امن و امان

تمام انسان باہم بھائی ہیں ۔ دوسرے لفظوں میں سب انسان آپس میں بھائی بھائی ہیں ۔ لیکن جب مذاہب ،ذات پات ، برداری ، لسانی تعصب ، علاقائی و ملکی تفاوت ، سرحدی حدود و قیود اور قبائل کی کسوٹی پر انسانی معیار کو پرکھا یا تو لا جاتا ہے ۔ تو بھائیوں کے درمیان نفرت وجود پانے لگتی ہے۔ جس کے سبب قتل و غارت اور خونزیری کا بازار گرم ہونے لگتا ہے۔ انسانوں کے مابین اس فرق کے سبب انسان ایک دوسرے کا گلا کاٹ رہا ہے۔ ایک دوسرے کا خون پی رہاہے۔ پھر بھی اس وحشی درندے نما انسان کا شکم سیر نہیں ہورہا کہ ظلم سے تائب ہو۔ ۔۔۔ ! بلکہ روز افزوں اس ہوس میں اضافہ ہی رہا ہے۔ جس کے نتیجے میں تحمل اور برداشت سے عاری معاشرہ وجود پانے لگتا ہے ۔ جیسا کہ پاکستان میں فرقہ واریت میں لا تعداد معصوم افراد قربان ہو چکے ہیں۔ دوسری طرف سر کاری انتظامیہ نا معلوم ملزموں یا حملہ آوروں کے خلاف کار روائی شروع کردیتی ہے۔ جبکہ یہ نا معلوم ملزمان /دہشت گرد اصل میں سرکاری مشینری کو مکمل طور پر معلوم ہوتے ہیں ۔ اس طرح ذمہ داروں کو محفوظ راستہ دے کر دیگر خطر ناک جرائم کیلئے انہیں استثنیٰ دے دیا جاتا ہے۔ یہ ایک طرح کی منظم منصوبہ بندی ہے جس کے تحت جرائم یا فسادات کا سلسلہ جاری کر دیا جاتا ہے۔ انتشار و اشتعال کا یہ بیج دھرتی میں ڈال کر کانٹوں کی فصل اگا کر بنی نوع انسان کو لہو لہان کرنے کے سامان پیدا کیے جاتے ہیں ۔ ان تلخ حقیقتوں کا تدارک انتہائی ضروری ہے ۔ اگر امن چاہئے تو ۔۔۔۔۔ ! یقینا امن ہماری ضرورت ہے۔

بین الا قوامی سطح پر سرگرم دہشت گر طاقتیں عموماً اور خصوصاً کسی بھی خطہ زمین پر مذہبی فرقوں ذات پات ، برادریوں اور لسانی تعصب رکھنے والے عناصر کو اپنے مذموم عزائم کا نشانہ بناتی ہیں ۔ ان کے درمیان نفرتوں کے بیج بو کر مستقل انتشار ، اشتعال اور انتقام پیدا کرتی ہیں۔ جس کے نتیجہ میں ہدف کا شکار خطہ زمین قتل و غارت کی زد میں آکر تباہ برباد ہو جاتا ہے۔

اس وقت پاکستان میں متذکرہ بالا خصوصیات کے حامل گروہ نہتے شہریوں ( عوام)کے ساتھ بر سر پیکار ہیں ۔ یہ گروہ فرقہ وارانہ بنیادوں پر بھی کام کر رہے ہیں ۔ لسانی تعصب پھیلانے کا ناپاک فرض بھی ادا کررہے ہیں ۔ ذات ، برادری اور قبائلی نفرت کا شکار ہو کر سال ہا سال تک نہ ختم ہونے والی جنگوں کے سلسلوں کو بھی جنم دے چکے ہیں ۔ جس کی تشخیص اور علاج پر سرکاری سطح پر کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ اس مرض کے خاتمے کیلئے ملکی سطح پر مربوط تھنک ٹینکس سنجیدگی سے متحرک ہوتے تو آج وطن عزیز کو نظر بد سے محفوظ کیا جا چکا ہوتا ۔

لیکن المیہ یہ ہے کہ اس ’’المیے‘‘ کی طرف توجہ ہی نہیں دی گئی۔ جس کا انجام مختلف قبائلی و فرقہ وارانہ فسادات کی صورت میں پیش آتا رہتا ہے۔ اور خون کی ہولیاں کھیلی جاتی ہیں۔ لیکن اعلیٰ شعور رکھنے والے بزرگوں اور تجربہ کار افراد اور منطقی فکر کے حامل ادیبوں ، حقیقت پسند علماء اور نوجوانوں نے تحمل ، برداشت اور صبر سے کام لے کر ملک کو ہر دور میں فرقہ وارانہ و دیگر فسادات سے بچایا ۔ اس طرح کے فسادات ناصرف پاکستان کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا سکتے ہیں بلکہ پوری دنیا ا ن کے بد اثرات سے آلودہ ہو سکتی ہے۔

اگر تمام دنیا کے انسان آج بھی اس فلسفہ پر بہ غائر نظر دھیان دیں کہ انسان باہم بھائی بھائی ہیں تو ہم یقینا اس تضا د میں ہر گز نہ پڑیں گے کہ ہمارے ( انسانوں کے) درمیان کوئی فرق ہے۔ ۔۔۔۔۔! تو سوال ہی پیدا نہ ہوگا کوئی منفی صورت حال سامنے آئے ۔۔۔۔ !

Mansha Fareedi
About the Author: Mansha Fareedi Read More Articles by Mansha Fareedi: 66 Articles with 47029 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.