اپنے آپ کو بدل کر دیکھیں

اظہر پیشے کا ڈاکٹر ہے اس کی معاشرے اور معاشرتی رویوں پر بڑی گہری نظر ہوتی ہے وہ جب بھی مجھ سے ملتا ہے ایک نئے موضوع پر بات کرتا ہے۔اس دفعہ جب وہ مجھ سے ملا تو کہنے لگا کہ ہم اس وقت بدترین اخلاقی گراوٹ کا شکار ہیں،ہر ایک یہ بات کرتا ہے کہ نفسا نفسی کا دور ہے۔ کسی کو کسی کی پرواہ نہیں یہاں تک کہ وہ رشتے جو کسی دور میں بہت اہمیت کے حامل ہوتے تھے اب بے معنی ہو گئے ہیں،یہاں تک کہ بھائی بھائی سے دور ہے۔ بیٹا باپ سے ،باپ بیٹے سے لا تعلق ہو چکے ہیں،ہماری رگ رگ میں جھوٹ سما چکا ہے ہم اپنی صبح کا آغاز جھوٹ سے کرتے ہیں،اور بستر تک جھوٹ بولتے ہیں،صبح جب ہم اپنے سٹاپ پر کھڑے گاڑی کا انتظار کرتے ہیں تو سب سے پہلے کنڈایکٹر ہمیں جھوٹ بول کر اپنی گاڑی میں بیٹھاتا ہے ،کہ بیٹھو ،بیٹھو یہ گاڑی نان سٹاپ جائے گی جب کہ ایسا ہوتا نہیں ہے وہ لوکل ہوتی ہیں،اس میں بیٹھی سواریاں گالیاں دے رہی ہوتی ہیں،اس سے گے جب ہم اپنے اپنے دفاتر میں جاتے ہیں تو ہمارے سینئر،ہمارے انچارج،بوس اپنی ڈیوٹی کا آغاز جھوٹ سے کرتے ہیں،وہ سب سے پہلے اپنے ملازموں کو جمع کرتے ہیں ان کو کوئی نہ کوئی جھوٹی کہانی سناتے ہیں پھر کام شروع کرواتے ہیں،کسی بھی کمپنی کے سیل مین ،مارکیٹنگ مینئجر سیل ایگزٹیو،تو اپنی روزی کمانے کا آغاز جھوٹ سے کرتے ہیں،ان کا کہنا یہ ہوتا ہے کہ اگر جھوٹ نہ بولا جائے تو ہمارہ کام نہیں چلتا،کسی دکان ،شاپنگ سنٹر،شاپنگ مال پر شاپنگ کرنے چلے جاو تو سب سے پہلے اشیا کی قیمت جو بتائی جاتی ہے وہ جھوٹ ہوتی ہے،جب اس کو کم کرنے کی بات کی جاتی ہے تو سیل مین قسم کھا کر یہ کہتا ہے کہ اتنی تو ہماری قیمت خرید بھی نہیں ہے ۔جب کہ ایسا ہوتا نہیں یہ ایک دم سے جھوٹ ہوتا ہے،کسی سے نوکری کی بات کی جائے یا کسی بھی قسم کا کوئی لین دین ،اس میں نوے فیصد جھوٹ ہوتا ہے ۔جب ہم اپنی روزی کمانے کے ذریعہ جھوٹ بناتے ہیں جب ہم اپنا رزق جھوٹ کی بنیاد پر کماتے ہیں تو کیا وہ حلال ہوتا ہے ،کیا اس میں برکت ہوتی ہے ۔کیا اسے ہم اپنی اولاد کی بہتر تربیت کر سکتے ہیں،جھوٹ کے بارے میں تو یہاں تک کہا گیا ہے کہ تم اپنی بکری کو بھی خالی جھولی دیکھا کر اسے نہ بولاو،اس کا مطلب یہ ہوا کہ تم جانور سے بھی جھوٹ نہ بولو،یہاں تو جھوٹ بول کر لوگوں گھروں کے گھر اجھاڑے جاتے ہیں، خاندان کے خاندان برباد ہو جاتے ہیں یہاں تو رشتے جھوٹ کی بنیاد پر قائم ہوتے ہیں ،کیا وہ رشتے جو جھوٹ پر بنتے ہیں وہ دیر پاہو سکتے ہیں؟زندگی میں کوئی ایسا شعبہ نہیں ،کوئی ایسا کام نہیں جس میں جھوٹ نہ بولا جا رہا ہو ،یہاں تک کہ مسجدوں میں بیٹھ کر بھی جو فیصلے ہوتے ہیں وہ جھوٹ بول کر کیے جاتے ہیں یہاں تو مدرسے، مسجدیں،بھی قبضے کی زمینوں پر بنا کر جھوٹ بول کر قبضہ کیا جاتا ہے ،جب کسی کام کی شروعات ہی جھوٹ پر ہو تو اس میں بددیانتی،کرپشن،بے ایمانی،فراڈ،دھوکا،سب کچھ خود بخود ہی شامل ہو جاتا ہے، جب ہمارا آغاز ہی بے بنیاد ہوگا تو اس کا انجام کیسے اچھا ہو سکتا ہے ہم پھر اچھائی کی کیا امید رکھ سکتے ہیں۔

