آج کل پنجاب کاتعلیمی نظام ہرطرف سے
ریشنلائزیشن کی زد میں ہے۔ برطانوی روڈ میپ کی شاہراہ پر سدھائے ہوئے گھوڑے
سر پٹ دوڑرہے ہیں۔ ترقی کی اِس دوڑ میں ہر حدکوعُبور کیا جارہاہے حتٰی کہ
اپنی منزلِ مقصود سے بہت آگے نکلنے کی تیاری ہے ۔ ایسی منزل جہاں اپنی
تہذیب وثقافت،اقدار وروایات اوررسوم ورواج کی رسائی نہ ہو۔ جہاں ہرچیزبدلی
بدلی نظر آئے۔ جہاں فخر ہو توصرف اغیار کی اقدارپر۔ جہاں اپنی ہرچیزہیچ
نظرآئے۔ جہاں پسندوناپسند کے معیار اپنے وپرائے کی پہچان کے پیمانے تک بدل
گئے ہوں۔ جہاں قومی لباس وقومی زبان کو حقارت کی نگاہ سے دیکھا جائے اور
جہاں دیارِغیر سے آمدہ ہرچیزباعزت وباوقارقرارپائے۔
ریشنلائزیشن کے نام پرتمام شعبہ ہائے زندگی کی طے شُدہ اقداروروایات کوڈی
سٹیبلائیزیشن کی پالیسی پرعمل جاری ہے اور افسوس اِس بات کاہے کہ قومی وملی
اقدارکے خلاف ہراقدام کو ناعاقبت اندیش نام نہاد حکمرانوں کی بھرپور
سرپرستی وآشیرباد حاصل ہے اورعوام کی اکثریت اُن کے کارناموں سے غافل ہے۔
موجودہ حکومت اپنے تمام ترسیاہ کارناموں کوفخریہ اندازمیں اپنی کامیابیوں
میں گردانتے ہوئے بغلیں بجارہی ہے۔ اُن کی مثال اُن لوگوں جیسی ہے جواپنے
غلط کاموں کواچھاسمجھتے ہوئے اُن پر فخرکرتے ہیں جیساکہ اﷲ تعالٰی نے سورۃ
کہف کے آخر میں فرمایا : ﴿آپ ﷺ فرمادیجئے کہ کیا ہم تمہیں اُن لوگوں کے
بارے میں نہ بتادیں جن کے اعمال خسارے والے ہیں، وہ جن کی ساری کوششیں دنیا
کی زندگی میں ضائع ہوگئیں اوروہ سمجھتے رہے کہ وہ اچھے کام کررہے ہیں ـ﴾۔ [آیت
۱۰۳و۱۰۴]
بالکل اسی طرح ہمارے رہنمایانِ وطن بھی اپنے تمام تراقدامات کوملکی وقومی
ترقی کے لئے ناگُزیرقراردے رہے ہیں حالانکہ معمولی فہم وفراست والا شخص
بآسانی اُن اقدامات کے عواقب ونتائج کااندازہ لگا سکتا ہے۔ اب تک تعلیمی
شُعبہ میں کئے گئے حکومتی اقدامات کاجائزہ لیاجائے تویہ بات واضح نظرآتی ہے
اُن کامقصددینی وملی اقدارکے خاتمے کے سوا کچھ نہیں ہے۔ ان حکومتی اقدامات
کو نہ تو آئین وقانون کی حمایت حاصل ہے اور نہ عوام کی اکثریت کی ۔صرف
چندفی صد دین سے بے زار اور نظریہ پاکستان کے غدارسیکولر لوگ اوردرجنوں
غیرمُلکی این جی اوزاُن کی پُشت پناہی پرکمربستہ نظرآتی ہیں۔
مایکل باربر اورریمنڈ جیسے غیرمُلکی دانشوروں اور USAID و UKAID و
دیگردرجنوں این جی اوز کی موجودگی میں اس ملک وملت کی فلاح وبہبود کاخواب
بھلاکب شرمندہء ِتعبیر ہوسکتا ہے؟ جن کواﷲ تعالٰی ہمارے دشمن قراردے وہ
ہمارے دوست کیسے ہوسکتے ہیں؟ ہمارے غیرمُلکی ایڈوائزر توہروقت اِس تاک میں
رہتے ہیں کہ ہم اپنے ماضی کا حاصل شُدہ تمام خزانہ اپنے ہاتھوں کھوبیٹھیں۔
وہ توہمیشہ ہمارے تمام مستحکم اداروں کو غیر مستحکم کرنے کی چالیں چلتے
رہیں گے۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ ہمارے وقت کے حاکم اُن کی ہر مقاصدکی
تکمیل کے لئے ہمہ تن تیارنظرآتے ہیں۔
تعلیمی شعبہ میں کی جانے والی اصلاحات کا بغورجائزہ لیا جائے تویہ بات
اظہرمن الشمس ظاہرہوتی ہے کہ تمام تر اقدامات بغیر کسی ٹھوس مقصد
اوربغیرکسی مناسب منصوبہ بندی کے سرانجام دئیے جارہے ہیں۔ کسی واضح ومتعین
منزل کے بغیرسفرجاری ہے۔ جس کا نتیجہ منزل سے مزیددوری کے سواکچھ برآمد
