یہ فیضانِ نظرتھایاکہ مکتب کی کرامت تھی
سکھائے کس نے اسماعیلؑ کوآدابِ فرزندی
اﷲ تعالٰی نے اس کائنات کوچاند،سورج،زمین ،آسمان اوربے شُمارستاروں سے
سجایااور اس میں انسان کو اشرف المخلوقات کاتاج پہنایا۔ کائنات میں سب سے
افضل ہونے کی بناپرانسان پربڑی ذمہ داریاں بھی ڈالی گئیں اوراسے حقوق اﷲ
اورحقوق العبادکاپابندبنایاگیا۔حقوق اﷲ کا تعلُّق اﷲ تعالٰی کی ذات کے ساتھ
ہے۔ اگروہ چاہے تو اپنے حقوق مُعاف کردے لیکن حقوق العباد کاتعلُّق بندوں
کے ساتھ ہے۔ حقوق العباد کسی صورت مُعاف نہ کئے جائیں گے حتّٰی کہ اﷲ کی
راہ میں شہید ہونے والوں کو بھی حقوق العبادکی ادائیگی کے بعد ہی جنت میں
داخل کیاجائے گا۔
حقوق العباد میں سب سے زیادہ درجہ والدین کے حقوق کا ہے کیونکہ انسان پر سب
سے زیادہ احسان والدین کے ہی ہوتے ہیں اور وہ اپنے آج کو اولادکے کل پر
قربان کردیتے ہیں۔خودروکھی سوکھی کھاتے ہیں مگر اپنی اولادکی ہرضرورت پوری
کرنے کے لئے ہمہ تن مصروف ہوجاتے ہیں۔ والدین میں سے والدہ کے حقوق کی
اہمیت زیادہ بیان کی کی گئی ہے کیونکہ بچے کی تعلیم وتربیّت میں زیادہ
مشقّت اُسی کوبرداشت کرناپڑتی ہے۔ ایک دفعہ ایک صحابی ؓنے آپ ﷺ سے پوچھا:
میرے حُسنِ سُلوک کاسب سے زیادہ مستحق کون ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: تیری ماں۔
اُس نے باربار یہ سوال دُہرایا۔ آپ ﷺ نے تین بار یہی جواب دیا اور چوتھی
بار جواب دیا: تیرا باپ۔
قُرآن مجید میں جہاں والدین کے ساتھ حُسنِ سُلوک کی تاکید کی گئی وہیں
بطورِخاص ماں کی خدمت کاحکم دیاگیا۔جیسا کہ اِرشادِباری تعالیٰ ہے: ﴿اور ہم
نے انسان کو اپنے والدین کے ساتھ حُسنِ سُلوک کی وصیّت کی(بطورِخاص اُس کی
والدہ کے ساتھ کیونکہ) اُس کی ماں نے اُسے کمزوری پر کمزوری کے عالَم میں
اپنے پیٹ میں اُٹھایااوردوسال تک اُسے دودھ پلایا۔۔۔﴾ [سورۃ لُقمان آیۃ ۱۴]
اور ایک دوسرے مقام پرارشاد فرمایا : ﴿اور ہم نے انسان کو اپنے والدین کے
ساتھ حُسنِ سُلوک کی وصیّت کی کیونکہ اُس کی ماں نے اُسے تکلیف کے ساتھ
اپنے پیٹ میں اُٹھایا اور تکلیف کے ساتھ ہی اُسے جنم دیا۔۔۔﴾ [سورۃ الاحقاف
آیۃ ۱۵]
بچہ اپنی زندگی کے ابتدائی عرصہ میں جس ہستی کے پاس زیادہ وقت گزارتا ہے،
اُسی سے زیادہ سیکھتاہے اور وہ ہستی ماں ہی کی ہے جس کے پاس بچہ زیادہ وقت
گُزارتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بچے کی شخصیّت پر سب سے زیادہ اثَراُس کی ماں
کاہی ہوتاہے۔وہ اپنی ماں سے ہی بولناسیکھتاہے اورچلنابھی اُسی سے، روایات
