تھانہ ڈیرہ نواب صاحب کے علاقہ محلہ سادات کے رہائشی محمد
ناصر کی بیٹی شوہر سے ناچاکی کے بعد اپنے والد کے گھر آئی،اور ان کے ساتھ
رہنے لگی دونوں خاندانوں کے درمیان عدالت میں بھی کیس چل رہے تھے ۔وقوعہ کے
وقت عالم بی بی نے کمرے میں بند ہوکرگلے میں دوپٹہ ڈال کر پنکھے سے جھول کر
خودکشی کر لی دھوری اڈہ چک نمبر 430 ٹی ڈی اے کی بستی گلزار مدینہ کے
16سالہ محمد افضل نے گھریلو ناچاقی کی وجہ سے گندم میں رکھنے والی زہریلی
گولیاں کھاکر خودکشی کرلی اسے ہسپتال لایا گیا مگر وہ جانبر نہ ہوسکا ۔رحیم
یا ر خان چک نمبر 92ون ایل کی رہائشی 17سالہ ریحانہ اور چک شہباز پور روڈ
کی رہائشی 26سالہ شبانہ کو اقدام خودکشی کرنے پر ورثاء نے طبی امداد کیلئے
ہسپتال منتقل کیا جہاں پر موجود ذرائع نے بتایا کہ دونوں خواتین نے معاشی
بدحالی کے باعث آئے روز کے گھریلو جھگڑوں سے دلبرداشتہ ہوکر اقدام خودکشی
کیا ہے م17سالہ ریحانہ طبی امداد کے باوجود جانبر نہ ہو پائی،اور جسم میں
زہر پھیل جانے کے باعث دم توڑ گئی 26سالہ شبانہ کی حالت بھی تشویشناک بتائی
جاتی ہے ۔حیدر آباد تھل کے نزدیکی گاؤں ماہی والا کے رہائشی محمد رمضان
کارلو کی بیوی رخسانہ بی بی اپنے شوہر سے طلاق لے کر اما ن اﷲ بھڈ وال سے
شادی کرنا چاہتی تھی شوہر محمد رمضان نے طلاق دینے سے انکار کر دیا جس پر
اس کی بیوی نے اپنے والد سردار بخش اور امان اﷲ کے مشورہ سے اپنے خاوند کو
زہر دے کر مار ڈالا،یہ صرف دو دن کے اخبارات کی خبریں ہیں ،روزانہ کے
اخبارات میں گھریلو جھگڑوں کی خبریں ضرور ہوتی ہیں ملک بھر میں یہ جھگڑے
بڑھتے ہی جارہیے ہیں ۔میں روزانہ اس طرح کی خبریں اخبارات میں پڑھتا ہوں تو
دل ہی دل میں یہ سوچتا ہوں کہ ہم کس جانب جارہے ہیں ،گھر گھر میں فسا د
کیوں برپا ہے ۔ان جھگڑوں سے سچ پوچھیئے تو کوئی مگر محفوظ نہیں ہے ۔کسی گھر
میں میاں بیوی میں ناچاکی ہے کسی گھر میں باپ بیٹوں میں تنازعہ ہے کہیں ماں
بیٹی میں تعلقات کشیدہ ہیں ،اور بہت سے گھرانے ایسے بھی ہیں جن میں سگے
بھائیوں میں بول چال بند ہے ہم نے سگے بھائیوں کو بھائی کے دکھائی دینے پر
راستہ تبدیل کرتے ہوئے دیکھا ہے۔گھریلو جھگڑوں کی تاریخ تاریخ انسانیت کی
ہم عمر ہے ۔حضرت آدم علیہ اسلام کے ایک بیٹے نے جب شادی کے معاملہ میں رنجش
پر اپنے بھائی کو قتل کر دیا تھا اس کے بعد یہ جھگڑے مختلف اوقات میں مختلف
شکلوں میں جاری ہیں گھریلو جھگڑوں کی وجہ سے بچوں کی زندگی پر بھی منفی
اثرات پڑتے ہیں ،خاوند اور بیوی میں اولاد ،والدین میں ،بھائیوں میں تعلقات
