی کے ہاں اسے صدقہ لکھاجاتاہے۔حقوق
النفس کا تقاضا ہے کہ انسان اپنی ذات پر بھی خرچ کرے اور اگراس طرح کے
اخراجات حصول ثواب کی نیت سے ہوں گے تو اﷲ تعالی کے ہاں ثواب کاحق دار
تحریرکیاجائے گا۔
چھٹادرجہ:مکروہ ہے،اسراف،فضول خرچی ،تھوڑے اخراجات سے حاصل ہونے والے مقاصد
پر بے پناہ وسائل خرچ کر دینا اور دکھاوے کے لیے اور معیارزندگی میں اضافے
کی دوڑ میں آگے نکلنے کے لیے ہونے والے اخراجات کراہت کے درجے میں آتے
ہیں۔لوگوں نے پوچھا ہم کیاخرچ کریں؟؟قرآن نے جواب دیاکہ جو ضرورت سے زائدہو
وہ اﷲتعالی کے راستے میں خرچ کردو۔اپنی ضرورت سے زائد وسائل ان طبقات کا حق
ہے جنہیں ضرورت سے کم دیاگیاہے۔ضرورت سے زائدرقم قالین،پردے،صوفے،آرام دہ
گاڑیاں اوردیگرتعیشات پر اٹھادینا صحیح نہیں بلکہ یہ وسائل ان لوگوں کے
دروازے پرفراہم کرنے چاہییں جو بظاہر خوشحال نظر آتے ہیں لیکن حالات کی
تنگی نے ان کے گھروں میں ڈیرے ڈالے ہوتے ہیں اور وہ اپنی سفیدپوشی کے باعث
کسی کو اپنے حالات بتاتے بھی نہیں۔ساتواں اورآخری درجہ:حرام
ہے۔سود،رشوت،اکتناز،جوا،کماربازی،ملاوٹ،ذخیرہ اندوزی وغیرہ کے ساتھ ساتھ
حرام خوری اورحرام کاری پر اپنے وسائل خرچ کرنا بھی حرام ہے،جیسے زناپر اور
شراب پر خرچ کی جانے والی رقم حرام میں لکھی جائے گی اور اﷲ تعالی کے ہاں
اسکی سخت بازپرس ہوگی۔جو سود کھائے گا اﷲتعالی اور اسکے ردولﷺ کااسکے خلاف
اعلان جنگ ہے خواہ سودکو کوئی اور نام ہی کیوں نہ دے دیاجائے۔ |