اخبارات اور ٹاک شوز میں متنوع قسم کی بحثیں پڑھنے اور سننے کو ملتی
ہیں۔عموما موضوعات اس قسم کے ہوتے ہیں:
قائدِ اعظم مولوی تھے یا مسٹر؟
ہمارا آئین اسلامی ہے یا غیر اسلامی؟
پاک فوج شہید ہے یا ہلاک؟
اگر علامہ اقبال انگریزوں کے خلاف تھے تو انھوں نے سر کا خطاب کیوں لیا ؟
جماعت ِ اسلامی ، جمعیت علمائے ہند ، احرار وغیرہ نے پاکستان اور قائد ِ
اعظم کی کس حد تک مخالفت کی ؟
مولانا حسین احمد مدنی ، مولانا مودودی نے قائد ِ اعظم کی مخالفت میں کیا
کیا لکھا اور کہا؟
کیا پاکستان کے قیام میں واقعی نظریہ ِ پاکستان کا کلیدی کردار تھا ؟
اس قسم کے مسائل پر لکھنے اور بولنے والے تمام قلم کار حضرات اور دانشور
میرے لیے قابل ِ احترام ہیں ۔کیوں کہ میں ان سے بہت کچھ سیکھتا ہوں۔لیکن اس
قسم کےموضوعات پر طبع آزمائی کرنا لا حاصل ہے ۔ لا حاصل ہی نہیں ، قوم پر
اس کے مضر اثرات بھی مرتب ہوسکتے ہیں ۔اس قسم کے موضوعات پر لکھنے اور
بولنے سے درج ذیل اثرات مرتب ہو سکتے ہیں:
سننے اور پڑھنے والے مزید کنفیوژ ہو جائیں گے ۔(مزید کنفیوژ اس لیے کہ ہم
پہلے سے بہت سے مسائل میں الجھے ہوئے ہیں۔)
عدم برداشت کو بڑھاوا مل سکتا ہے ۔(جو کہ ہمارے لیے تو بہت خطرناک ہیں ۔
کیوں کہ ہم پہلے سے عدم برداشت کے ڈسے ہوئے ہیں ۔)
محبتوں میں کمی اور نفرتوں میں اضافہ ہوگا ۔
ہمارے ملک میں بہت سے سماجی اور معاشرتی مسائل ہیں ۔غربت ہے ، بے روزگاری
ہے ۔مہنگائی ہے ۔کرپشن ہے ۔لوڈشیڈنگ ہے ۔ٹارگٹ کلنگ ہے ۔پانی کا بحران ہے
۔دہشت گردی ہے ۔خواتین کی حالت ِ زار کا مسئلہ ہے ۔تعلیم کی نا گفتہ بہ
حالت ہے ۔تھر کا مسئلہ ہے ۔طالبا ن ، حکومت مذکرات کا ایشو ہے ۔مشرف کیس کا
مسئلہ ہے ۔اتنے سارے قدآور اور دیو ہیکل مسائل کو چھوڑ کر "تاریخی اور
اختلافی " مسائل پر لکھنا اور بولنا ۔۔چہ معنی دارد؟ مخالف کو زیادہ سے
زیادہ ذک پہنچانے کے لیے زیادہ سے زیادہ اختلافی معاملات پر لکھنا اور
بولنا عقلمند ی نہیں ہے ۔حالات ِ حاضرہ پر لکھے ہوئے اور بولے ہوئے الفاظ
ہی عوام میں پزیرائی حاصل کرتے ہیں ۔پھر قلم کار کو تو اس بات کا ہردم خیال
رکھنا چاہیے کہ اس کے قارئین میں سبھی قسم کےخیالات کے مالک لوگ شامل ہیں
۔اس لیے انھیں سب کا خیال رکھتے ہوئے لکھنا اور بولنا چاہیے ۔ کیوں کہ اگر
وہ ایسا نہیں کرے گا تو اس کی شہرت پر زوال کے بادل منڈلانے لگیں گے ۔
پچھلے دنوں اسلامی نظریاتی کونسل کی طرف سے دو بیانات آئے تو کونسل کے
ممبران کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا ۔ہر طرف سے کہا گیا کہ اسلامی
نظریاتی کونسل کے ممبران نے اہم اور بنیادی مسائل پر سفارشات پیش کیوں نہیں
کیں ۔یہی سوال میں اہل ِ قلم اور دانشور طبقے سے پوچھتا ہوں (جو اختلافی
مسائل پر لکھتے اور بولتے ہیں ۔)کہ وہ بنیادی اور اہم مسائل کو نظر انداز
کرتے ہوئے غیر اہم باتوں پر کیوں لکھتے اور بولتے ہیں ۔ہمارے ہاں اکثر یہ
بات بھی دہرائی جاتی ہے کہ جب ہلاکو خان بغداد کو اجاڑ رہا تھا تو اس وقت
کے علماء اختلافی مسائل پر بحثیں کر رہے تھے ۔(معلوم نہیں ، یہ بات کس حد
تک سچ ہے ، کیوں کہ یہ بات میں نے کسی کتاب میں نہیں پڑھی ہے ۔)ہمارا ملک
بھی اس وقت اجڑ رہا ہے ۔غربت ، مہنگائی ، بے روز گاری وغیرہ جیسے خطرنا ک
مسائل اس کی جڑوں کو کھوکھلا کر رہے ہیں ۔ وقت متقاضی ہے کہ قوم کو بجائے
مزید کنفیوژ کرنے کے ، جو ڑا جائے ۔ یہ ملک اس وقت ترقی کرے گا ، جب پوری
قوم متحد ہوگی ۔ہمارے قلم کا ر اور دانشور حضرات قوم کو متحد کرنے کے لیے
اپنے قلم اور گفتگو کی تما م توانائیاں صرف کردیں ، اگر وہ اس مملکت ِ
خداداد کو حقیقی معنوں میں ترقی یافتہ دیکھنا چاہتے ہیں ۔
|