اچھے ہوں تو گھر ہی کیا پورا محلہ یابستی جنت بن جایا کر تی ہے ۔اس کے
برعکس اگر ان میں تعلقات کشیدہ ہو جائیں تو گھر ہی کیا پورا محلہ اور بستی
دوزخ کا منظر پیش کرنے لگتی ہے ان گھریلو جھگڑوں میں سسرال کے کر دار کو
بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہا جاتا ہے کہ گھر کو آباد کرانے یا برباد
کرانے میں ساس اہم کردار ادا کرتی ہے اس سلسلہ میں ایک حکایت پڑھیے جو ہم
نے بچپن میں اپنے والدین سے بار بار سنی ہے وہ یہ کہ دو بھائیوں کے ایک بہن
تھی ایک بھائی کی چاربیٹیاں اور چھ بیٹے تھے جب کہ دوسرے بھائی کی ایک بیٹی
اور پانچ بیٹے تھے ان کی اکلوتی ہمشیرہ کا بیٹا جوان تھا وہ اس کے لئے
مناسب رشتہ کی تلاش میں تھی،اس سلسلہ میں و ہ اس بھائی کے پاس گئی جس کی
چار بیٹیاں تھیں اسے اپنے آنے کا مقصد بتایا تو بھائی کو اس بات پر آمادہ
کرنے کی بہت کوشش کی کہ میں بھی ایک بیٹے کی شادی کر تی ہوں تو بھی ایک
بیٹے کی شادی کر لے مگروہ نہ مانا اس بھائی سے مایوس ہو کر وہ بہن دوسرے
بھائی کے پاس گئی اس کو اپنے آنے کا مقصد بتایا تو اس نے بغیر کسی مطالبہ
اور شر ط کے بہن کو اکلوتی بیٹی کا رشتہ دینے پر آمادگی ظاہر کر دی ،رشتہ
طے ہو گیا شادی کا دن مقرر ہوا بہن بھائی کے گھر سے اپنا بیٹا بیاہ کر بیٹے
اور بہو کے ساتھ خوش و خرم رہنے لگی ،جس بھائی نے بہن کو رشتہ دیا اس نے
سوچا کہ میری ایک ہی بیٹی ہے اور پانچ بیٹے ہیں ایک بیٹی کے بدلے میں ایک
بیٹا بیاہ سکتا ہوں اس کے علاوہ چار بیٹوں کی بھی تو شادی کر نی ہے اگر اﷲ
تعالی ان چاروں کی شادی کا سبب بنا دے گا تو پانچویں بیٹے کی شادی کا سبب
بھی اﷲ پاک بنا دے گا ،اگر یہ بیٹی ہی نہ ہوتی تو تب بھی تو میں نے بیٹوں
کی شادیاں کر نا تھیں جس بھائی نے بہن کو رشتہ دینے سے انکار کر دیا تھا اس
کے لئے بیٹوں اور بیٹیوں کی شادیاں کرنا مسئلہ بن گیا ،اس کی عادتوں اور
شرائط کی وجہ سے کوئی بھی رشتہ طے کرنے پر تیار نہ تھا ،جب کہ جس بھائی نے
کسی شرط کے بغیر بہن کو خوش کر دیا تھا اس کے پاس ایک شخص آیا اس نے کہا کہ
میری پانچ بیٹیاں ہیں میں ان کی شادیاں کرنا چاہتا ہوں ان کی شادیاں تو
ہوجائیں گی مگر ایک بستی میں ہوگی تو دوسری کسی اور بستی میں ایک ایک شہر
میں رہ رہی ہوگی تو دوسری کسی اور شہر میں ،ایک دوسرے سے فاصلے پر ہونے کی
وجہ سے ان کا آپس میں رابطہ بھی کم ہوجائے گا میں اس لیے ایسے گھرانے کی
تلاش میں تھا کہ جس میں میں اپنی پانچوں بیٹیوں کی شادیاں ایک ہی جگہ اور
ایک ہی گھرانے میں کر سکوں اس سے پانچوں بہنیں ایک دوسری کی سامنے بھی رہیں