ہونے کی توقع نہیں کی جاسکتی۔
جدید دنیاکے تقاضوں ،قومی امنگوں اورضرورتوں کے مطابق اصلاحات وتبدیلیوں
کاانکار توکسی صورت میں نہیں کیاجاسکتا کیونکہ اُن کی ضرورت تو ہردورمیں
معاشرے میں موجود رہتی ہے۔ بقولِ اقبال:
آئینِ نو سے ڈرنا طرزِکُہن پہ اَڑنا
منزل یہی ہے کٹھن قوموں کی زندگی میں
مگرعلامہ اقبال ؒ اِس بات کی بھی اجازت نہیں دیتے کہ ہرمعاملے میں دوسروں
کی نقالی کی روش اپنالی جائے۔ اِس بارے میں آپؒ نے فرمایا:
تراش از تیشہٗ ِ خود جادہٗ ِ خویش
براہِ دیگراں رفتن عذاب است
اب تک پنجاب حکومت کی طرف سے شعبہءِ تعلیم میں کئے گئے اسلام وپاکستان
مخالف اقدامات کی وجہ سے محب وطن عوام مایوس اوربددل ہوچکے ہیں۔ یہی وجہ ہے
کہ حکومت کی طرف جب بھی کسی نئی پالیسی کااعلان کیاجاتاہے تواس سے کسی خیر
کی توقع وابستہ نہیں کی جاتی بلکہ اُسے کسی نئے جال کاپیش خیمہ سمجھاجاتاہے
کیونکہ دودھ کاجلا چھاچھ کوبھی پھونک پھونک کر پیتاہے۔
تعلیمی شعبہ میں کی جانے والی زیادہ تراصلاحات کاعوام کوعلم تک نہیں ہے
کیونکہ اُنہیں توپیٹ کے چکروں میں اس قدراُلجھادیاگیاہے کہ وہ فکرفرداسے بے
فکراپنی اپنی دنیامیں محصورومجبورہیں۔
پنجاب کے تعلیم کے شعبہ میں کی گئی اصلاحات میں ریشنالائزیشن کی بازگشت آج
کل تعلیمی حلقوں میں خوب سنائی دیتی ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں ہیں کہ
ریشنالائزیشن سے کیامُراد ہے اور اُس کے کیااثرات ومضمرات تعلیمی شعبہ پر
پڑرہے ہیں۔
ریشنالائزیشن انگریزی زبان کالفظ ہے جس کامطلب ہے کسی عمل کومعقول بنانا
یاکسی ادارے کی تنظیمِ نَو کرکے اُسے سدھارنااورسنوارنا ہے۔بظاہریہ لفظ
اپنے اندربڑی کشش کاحامل ہے لیکن اِس کی آڑ میں ہمارے ناعاقبت شناس اربابِ
اختیارکیاکارنامے سرانجام دینے کے لئے ہمہ تن سرگرم وبے تاب نظرآتے ہیں؟
بیرونی آقاؤں کے اشاروں پر کئے جانے والے تمام اقدامات کے فوائدونقصانات کے
بارے میں سوچنا فطری عمل ہے ۔ موجودہ حالات میں جب بھائی بھائی کاحق دینے
کے لئے تیارنہیں ایسے میں ہمارے بیرونی خیرخواہ ہم پرڈالروں کی بارش
کیونکربرسارہے ہیں؟ مرزاغالب نے ایسے ہی موقع کے لئے کہاتھا:
مجھ تک کب اُن کی بزم میں آتاتھادورِجام؟
ساقی نے کچھ ملانہ دیاہوکچھ شراب میں؟
اب تک تعلیمی اِصلاحات کے نام پرکئی گئی تما م تبدیلیاں اسی ریشنالائزیشن
کے سلسلے کی کڑیاں ہیں۔بطورِ مثال ایسے چند اقدامات کی فہرست پیشِ خدمت ہے:
۱۔ سرکاری اِداروں میں قومی لباس پرپابندی اورانگریزی لباس کوضروری
قراردینا ۲۔ قومی زبان کی توہین ۳۔ مخلوط ٹریننگز کا انعقاد ۴۔ مردانہ
اداروں میں خواتین اساتذہ کاتقرر ۵۔ انگریزی ذریعہ تعلیم کاجبری نفاذ
۶۔لڑکوں اور لڑکیوں کے سکولوں کاادغام ۷۔ عرَبی زبان(لازمی) کو اختیاری
کادرجہ دینا ۸۔ تعلیمی سال ۱۴۔۲۰۱۳ء میں نصاب تعلیم میں سے دینی مواد کا
اِخراج ۹۔تعلیمی سال ۱۴۔۲۰۱۳ء میں پنجاب ایگزامینیشن کے زیرِاِنتظام
منعقدہونے والے جماعت پنجم وہشتم کے امتحان میں مطالعہ پاکستان ومقدس عربی
زبان کا پرچہ نہ لینے کااعلان ۱۰۔نئے ہائرسیکنڈری سکولوں میں نومضامین والی
پالیسی اپنانا (جن میں اسلامیات، مطالعہ پاکستان اور مقدس عربی زبان وغیرہ
قومی وملی مضامین کوشامل نہیں کیا گیا) وغیرہ...
