آج دنیا میں ہر ایجاد میں بہت تیز رفتاری سے تبدیلی آرہی
ہےآپ ابھی سوچتے ہی ہیں کہ اس ماڈل کا سیل فون خریدنا ہے اور اس سے پہلے ہی
اسی ماڈل کا جدید ورژن آ چکا ہوتا ہے۔ ٹی وی ، اے سی، فریج، گاڑیاں اور
سائٹس فار یاریاں سب ہی نے تیز رفتاری کو ایک سو چالیس کی سپیڈ سے پکڑ
رکھاہے۔
اب تو اگر ہم صرف یہ سمجھیں کہ ترقی اور برق رفتاری صرف اشیاء تک ہی محدود
ہے تو یہ خیال بالکل غلط ہے کیونکہ بدلتی دنیا نے سوچ کو بھی بدل ڈالا ہے
اب جو پہلے ہائے ناممکن اور نامناسب تھا آج وہ سب ممکن اور متناسب ہوتا
جارہا ہے۔
اگر بات کی جائے کسی بھی خاندان کے سب سے عزیز سرمائے کی تو یقینا بچے ہی
کسی بھی خاندان کا ایسا اثاثہ ہیں جن کو بنانے اور پروان چڑھانے پر شدید
محنت کرنی پڑتی ہے۔ آج کے بچوں کے بارے میں بھی یہی کہا جاتا ہے کہ وہ اب
بہت بدل گئے ہیں اب ویسے نہیں رہے جیسے کبھی کے اچھے بچے ہوا کرتے تھے اب
کے بچوں کو آپ جتنا روک لیں ٹوک لیں آپ تھک سکتے ہیں وہ کبھی نہیں تھکتے
اسی لئے یہ ضروری ہے کہ بدلتے زمانے کے ساتھ بدلتے بچوں کے انداز کو بھی
سمجھا جائے۔
جب آپ بچوں کے منہ پر یہی کہتے رہیں گے کہ تم کبھی بات نہیں مانتے کبھی
سنتے نہیں تو بچوں نے بالکل یہی کرنا ہے اور بات پر عمل تو دور کی بات ٹھیک
سے سننا بھی نہیں کہ آپ کیا کہہ رہے ہیں کیونکہ کمیونکیشن میں بچوں کے دماغ
میں جاتا وہ ہہے جو آپ بول رہے ہیں کیونکہ وہ الفاظ سنتے ہیں۔ "اپنے بھائی
کو مت مارو" بچہ سنتا صرف یہ ہے کہ آپ نے "مارو" اسے مت نہیں سنائی پڑتا۔
اسی لئے "بھائی کے ساتھ پیار سے رہو" بچے کے دماغ میں لفظ پیار جا رہا ہے
اور آپ بتا رہے ہیں کہ اُسے کیا کرنا ہے سو اُسےسمجھ آرہی ہے کہ اُس کو کیا
کرنا ہے۔
بات بات پر جب بچے کو پیٹا جارہا ہے کہ ایسا کیوں کیا اور پھر مار پڑی
دوبارہ مار پڑی ایک دفعہ پھر مار پڑی تو ایسے میں بچہ سمجھے گا تو یہی کہ
وہ کوئی اچھی مخلوق نہیں ہے اور دوسرے اس سے ناخوش ہیں تو وہ دل و ماغ
جلانے والی حرکتیں اورباتیں مزید سے مزید تر کرے گا۔ یہی وجہ ہے کہ جو بچے
پٹتے زیادہ ہیں وہ شرارت بھی زیادہ کرتے ہیں۔
بچوں کو ہر وقت اگر بتایا جائے کہ کیا کرنا ہے کیا نہیں کرنا ہر حرکت پر ہر
وقت کے اُٹھنے بیٹھنے پر نظر رکھی جائَے اور بتا یا جائے کہ کیا کیسے کب
کیوں اور کس طرح کرنا ہے تو ایسا بچہ سدھرے یا نہیں باغی یا حد سے ذیادہ
دبو ضرور بن جاتا ہے اسی لئے یہ ضروری ہے کہ دن بھر میں کسی ایک وقت میں
لیکچر یا نصیحت کا وقت رکھ لیا جائے اور باقی وقت اپنے آپ کو لیکچر سے دور
رکھا جائے یہ کامیابی کی کنجی ہے۔
بچوں کو سب سے ذیادہ ضرورت اپنے ماں باپ سے بات چیت کی ہوتی ہے دن بھر کی
چھوٹی چھوٹی باتوں کو شئیر کرنے کی دن کے چوبیس گھنٹے تو ناممکن ہے اور اگر
ٹی وی کے سامنے اور موبائل ہاتھ میں رکھ کر یہ سمجھا جائے کہ آپ بچوں کو سن
رہے ہیں اور وقت دے رہے ہیں تو یہ غلط فہمی ہے-
کرنا صرف اتنا ہے کہ دن بھر میں کسی وقت آدھا گھنٹہ نکال کر اُ نکو بولنے
دیا جائے اور موبائل اور ٹی وی اپنے ہا تھ اور کان ہاں سب سے ضروری نظر کی
پہنچ سے بھی دور رکھا جائے تو یہ کام بچوں کے لئے بے حد مدد گار اور اچھا
ہوگا کیونکہ یہ جو کمیونکیشن گیپ ہے یہ اس سنے اور نا سننے کے عمل کی وجہ
سے ہے جب آپ سن کر دیہان سے سنیں گے چاہیں باتیں کتنی ہی بچکانہ اور غیر
اہم کیوں نہ ہوں مگر آ پ کے بچوں کے لئے تو اہم ہیں اور آپ ان کے لئے۔ |