گی اور ان کو ایک دوسری سے ملنے کہیں جانا بھی نہ پڑے گا اور ہمیں بھی ان
سے ملنے کے لئے دور نہیں جانا پڑے گا ،جب بھی آئیں گے ایک جگہ سب سے ملاقات
ہوجائے گی،اگر ان میں سے کوئی ایک والدین کوملنے آئے گی تو اس سے اور بہنوں
کے حالات سے بھی آگاہی ہوجائے گی ،مجھے آپ کا گھر بتا یا گیا ہے اور آپ کے
بیٹے بھی پانچ ہیں میری خواہش ہے کہ آپ اپنے پانچوں بیٹوں کی شادیاں میری
بیٹیوں سے کر دیں ،اس نے بھی سوچا کہ اگر پانچوں بیٹوں کی شادیاں الگ الگ
گھرانوں میں کر تا ہوں تو ہر ایک کیلئے الگ لگ تگ و دو کرنا پڑے گی
،اخراجات میں بھی اضافہ ہوگا ،اﷲ پاک نے کیا ہی اچھا سبب بنا دیا ہے ،مجھے
بھی در بدر کی ٹھوکریں نہیں کھانا پڑیں گی،اس نے آمادگی ظاہر کر دی اس نے
پانچوں بیٹوں کی شادیاں ایک ہی گھر میں اور ایک ہی دن میں کردیں ،اس کے بعد
اس نے اپنی بیوی سے کہا کہ میں نے ان کی شادیاں کر دی ہیں ،اب ان کے گھر
بسانا تیرا کام ہے ،ان خواتین سے اگر کبھی کوئی نقصان ہوجاتا یا ان سے غلط
کام سرزد ہوجاتا جس سے وہ خوف زدہ ہوجاتیں کہ اس کا شوہر نہ جانے اسے اس
غلطی یا نقصان کی کیا سزا دے گا ،تو ان کی ساس کہتی کہ پریشان ہونے کی
ضرورت نہیں ،مجھ سے بھی ایسے نقصان ہوجایا کرتا تھا ،تمہارا سسر مجھے معاف
کر دیا کرتا تھا،اس نے کبھی مجھے سزا نہیں دی میں بیٹوں کو سمجھا دوں گی
پھر بیٹوں سے کہتی کہ نقصان انسا ن سے ہوجایا کر تے ہیں ،اگر یہی نقصان تم
سے ہوجاتا تو تم اس کی سزا کس کو دیتے ،یو ں اس نے گھر میں لڑائی جھگڑے کی
نوبت نہ آنے دی ،جس بہو سے کوئی نقصان ہوجاتا یا کوئی غلط کام ہوجاتا تو وہ
اسے بھی سمجھا دیتی کہ اس کام کو ایسے نہیں ایسے کیا جاتا ہے ،وہ ان کو یہ
بھی سمجھاتی رہتی کہ ایسا کام نہ کرجس سے تمہارے خاوندوں کو غصہ آجائے ،ان
سے کہتی کہ اپنے خاوند وں سے گھریلو اور دیگر اخراجات کم سے کم کراؤ کیونکہ
زیادہ اخراجات سے ذہنی تواز ن خراب ہو جاتا ہے ،جس سے گھر میں لڑائی جھگڑا
جاری رہتا ہے ادھر بیٹوں سے کہتی کہ تم از خود اپنی بیگمات کی ضرورتوں کا
خیال رکھو،یہ تمہارے حق میں بہتر ہے ،ان خواتین کے والدین نے بھی ان کے گھر
کو جنت بنانے میں اپنا کردار ادا کیا جب بھی ان سے ان کی کوئی بیٹی ملنے
جاتی تووہ اس سے کہتے کہ اب تمہارا گھر وہی ہے آج کے والدین کی طرح بیٹیوں
سے نہیں کہتے تھے کہ فلاں مطالبہ کرو،خاوند سے فلاں مطالبہ کرو،اس سے کہو
تمہیں مہنگے مہنگے کپڑے خرید کر دے ،گھر میں ایک استری ہے تو دوسری لے آئے
