پاک بھارت کرکٹ میچ ہوا بنگلا دیش میں، مگر کسے جیتنا ہے
اور کون ہارے گا؟ اس کا انکشاف کیا پاکستان کے ایک چھوٹے سے قصبے کی تنگ
گلی میں رہنے والی ’’بی بی شکورن‘‘ نے۔ بی بی شکورن کرکٹ کی بے تاج ملکہ
ہیں۔ جب کسی میچ پر نوجوانوں کو شرط لگانی ہو تو بی بی شکورن کے دروازے پر
’’پرچی‘‘ لینے والوں کی ایک لمبی قطار لگ جاتی ہے۔ یہی نہیں بی بی شکورن
بگڑی سنوارنے میں بھی ماہر ہیں۔ محلے والوں کے گھر چا ہے ایک وقت کا چولہا
نہ جلے، لیکن بی بی شکورن کے تعویز کے لیے دو سو روپے دینے میں انھیں کوئی
اعتراض نہیں ہوتا۔
اب اس قصبے سے باہر آئیے، شہر میں قدم رکھیے، یہاں ایک بی بی شکورن نہیں
بلکہ ان جیسی کتنی ہی بیبییاں بھی ملیں گی اور بابا بھی۔ جگہ جگہ بورڈ
آویزاں نظر آتے ہیں، سنگ دل محبوب آپ کے قدموں میں، رشتے کی بندش کا توڑ
ہمارے پاس موجود ہے، بگڑا کام منٹوں میں بنایا جاتا ہے۔ کاروبار میں ترقی
ہو یا نوکری کے مسائل ہر مسئلے کا حل ان کے پاس موجود ہوتا ہے۔ حیرت کی بات
یہ کہ دنیا کے مسائل حل کرنے والے خود اپنے مسائل کیوں حل نہیں کرسکتے؟
آج سے دس سال قبل میں جب ان ’’باباؤں‘‘ کے قصے سنتی تھی تو مسکراتی تھی۔ دل
میں خیال آتا تھا کہ اب وقت بدل رہا ہے لوگ تعلیم یافتہ ہوتے جارہے ہیں، ان
میں آگہی بڑھ رہی ہے۔ رفتہ رفتہ کالے جادو اور عاملوں کے نام سے کھلنے والے
جہالت کے یہ کارخانے بند ہوجائیں گے۔ لیکن میں غلط تھی۔ جہالت کے ان
کارخانوں کا کاروبار تو اور وسیع ہوتا گیا۔
اور افسوس میں ڈوبی حیرت انگیز حقیقت یہ ہے کہ جہالت کے اس دھندے کو شعور
اور آگہی پھیلانے کے دعوے دار میڈیا کی بدولت بڑھاوا ملا اور مل رہا ہے۔
لائیو نشر ہونے والے مارننگ شوز اور دیگر پروگراموں میں جِنوں کی حاضری،
جادو اور ’’سائے‘‘ کے زیراثر افراد کی کہانیاں اور انسانوں سے غیرانسانی
آوازیں نکالنے والے منظر انتہائی متاثر کن ہوتے ہیں۔ یہ مناظر دیکھ کر لمحہ
بھر کے لیے تو مجھ جیسی ان سب باتوں پر یقین نہ رکھنے والی خاتون بھی ششدر
رہ گئی کہ بظاہر عام نظر آنے والے شخص نے کس کمال سے ایک انسانی جسم کو
’’جن کے قبضے‘‘ سے آزاد کرالیا۔ یعنی پہلے تماشے چھپ کر کیے جاتے تھے، اب
کروڑوں افراد گھر بیٹھے یہ سب دیکھتے اور متاثر ہوتے ہیں۔ چناں چہ توہمات
پر یقین میں اضافے کے ساتھ جعلی عاملوں اور جعلی پیروں پر لوگوں کا اعتماد
بڑھتا گیا۔ اور اس کے اتنے بھیانک نتائج سامنے آئے ہیں کہ ہم سوچ نہیں سکتے۔
خاص طور پر حال ہی میں ہونے والے دو انتہائی افسوس ناک واقعات نے اس صورت
حال کی سنگینی واضح کردی۔
ان میں سے ایک دل لرزہ دینے والا سانحہ مری میں پیش آیا، جس میں دو معصوم
بچے جان سے گئے، اور ان پھولوں کو مسل دینے والا کوئی اور نہیں ان کا اپنا
سگا ماموں تھا۔ ماموں کا رشتہ کتنا پیارا ہے، جبھی تو بچے چاند کو چندا
ماموں کہتے ہیں۔ وہ ننھے منے معصوم بچے بھی اسی رشتے پر اعتبار کے سہارے
گئے تھے۔ نہ جانے انھیں سیر کرانے کے بہانے لے جایا گیا تھا کہ چیز دلانے
کا لالچ دے کر، اور وہ خوشی خوشی اپنے ’’پیارے ماموں‘‘ کا ہاتھ تھامے چل
دیے۔ یہ جانے بغیر کہ جن ہاتھوں کو وہ اتنے اعتماد سے اتنے پیار سے تھامے
ہیں وہ کچھ ہی دیر میں ان کے لے دست اجل بننے کو ہیں۔ خوشی سے دمکتی آنکھیں
اس وقت شاید خوف سے زیادہ حیرت سے پھیل گئی ہوں گی جب ماموں نے اپنے ان
