انسان جب جوانی کے دور سے گزر
رہا ہوتا ہے تو اسکے اندربہت زیادہ جوش و خروش ہوتا ہے ۔نوجوان اپنے آپ کو
بہت توپ چیز سمجھتا ہے ۔ایک بہت عام فہم بات ہے کے بندہ جب کوئی نیا نیا
کام شروع کرتا ہے تواسکے اندر بہت جوش ہوتا ہے مگر اسکے حوالے سے اسکا علم
کم ہوتا ہے اور اس وجہ سے اسے پہلی دفعہ زیادہ غلطیا ں کرنی پڑتی ہیں پھر
وہ بڑوں سے سیکھتا ہے۔ جیسے کوئی نیا کاروبار شروع کرے تو تجربے کی کمی کے
باعث اسے نقصان اٹھانا پڑ جاتا ہے اسی طرح جب بندہ نو جوان ہوتا ہے یعنی
نیا نیا جوان ہوتا ہے تو وہ اس مقام پہ بھی بہت غلطیا ں کرتا ہے مگر بد
قسمتی سے اپنے بڑوں سے سیکھنے کی اہمیت بہت کم نوجوان جانتے ہیں زیادہ تر
اپنی من مانی اور سینہ زوری کے قائل ہوتے ہیں ۔اسی کم عقلی اور نا تجربہ
کاری کی وجہ سے وہ اکثر اوقات بہت بڑی غلطیا ں کر بیٹھتے ہیں ناقابل تلافی
نقصان اٹھاتے ہیں ۔ایک تو وہ یہ سوچتے ہیں کہ ان جیسا کوئی دنیا میں پیدا
ہی نہیں ہوا جتنا علم اور ہنر ان کے پاس ہے اتنا کسی کہ پاس نہیں دوسرا یہ
کہ وہ سمجھتے ہیں کہ وہ دنیا کو ادھر سے ادھر کر سکتے ہیں ۔مثال کو طور پر
دو تین نوجوان گاڑی پہ جا رہے ہوں اور تینوں ڈرائیور ہوں تو ہر ایک یہ جانے
گا کے وہ سب سے اعلیٰ ڈرائیور ہے وہ تینوں ایک دوسرے کو اپنی ڈرائیونگ سے
متاثر کرنے کی کوشش کریں گے کبھی زیادہ رفتا ر سے چلائیں گے بہت زیادہ اور
ٹیک کریں گے گاڑی پک کرکے اپنا ہنر دکھانے کی کوشش کریں گے ایک دوسرے کو
چیلج کرکے گاڑیا ں بھگائیں گے اور پھر کوئی نہ کوئی خوفناک حادثہ کر بیٹھیں
گے ۔یا موٹرسائیکل پہ ون ویلنگ کرکے لوگوں کو دوستوں کو اپنا ہنردکھانے کی
کوشش کریں گے۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات تو نہیں آپ نے اکثر یہ مظاہر دیکھے
ہوں گے او ر تیز گاڑی چلاتے ہوئے یا موٹر سائیکل پہ ون ویلنگ کرتے نوجوانوں
کی لاش پہ ماؤں کو روتے ہوئے بھی دیکھا ہوگا کم ازکم میں تو یہ تکلیف دہ
نظارے دیکھ چکھا ہوں اور اسی درد کی وجہ سے یہ کالم لکھا ہے کہ کاش میرے
نوجوان بھائی اس فریب سے نکل آئیں۔اسکے علاوہ نوجوان جوانی کے جوش میں
لڑائی جھگڑے بہت کرے ہیں ذرا کسی نے کوئی بات کہ دی بس آپے سے باہر ہو گئے
ان میں برداشت اور تحمل نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی۔کبھی قانون سے ٹکر لے
لیتے ہیں اور پھر جو ہوتا ہے آپ اچھی طرح جانتے ہیں۔اس دنیا میں ہر انسان
اپنی ڈیوٹی دینے آتا ہے ہر بندہ کسی مخصوص کام کیلئے آتا ہے اور اپنا کام
کر کے چلا جاتا ہے آج تک اس دنیا کا کسی نے کچھ نہیں بگاڑا اور نا کوئی
بگاڑسکے گا سکندر جیسے فاتح اور ہلاکو خان جیسے ظالم بھی مٹی میں مل گئے
اور دنیااسی طرح چل رہی ہے بلکہ دن بدن ترقی کر رہی ہے جب اﷲ پاک کا حکم ہو
گا ختم ہو جائے گی ۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ نہ تو کوئی انسان علم و ہنر میں
اپنے آپ کو دوسروں سے اعلیٰ سمجھ سکتا ہے اور نہ ہی وہ دنیا کا کچھ بگاڑ
سکتا ہے جو کچھ بھی کرتا ہے اپنے ساتھ ہی کرتا ہے ۔پہلی بات کی دلیل یہ ہے
کہ اﷲ پاک عزوجل کا فرمان ہے ہر علم والے پہ ایک علم والا ہے اب اگر کوئی
بندہ مثال کے طور پہ ایک انجینئر اگر کوئی نئی چیز ایجاد کر کے پوری دنیا
میں مشہور ہو جائے تو بھی وہ اس شعبے میں کامل ہونے کا دعوہ نہیں کر سکتا
وہ کسی نہ کسی شاخ کا ماہر ضرور ہوگا مگر پورے شعبے کا کبھی نہیں ہو
سکتا۔اس بات کا ثبوت یہ ہے کہ دنیا میں اب تک کتنے نامی گرامی سائنسدان آئے
ہیں ایک نے ایک نظریہ پیش کیا مگر کچھ دن بعد وہ رد ہو گیا اسکے بعد ایک
اورنظریہ آیا کچھ دن بعد وہ بھی بدل گیا غرضیکہ یہ سلسلہ چلتا رہا اور آج
تک جاری ہے اور قیامت تک جاری رہے گا ۔مان لیتے ہیں آپ بہت اچھے ڈرائیور
ہیں بہت ہی اچھے ڈرائیور ہیں مگر آپ سے اچھے ا ور کئی ڈرائیور ہوں گیااسلئے
دنیا کو اپنی ڈرائیونگ مت دکھایئے۔ ڈرائیونگ کی مثال میں نے اسلئے دی کہ اس
معاملے میں میں نے نوجوانوں کو بہت نقصان اٹھاتے دیکھا ہے۔اپنے اندر برداشت
اور تحمل پیدا کریں ۔اپنے ہنر اور علم میں روز اضافہ کریں مگر کسی کو اپنے
آپ کو عالم مت سمجھیں - |