ترقی کے نام پرجس طرح ہماری تہذیب وثقافت اور روایات واقدار پرجو وار
کیاگیا ،اُس کی مثال دنیا کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ اب تک کئے گئے اقدامات
کی وجہ سے عوام کااعتمادحکومت پرسے اُٹھ چکاہے۔ حکومت کی طرف سے تعلیم سمیت
مختلف شعبوں کی اصلاح کے لئے جوبھی اقدامات کرنے کا اعلان کیا جائے تو سب
کے دِل یہ سوچ کر دھک دھک کرکے رہ جاتے ہیں کہ کہیں نئے جال تو نہیں بچھائے
جارہے؟
اسی ریشنالائزیشن کی آڑ میں عواقب ونتائج سے بے پرواہ ہو کرلڑکوں اورلڑکیوں
کے سکولوں کوMerge(مدغم کرنا،ملانا)کیاگیا ہے۔اور آئندہ مزیداس منصوبے
کوتوسیع دینے کے عزائم ہیں۔ پتہ نہیں کیوں اِن چلتے بستے اداروں کونشانہ
بنایاجارہاہے؟ کیااپنی الگ حیثیت میں یہ ادارے اب تک اپنے فرائض سرانجام
نہیں دے رہے تھے؟ کیا اُن کو ایک دوسرے میں مدغم کردینے سے معیارمیں بہتری
آئی ہے؟ جو افراد اس ریشنالائزیشن کی زد میں آئے ہیں وہ بخوبی واقف ہیں کہ
اس کی وجہ سے معاملات مزید پیچیدہ ہوئے ہیں۔ والدین ہرگزاس پالیسی کوپسند
نہیں کرتے۔ جن سکولوں کوپہلے مرحلے میں ماڈل سکول کادرجہ دیاگیاہے، اُن میں
زیرِتعلیم اکثرطالبات نے سکول کوخیربادکہ دیاہے۔ ایک طرف حکومت داخلہ
بڑھانے کے اقدامات کرنے کے احکام دیتی ہے اور دوسری طرف خود اِس کے برعکس
اقدامات کرتی نظر آتی ہے۔
ان ماڈل سکولوں کی پالیسی پرنظر ڈالی جائے تو اس کے درپردہ عوامل کُھل
کرسامنے آجاتے ہیں۔ ان ماڈل سکولوں کی سربراہ خاتون اساتذہ ہی بن سکتی ہیں۔
مرداساتذہ اِن کے سربراہ نہیں بن سکتے خواہ وہ تعلیم وتجربہ میں خواتین
اساتذہ سے بڑھ کر ہی ہوں اور اگرلڑکوں اورلڑکیوں کے سکولوں کی حدود آپس
ملتی ہوں تودرمیانی دیوارگرادینا لازمی ہے۔ ہمارے علاقے کے اسی طرز کے ایک
سکول کی ہیڈمسٹریس نے اس پالیسی کے مطابق دیوار گرانے کی کوشش کی تو
معززینِ علاقہ نے اس کی سخت مزاحمت کرکے اُسے اس ارادہ سے باز رکھا۔
اگر اُن سکولوں کآپس میں کچھ فاصلہ ہو تو اِس صورت میں لڑکوں کے سکول
کاریکارڈ لڑکیوں والے سکول کی تحویل میں ہوگا۔ پتہ نہیں ایساکرنے میں مُلک
کی کون سی ترقی پنہاں ہے؟
اسی ریشنالائزیشن کا ایک ہدف پنجاب میں ایک طویل عرصہ سے احسن اندازمیں
تعلیمی وتربیتی خدمات سرانجام دینے والے گورنمنٹ کالجزفار ایلیمنٹری
ٹیچرزہیں۔ باوثوق ذرائع سے معلوم ہواہے کہ حکامِ بالا ان قومی اداروں سے
اُن کا کردار چھین لینے اورٹیچرزکی تربیت کاساراانتظام آغاخان یونیورسٹی
اوراس جیسے دوسرے سیکولر اداروں کے سپرد کرنے کے خواہاں ہیں۔
عُذر یہ پیش کیاگیا ہے کہ DSDکوملنے والے بجٹ کا ایک بہت بڑاحصہ ان