واقدار بھی اُسی کی اپناتاہے اوراخلاق وکردار بھی اُسی کا۔
ماہرین کاخیال ہے کہ ابتدائی پانچ سالوں میں بچے کی شخصیّت کی تکمیل ہوجاتی
ہے۔اس عرصہ میں بچہ اپنی ماں کی زیرِسرپرستی سب کچھ سیکھ رہاہوتاہے۔ یہی
وجہ ہے کہ اسلام میں مردوں سے بھی زیادہ عورتوں کی تعلیم وتربیّت
پرزوردیاگیاہے کیونکہ اُنہوں نے آنے والی نسل کی تربیّت کافریضہ سرانجام
دیناہوتاہے۔
جس قدْر عمارت کی بنیادمضبوط ہوتی ہے اُسی قدْر عمارت مضبوط ومستحکم ہوتی
ہے۔اگربنیاد کمزور ہو تو عمارت کمزورہی رہے گی خواہ اُس کو اوپر سے کتناہی
مضبوط کرلیاجائے۔ بقولِ شاعر : خِشتِ اول چونہد معمار کج
تاثُریّامے روَد دیوارکج
یہی وجہ ہے کہ اسلام بچے کی پہلی درس گاہ کی تعلیم وتربیّت کابھرپوراہتمام
کرنے کادرْس دیتاہے۔ کہاجاتاہے کہ ایک مرْدکی تعلیم ایک فرْد کی تعلیم ہوتی
ہے جبکہ ایک خاتون کی تعلیم ایک خاندان کی تعلیم ہوتی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا :
جس شخص کی دوبیٹیاں ہوں اور وہ اُن کی اچھی تعلیم تربیّت کرکے اُنہیں اپنی
منزل ِ مقصود تک پہنچادے تووہ قیامت کے دن میرے ساتھ ہوگا۔
یہ بات بالکل سچ ہے کہ اگر مائیں خودتربیّت یافتہ ہوں گی تووہ اپنی اولاد
کی تعلیم وتربیّت کا فریضہ اَحسن انداز سے سرانجام دے سکیں گی بصورتِ دیگر
وہ اِس عظیم فریضہ کی بجاآوری سے عاجِز آجائیں گی۔لھٰذا ضروری ہے کہ ماوٗں
کی تربیّت پر خصوصی توجہ دی جائے۔ اِس مقصد کے لئے ہمیں اسلامی حدود وقیود
کالحاظ رکھتے ہوئے اقدامات کرنے کی اشدّ ضرورت ہے۔
موجودہ حالات میں مادر پدر آزاد مخلوط تعلیم کی بدولت تعلیم یافتہ خواتین
تو دستیاب ہوسکتی ہیں لیکن تربیّت یافتہ مائیں ملنا مُحال ہے۔ کیونکہ عصری
تعلیمی اداروں میں تواِسلامی اقداروروایات دقیانوسی قرارپاچکی ہیں۔
اورہرسطح پراسلامی تھذیب وتمدن اوررسوم وروایات کوپامال کرنا ایک فیشن بن
چُکاہے۔ ہر ایراغیرا کی تان اسلام کا تمسخُر اُڑانے پر ہی ٹوٹتی ہے۔ جب
حکمران ہی اسلام مخالف اقدامات پربرسرِپیکار ہوجائیں توعوام کیوں کر اُن سے
پیچھے رَہ پائیں؟اِس نظام کا ایک اثر تو ضرور ہوا کہ خواتین کی ایک بہت بڑی
اکثریت اب اپنے آپ کو آزاد سمجھنے لگی ہے اور مخلوط مُعاشرے اورماحول
کواپنے لئے بہترشمارکرنے لگی ہے حالانکہ جس کوآبِ حیات سمجھاجارہاہے وہ تو
سُراب ہے جس کے پیچھے چلنے کانتیجہ ہلاکت اورتباہی کے سِواکچھ برآمد ہونے
کی توقُّع رکھناعبث ہے ۔بقولِ نظیراکبرآبادی:
حمیدہ چمکی نہ تھی کالج سے جب بیگانہ تھی
اب شمعِ محفل ہے پہلے چراغِ خانہ تھی