،واشنگ مشین اس سے اچھی لے آئے ،اس سے یہ خرید کراؤ وہ خرید کراؤ،بلکہ وہ
اپنی بیٹیوں سے کہتے کہ جتنا ہوسکے اپنے شوہروں کو خوش رکھو ان سے غیر
ضروری اخراجات نہ کراؤ،ان سے اخراجات جتنے کم کراؤگی وہ اتنے ہی تم سے خوش
ہونگے ،اگر کبھی نقصان ہوجائے یا غلطی ہوجائے تو اس سے پہلے تمہارے خاوند
کو غصہ آجائے معافی مانگ لو ،اس گھرانے میں کبھی لڑائی نہیں ہوئی ،ہمارا
ایک دوست بتا رہا تھا کہ اس کے ہمسایہ میں ایک شخص کی بیٹی خاوند سے ناراض
ہر کر میکے آئی اس شخص نے بیٹی سے پوچھا کہ کیسے آئی ،اس نے کہا کہ اس کا
خاوند ایسا ایسا ہے ،میں اب اس کے گھر نہیں جاؤں گی اس نے بیٹی سے کہا کہ
جس طرح آئی ہے اسی طرح واپس چلی جا ،آئندہ میرے گھر میں خاوند سے ناراض ہو
کر اس سے لڑائی کر کے نہ آنا ورنہ مجھ سے برا کوئی نہ ہوگا ،ہمارے دوست نے
بتایا کہ اس بات کو پندرہ سال ہوگئے ہیں اس گھر میں ایک دن بھی لڑائی نہیں
ہوئی ۔ان گھریلو جھگڑوں کے اسباب پر غور کیا جائے تو اس کی بہت سی وجوہات
سامنے آئیں گی،ان میں سے سب سے بڑی وجہ تربیت کا فقدان ہے ہمارے معاشرے میں
نہ تو جوانوں کو تربیت دی جاتی ہے کہ گھر کیسے بسانا ہے اسکی بیوی کے حقوق
کیا ہیں اولاد کی تربیت کس طرح کر تیں ہیں آئے روز گھر میں جھگڑوں سے گھر
پر ان کی زندگی پر او ر اولاد پر کیا اثرات پڑتے ہیں میاں بیوی کے ایک
دوسرے کے حقوق سے ناواقفیت کو بھی ان وجوہات میں شامل کیا جاسکتا ہے ایک
دوسرے کی بات کو برداشت نہ کرنا ۔اپنی ہی بات منوانا دوسرے کی با ت کی
پرواہ نہ کرنا بھی ان وجوہات میں شامل ہیں کہیں مردکا رویہ ظالمانہ ہوتا ہے
۔عور ت مظلومیت کی زندگی بسر کرتی ہے اور کہیں عورت کا رویہ ناقابل برداشت
ہوتا ہے مر د بے چارگی کی تصویر بن جاتا ہے ۔ اور کہیں مرد کوعورت کے خلاف
اورکہیں عورت کو مرد کے خلاف اکسایا جاتا ہے ۔ اور یہ کام رشتہ دار ہی کرتے
ہیں۔گھریلو جھگڑوں کا ذمہ دار عام طور پر مرد کو ٹھہرایا جاتا ہے حقیقت کی
نظر سے دیکھا جائے تو عورت بھی اس میں برابر کی ذمہ دار ہے گھریلو جھگڑے
خاندان اور برادری سے نکل کر اب اخبارات اور عدالتوں میں آچکے ہیں ان کی
شرح میں روز برو ز اضافہ ہی ہو رہا ہے ۔جب سے میڈیا آزاد ہوا ہے اور جب سے
این جی اوز نے خواتین کے حقوق کا بیڑا اٹھایا ہے خواتین پر تشدد کے خاتمہ
کی مہم چلائی ہے تب سے گھریلو جھگڑوں میں بھی اضافہ ہو گیا ہے جب سے حقوق
نسواں بل منظور ہو ا ہے تب سے بھی ان گھریلو جھگڑوں میں اضافہ ہی ہوا ہے اب
تو ان میں اس قدر شد ت آچکی ہے کہ لوگ خودکشیاں کر رہے ہیں کہیں مر د