یہ کہنا کہ پورے کا پورہ معاشرہ ایک ہی طرح کے اخلاقی گہراوٹ کا شکار ہے۔ہم اپنی اسلامی روایات اوراخلاقیات سے بہت دور ہو چکے ہیں۔اس کی وجہ جھوٹ کے ساتھ ساتھ اس ملک کا سرمایا دارانہ نظام بھی ہے اس سرمایا دارانہ نظام نے انسان کو اتنا بے حس کر دیا کہ انسان کو انسان سے دور کر دیا ،آدمی کو آدمی سے بیگانہ کر دیا،اتنا لالچی کر دیا کہ ہر ایک کا بس اپنی ہی ذات سے،اپنی ہی سانس سے رشتہ راہ  گیا،اس سرمایادارانہ نظام نے انسان کو دولت کے منافع کے پیچھے لگا دیا،ہر ایک بس دولت کمانے کے چکر میں،منافع کمانے کی دوڑ میں اپنے بھائی کو،اپنے باپ کو،اپنے ہی ساتھی کو چکر دے رہا ہوتا ہے ۔اسے اس بات سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ وہ کس کس کی مجبوریوں سے، بے بسیوں اور جذبات سے کھیل رہا ہوتا ہے ،اس کو بس ایک ہی چیز نظر آتی ہے وہ اپنا سرمایا،اپنا منافع۔وہ روایات جو ہماری پہچان تھیں،وہ اخلاقات جن کی بنیاد پر یہ معاشرہ قائم ہوا،وہ سچائی، ایمانداری ،دیانت داری جس نے انسان کا انسان سے رشتہ قائم کیا ہوا تھا جب یہ ختم ہوئیں تو یہ رشتے بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گئے،آج ہم بے حس قوم بن چکے ہیں،ہوٹلوں ،پارکوں ،گھروں کی بیٹھکوں اور، دفاتر میں بیٹھ کر آج سے بیس سال پہلے کی معاشرتی اخلاقیات کو کہانیوں کی طرح سناتے ہیں،آج ہم اپنے پرانے شادی بیاہ کی ان روایات کو جن میں خاندان کا ایک ایک فرد اپنا کردار ادا کرتا اپنا اخلاقی،معاشرتی،فرض سمجھتا تھاوہ قصے کسی ناول،افسانہ،کہانی کی طرح بیان کرتے ہیں اور ساتھ ساتھ یہ افسوس بھی کرتے ہیں کہ اب تو بس سب کچھ نام کا راہ گیا ہے۔اب تو کسی کے مرنے پر بھی فون کی حد تک افسوس کر کے یہ سمجھتے ہیں کہ ہم نے اپنا فرض پورا کر دیا ہے ۔وہ پڑوسی جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اگر بھوکا سویا ہے تو آپ کی عبادت تک قبول نہیں ہوتی آج بے حسی کی اس حد کو چھو رہا ہے کہ اس کو آپ کی پریشانی تو دور آپ کی موت کی بھی خبر نہیں، دفاتروں میں ،فیکٹریوں میں،ملوں میں،کام کرنے والے ملازموں کے ساتھ جانوروں سے بھی بد تر سلوک کیا جاتا ہے ،ان کو انسان تک نہیں سمجھا جاتا،یہاں تک کہ کتنے مزدورں کے بچے،موت کا شکار ہو جاتے ہیں ،خود مزدور تڑپ تڑپ کر جان دیدیتے ہیں مگر منافع کمانے کی لالچ میں اندھے ہونے والے سرمایا دار اور اس کے حواریوں کے دلوں میں ہمدردی ،انسا نیت کا احساس تک پیدا نہیں ہوتا۔کیا انسانیت کے خون سے ، ظلمت کی انتہاہ کر کے کمائی جاننے والی دولت سے آج کے انسان کو سکول قلب مل سکتا ہے ؟کیا وہ اﷲ کی ان برکا ت،فضائل،سے فیض یاب ہو سکتا ہے جو خصوصی طور پر انسان کے لئے ہیں۔آج انسان سے انسان کی دوری، بے حسی،کی وجہ صرف اور صرف انسان کی اپنی پگڑی ، اپنی کرسی،اپنی ٹائی بچانے کے لئے اپنی اکڑ برقرار رکھنے کے لئے منافع خوری کی دھن میں اندھے ہو کر سرمایے کی پوجا کرنا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ انسان ہی بے بس اور مجبور ہوتا ہوتا اور انسان ہی اس کی مجبوری کا فائدہ اٹھا کر اپنا ناجائز منافع کماتا ہے۔سوچنے والی بات یہ ہے کہ اج کے دور کا انسان پانی ہی کہانی اپنی ہی زبانی کسی افسانے کی طرح سنا رہا ہوتا ہے ۔جہاں جس کا بس چلتا ہے وہ خود کو ہوشیار اور دوسرے کو بے وقوف بنانے کی کوشش میں لگا رہتا ہے ، کیا ہم اپنے آپ کو درست نہیں کر سکتے؟ کیا ہم دوسرے پر بات کرنے سے پہلے خود کو سامنے رکھ کر نہیں سوچ سکتے؟جو معاشرے اخلاقی زوال کا شکار ہو جائیں وہ بکھر جاتے ہیں وہ تباہ ہو جاتے ہیں۔ایک لمحہ اپنے آپ پر بھی غور کریئے گا۔

iqbal janjua
About the Author: iqbal janjua Read More Articles by iqbal janjua: 72 Articles with 75117 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.