اگر ہم واقعی تربیّت یافتہ ماوئں کو اپنی آنے والی نسل کے لئے ضروری سمجھتے
ہیں توہمیں اسلامی اقدار کی طرف لَوٹناہوگا۔ اور بے شک اسلام ہی خواتین کی
عزَّت وعِصمت کی حفاظت کاضامن ہے اورتمام مذاہب واَدیان میں سب سے زیادہ
اُن کے حقوق کامحافظ ہے۔ اگر ہم اَسلاف کے نقشِ قدَم پرچلتے ہوئے اسلامی
خُطوط پرخواتین کی تعلیم وتربیّت کا انتظام کرنے کااہتمام کرلیں تویقینًا
ہم بچے کی اِس پہلی اور عظیم درس گاہ کی تعلیم وتربیّت بہترانداز سے
سرانجام دے سکتے ہیں۔لھٰذا والدین کافرض بنتاہے کہ وہ دینی حُدود میں رہتے
ہوئے اپنی اَولاد کی تعلیم وتربیّت کاخُصوصی بندوبست کریں۔
بچے کی پہلی درْس گاہ کے اثرات اُس کی شخصیّت کاحصّہ قرار پاتے ہیں۔اس عرصہ
میں بچے کے ذہن پر جو نقوش بنتے ہیں وہ اَنمٹ ہوتے ہیں جیسا کہ ضر ب
الْمَثَل ہے: اَلْعٍلْمُ فِی الصِّغْرِ کَالنَّقْشِ عَلَی الْحَجرَِ
وَالْعِلْمُ فیِ الْکِبَرِ کاَلنَّقْشِ عَلَی الْمَاءِ۔ (بچپن میں
سیکھاگیاعلم ایسے ہے جیسے پتھر پر لکیر اور بُڑھاپے میں سیکھاگیاعلم ایسے
ہے جیسے پانی پر لکیر)۔
ماں کی ہستی وہ ہے جو اپنے بچے کی خاطراپناسب کچھ نچھاورکردیتی ہے۔ بقولِ
شاعِر:
فکرمیں بچّوں کی کچھ اِس طرح گُھل جاتی ہے ماں
نوجواں ہوتے ہوئے، بوڑھی نظرآتی ہے ماں
کب ضرورت ہو مِری بچے کو، اتناسوچ کر
جاگتی رہتی ہیں آنکھیں اورسوجاتی ہے ماں
بچے کوپہلے کِھلاتی ہے سکون اور چین سے
بعد میں جو بچاہو،وہ شوق سے کھاتی ہے ماں
اگر بچوں کو رات کوڈر لگتاہوتو ماں ساری رات جاگ کرگُزاردیتی ہے کہ کہیں
اُس کے بچے ڈر نہ جائیں۔
اُس رات سے ماں پھر نہیں سوئی تابش
میں نے اِک بارکہا:مجھے ڈرلگتاہے
ماں کی ہستی اﷲ کی رحمت کاپرتَوہے۔ ماں خودتوبھوک پیاس اورتکلیف کوبرداشت
کرلیتی ہے لیکن اپنی اولاد کوکانٹا لگنا بھی گوارا نہیں کرسکتی۔ اﷲ تعالٰی
نے ہرماں کے دل میں اپنی اولادکے لئے محبت بھردی ہے حتٰی کہ مُرغی اپنی جان
کی بازی لگاکر اپنے چوزوں کی حفاظت کے لئے بلّی کے مقابلے میں سینہ
َسپرہوجاتی ہے۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنھا بیان کرتی ہیں : ایک دفعہ ایک فقیر عورت نے
اُن کے دروازے پرصَدالگائی کہ اُسے کُچھ کھانے کے لئے دیاجائے۔ اُس وقت آپ
ﷺ بھی گھرپرتشریف فرماتھے اور گھر میں فقیر کودینے کے لئے صرف ایک کُھجور
موجود تھی۔ میں نے وہ کُھجور اُس فقیرعورت کودے دی تو اُس نے اُس کُھجور کے
دو حصّے کر دیئے اور اپنے ساتھ موجود دوبچیوں کواُس کُھجورکا ایک ایک ٹکڑا
دے دیا اور خود بھوکی رہی۔ یہ واقعہ دیکھ کر آپ ﷺ آبدیدہ ہو گئے۔