پھول سے بھانجوں کے گلے کاٹے ہوں گے۔ ان میں سے دو بچے اپنے گلے پر چلنے
والے تیزدھار آلے کی تاب نہ لاسکے اور جان سے گزر گئے ۔ہاں ایک کی زندگی بچ
گئی۔ مگر وہ بچ جانے والی زندگی وہ ایک معصوم بچہ شائد عمر بھر اس خوفناک
حادثہ کی قید سے اپنا وجود آزاد نا کرسکے۔
مری میں پیش آنے والادل کے ٹکڑے کرتا یہ واقعہ خبر کی صورت آپ کی نظروں اور
سماعتوں سے گزر چکا ہوگا۔ اس واقعے کا ایک الم ناک پہلو یہ ہے کہ ان ننھے
منے بچوں کی جان لینے والے اس سفاک شخص نے یہ سب ایک جعلی عامل کے کہنے پر
کیا۔
اور دوسرا المیہ ملتان کا ہے۔ ایک زندگی کے خاتمے اور ہمارے سماج میں پھیلی
جہالت کا نوحہ سناتا المیہ۔خبروں کے مطابق ملتان سے تعلق رکھنے والے نوجوان
ذیشان سے ایک جعلی عامل نے کہا تھا کہ اس کے گھر میں خزانہ دفن ہے، جسے وہ
ڈھونڈ نکالے۔ پھر کیا تھا، ہمارے نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد کی طرح محنت
مشقت کے بغیر مالامال ہونے کی خواہش رکھنے والا یہ بدقسمت نوجوان جعلی عامل
کی باتوں میں آکر مسرور ہوگیا اور اس نے خزانہ نکالنے کے لیے اپنے گھر میں
کھدائی شروع کردی۔ خزانے کی تلاش میں اس نے سرنگ بنائی اور اس میں اترتا
چلا گیا، خزانہ تو ہاتھ نہ آیا مگر اسے ڈھونڈتے ڈھونڈتے وہ موت کی پاتال
میں اتر گیا۔
یہ دونوں سانحے بتا رہے ہیں کہ جعلی عامل ہمارے معاشرے میں کتنے بااثر ہیں
کہ انسانوں کو بھینٹ چڑھانے کی مکروہ رسم کب کی ختم ہوچکی، مگر یہ ظالم اسے
آج بھی زندہ رکھے ہوئے ہیں اور ان عاملوں کے کہنے پر ان کے جال میں پھنسے
ہوئے لوگ نہ صرف دوسروں کی جان لے لیتے ہیں، بل کہ اپنی جان بھی خطرے میں
ڈالنے سے دریغ نہیں کرتے۔
منشیات فروشی اور جرم کے دیگر بہت سے دھندوں کی طرح جعلی عامل اپنا کاروبار
چھپ چھپا کر نہیں چلا رہے، بل کہ اعلانیہ اپنی تشہیر کرتے ہیں۔ دھوکا دہی
اور جعل سازی کا یہ مکروہ ترین اور سفاکانہ دھندا زور شور سے پورے ملک میں
جاری ہے۔ جعلی عامل دیواروں کو ہی اپنی تشہیر کا ذریعہ نہیں بنائے ہوئے
باقاعدہ اشتہارات کی صورت میں بھی اپنے کالے جادو اور پُراسرار علوم کو ہر
مسئلے کا حل ثابت کرنے کی مہم جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اور پھر الیکٹرانک میڈیا
پر نشر ہونے والے توہمات پر مبنی پروگراموں نے تو گویا انھیں سندِتصدیق عطا
کردی ہے۔
حکومت کا کام اور ریاست کا بنیادی فریضہ اپنے شہریوں کی جان اور مال کا
تحفظ ہے۔ دہشت گردوں، ڈاکوؤں اور راہ زنوں سے شہریوں کو محفوظ نہ رکھنے
پانے میں تو ہماری حکومت ’’مجبور‘‘ ہے کہ وہ ہاتھ ہی نہیں آتے، اور پکڑے
بھی جائیں تو تھانوں سے عدالتوں تک پھیلے پیچیدہ نظام کی وجہ سے چھوٹ جاتے
ہیں، لیکن عوام کی جان و مال کے یہ دشمن، یہ لٹیرے، جو کھلے عام، اعلانیہ
طور پر اور اشتہار دے کر اپنی وارداتیں کرنے میں مصروف ہیں، انھیں روکنے
اور اس صورت حال کا سدباب کرنے میں آخر کون سی مجبوری اور کیا رکاوٹ حائل
ہے۔
کیا حکومت کی چشم پوشی یوں برقرار رہے گی اور الیکٹرانک میڈیا پر نشر ہونے
والے توہمات میں اضافہ کرتے پروگرام یوں ہی جاری رہیں گے؟ اگر صورت حال یہی
رہی تو پھر مری کے ان بچوں کی طرح زندگیاں چھینی جاتی رہیں گی، ملتان کے
نوجوان کی طرح لوگ خود اپنی موت کی سرنگ میں اترتے رہیں گے اور عزتیں پامال
ہوتی رہیں گی۔ |