کالجزپرضائع ہوجاتاہے حالانکہ اِن اداروں پرصرف شدہ رقم ہی اصلی جگہ پرخرچ
ہوتی ہے اورباقی خطیررقم DSDکے افسران کے اللّوں تللّوں کی نذْرہوجاتی ہے۔
جن کی خدمت کے لئے لگژری گاڑیوں کی قطاریں ہرآنے جانے والے کامنہ چِڑاتی
ہیں۔اُن کی خدمت کے لئے ہروقت چاک وچوبندفوج اور فائیوسٹار ہوٹلوں کے لنچ
اورڈِنر اِن کے علاوہ ہیں۔
ان اداروں کو بند کرنے کی ایک وجہ یہ بھی بیان کی جارہی ہے کہ اِن اداروں
سے فارغ شدہ طلبہ وطالبات کی اکثریت سرکاری اداروں کی بجائے پرائیویٹ
اداروں میں چلی جاتی ہے۔ اِن بیربلوں کو کون سمجھائے کہ تمام فارغ التحصیل
طلبہ وطالبات کے لئے گورنمنٹ سیکٹرمیں ملازمت کرنے کی گنجائش نہیں اور یہ
کہ پرائیویٹ ادارے بھی ہمارے ملک کاہی حصّہ ہیں۔ اگر اُن کی یہ دلیل منطقی
اورعقلی ہے تواس کااِطلاق باقی تمام سرکاری سکولوں اورکالجوں پرسب سے پہلے
کیاجاناچاہئے کیوں کہ اِن اداروں سے فارغ ہونے والوں کی بھاری اکثریت
پرائیویٹ اداروں کارُخ کرتی ہے۔ اگر اس پالیسی کااطلاق صرف پروفیشنل اداروں
پر ہی کرناقرینِ قیاس ہے تو میڈیکل اور انجنئیرنگ کی تربیت کے لئے قائم شدہ
تمام سرکاری اداروں کوبھی بندکرناضروری ہے کیونکہ اُن سے فارغ ہونے والے
افرادکی بہت بڑی تعدادیاتو بیرون ملک ملازمت کوترجیح دیتی ہے یااپنے ملک
میں پرائیویٹ جاب اختیارکرتی ہے۔
اربابِ اختیار کے اس طرزکے اقدامات پر غالب کا یہ شعر صادق آتا ہے:
ہیں کواکب کچھ، نظر آتے ہیں کُچھ
دیتے ہیں دھوکا، یہ بازی گر کُھلا
اورانہی کے لئے یہ شعربھی مناسب معلوم ہوتا ہے:
اس سادگی پہ کون نہ مرجائے اے خدا
لڑتے ہیں اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں
اربابِ اقتدار سے ہماری گزارش ہے کہ اِس ملک وملت پرکچھ رحم کھائیں اوراپنے
عزائم سے بازآجائیں۔ آپ کے پاس اختیارات اﷲ تعالٰی کی امانت ہیں اورآپ سے
آپ کی رعایا کے بارے میں ضرورپوچھاجائے گا۔ براہِ کرم جو بھی پالیسی
اپنائیں ،اُسے قومی تقاضوں وضروریات سے ضرورہم آہنگ بنائیں۔ آج آپ کے پاس
طاقت ہے توکل کسی اور کے پاس ہوگی۔اوریادرکھیں کہ طاقت کے نشہ کی وجہ سے
انسان کی عقل پر پردہ پڑجاتاہے ،اور وہ کسی منطقی وعقلی دلیل کوبھی ماننے
سے انکارکردیتاہے۔ وہ اس بات سے بے خبر ہو جاتاہے کہ ایک نہ ایک دن اُس کی
طاقت کاخُماراُتر جائے گا اوراُسے اپنے کئے ہوئے افعال واعمال
کاپوراپورابدلہ دیاجائے گا۔وہ دن بہت جلدآنے والاہے۔ کہیں ایسانہ ہوکہ اِس
دنیا میں کئے جانے والے سارے اعمال اُس د ن ضائع قرارپائیں۔
تم برائی کی طرف راغب اگر ہوجاؤ گے
پھرتم اپنی ذات کو نقصان خودپہچاؤگے
باخبررہنا برائی کے بُرے انجام سے
تاکہ بچ پاؤ جہنم کے بھیانک دام سے
|