زمانہ کے تندوتیزتھپیڑوں میں ماں کی ہستی ہی اولادکے لئے راحت و سکون کا
سبب ہوتی ہے۔ کڑکتی دھوپ میں ماواں ہی ٹھنڈیاں چھاواں اورابرِرحمت ثابت
ہوتیـ ہیں اورجن بچوں کوماؤں کی گود میسر نہیں آتی، اُن کی شخصیّت ہمیشہ
تشنہءِ تکمیل رہتی ہے۔جن کی مائیں دنیاسے رُخصت ہوجاتی ہیں، اُنہی کواس
عظیم نعمت کااحساس ہوتاہے تو بے اختیار وہ یہ کہنے پہ مجبورہوجاتے ہیں:
تیری آغوش میں جنّت اور جہاں دونوں کاسکون تھا
اس پتھر پرسررکھ کر مجھ سے سویانہیں جاتاماں
ماں وہ یونیورسٹی ہے جوبچے کی ہمہ جہت شخصیّت کی تکمیل کے لئے ہروقت مصروف
رہتی ہے۔ماں سے زیادہ بچے کوسمجھنے والاکوئی نہیں۔ ماں وہ ماہرِنفسیات ہے
جوحرکات وسکنات سے بچے کی ضروریات کااندازہ لگالیتی ہے۔کتناکم ظرف ہے وہ
شخص جسے یہ نعمت عطاکی گئی اوروہ اُس سے فیضیاب نہ ہوسکا۔
ماں کی ہستی اﷲ کی رحمت کاپرتَو ہے اور اُس کی اپنے بچے سے محبت بے نظیروبے
مثال ہے۔یہی وجہ ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے جنّت کو ماوئں کے قدموں تلے قراردیتے
ہوئے فرمایا: اَلْجَنَّۃُ تَحْتَ اَقْدَامِ الاُمُّہَاتِ۔ ایک دوسرے مقام
پرفرمایا: اِنَّ اﷲَ حَرَّمَ عَلَیْکُمْ عُقُوْقَ الاُمَّھَاتِ۔ (بے شک اﷲ
نے تم پر ماؤں کی نافرمانی کوحرام قراردیاہے)
تاریخ کامطالعہ کیاجائے تو معلوم ہوتا ہے کہ تمام عظیم لوگوں کی کامیابی
وکامرانی میں اُن کی ماوئں کا بہت بڑاکرداررہاہے۔ اگر ماں اپنے خاوند کی
مطیع وفرمانبردار ہوتوبیٹے اسماعیلؑ ذبیح اﷲ جیسے وفادارپیداہوتے ہیں۔اگر
ماں صالح وعبادت گُزار ہو تو بیٹے حضرت عُمربن عبدالعزیزؒ، حضرت عبدالقادر
جیلانیؒ،حضرت امام غزالیؒ اور حضرت شاہ ولی اﷲؒ جیسے نابغہءِ
روزگارپیداہوتے ہیں۔ اگر ماں شجاعت وبہادری کی علَمبردارہوتو بیٹے محمدبن
قاسم، طارق بن زیاد اور صلاح الدین ایوبی جیسے سپہ سالار پیداہوتے ہیں۔
بڑابدنصیب ہے وہ شخص جو اس عظیم درس گاہ سے فیض حاصل کرنے سے مجبور رہا
،دراصل وہ اﷲ کی رحمت سے کوسوں دُور رہا۔ اﷲ تعالٰی سے دُعا ہے کہ وہ سب کی
پہلی درس گاہ کو ہمیشہ سلامت رکھے اور سب کواس کی خدمت کرکے جنّت کاحقدار
بنائے۔اورجواپنی پہلی درسگاہ سے محروم ہوچکے ہیں،اُنہیں اُس کے لئے نیک
اعمال اوردُعا ؤں کااہتمام کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔( آمین)
آخر میں تما م ماؤں سے گُزارش ہے کہ وہ اپنی اولاد کی دُنیاوآخرت کی
کامیابی کے لئے ہمیشہ دُعاکرتی رہیں کیونکہ:
یہ کامیابیاں، یہ عِزّت، یہ نام، تُم سے ہے
خُدانے جو بھی دیاہے مُقام، تُم سے ہے
|