گھریلو حالات کی وجہ سے اپنی زندگی کا خاتمہ کر دیتا ہے اور کہیں عورت ان
حالات کی وجہ سے خود کو جان سے ماردیتی ہے ۔اس سلسلہ میں معاشی عوامل کو
بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ اخراجات میں اضافہ ہور ہا ہے آمدنی میں
اس طرح اضافہ نہیں ہوتا کاروباری حضرات بزنس کم ہونے کی وجہ سے پریشان رہتے
ہیں مہنگائی کی وجہ سے عوام میں خریداری کا رجحان وہ نہیں رہا جو ہونا
چاہیے تھا۔سر کاری ملازمین محدود تنخواہوں اور لامحدود اخراجات کی وجہ سے
ٹینشن میں رہتے ہیں کاشتکار حضرات مہنگے ڈیزل اور زرعی مداخل اور کم
پیداوار کی وجہ سے ذہنی تناؤ میں رہتے ہیں ان سب عوامل کا نتیجہ گھریلو
جھگڑوں کی صورت میں برآمد ہوتا ہے جوں جوں انسان ترقی کر رہا ہے اسی تناسب
سے اسکی ضروریات میں بھی اضافہ ہو رہا ہے جو کہ اخراجات بڑھ جانے کا سبب
بنتا ہے ۔ہم اپنی غذاؤں پر غور کریں تو وہ بھی گھریلو جھگڑوں کی ذمہ دار
ٹھہرائی جاسکتی ہیں کہ تیز مرچیں ،تیزنمک ،مرغن غذائیں ،برگر،پیزہ،تیل میں
تلی ہوئی اشیاء کھانے سے بھی مزاج میں تیزی آجاتی ہے بلڈ پریشر ہائی ہوجاتا
ہے بعض اوقات لوگ مذہب سے نفرت کر تے ہیں کہتے ہیں کہ مذہب کی بات نہ
کرو،مذہب سے دوری ان گھریلو جھگڑوں کی سب سے بڑی وجہ ہے ۔مذہب نے ہر ایک کے
حقوق و فرائض متعین کر رکھے ہیں ۔اسی مذہب میں میاں بیوی ،ساس بہو،سسر
داماد، بھائی بہن،اور دیگر رشتہ داروں کے حقوق طے شدہ ہیں ،اسی لیے تو
فرمایا ہے رسول کریم ﷺ نے کہ شادی دین دار گھرانے می کیا کرو،ہم دنیا دار
تلاش کرتے ہیں کہ زمین کتنی ملے گی ،جہیز میں کیا کیا ملے گا ،دونو ں طرف
سے لالچ پائی جاتی ہے ۔جہاں لالچ ہو اور خلوص نہ ہو وہاں سے گھریلو جھگڑے
ہی برآمد ہوتے ہیں ہمیں ان گھریلو جھگڑوں کے خاتمہ کے لئے اپنا اپنا کر دار
ادا کرنا ہوگا ،تحمل اور برداشت کے کلچر کو عام کرنا ہوگا۔عدالتوں میں صرف
خواتین کے حق میں فیصلے دینے کے قانون کو تبدیل کرنا ہوگا،جس کے خلاف فیصلہ
بنتا ہو اس کے خلاف ہی دیا جائے صرف مرد کے خلاف ہی نہ دیا جائے ۔تو اس سے
بھی ان گھریلو جھگڑوں میں کمی لائی جاسکتی ہے ۔ہم ایک دوسرے کو معاف کردینے
اور درگزر کرنے کی عادت اپنالیں ،اپنے رویوں میں نرمی لے آئیں تو بھی
گھریلو جھگڑوں میں کمی لائی جاسکتی ہے ۔ان گھریلو جھگڑوں کوختم کرنے یا کم
کرنے کے لیے معاشرہ کے نمائندہ طبقات کو اپنا کردارادا کرنا چاہیے۔علماء
اپنے خطابات میں اس کے شرعی اورمعاشرتی اثرات سے عوام کوآگاہ کریں۔ ہم نے
آج تک کسی عالم دین کواس موضوع پرخطاب کرتے ہوئے نہیں سنا۔ مشائخ حضرات
اپنے مریدوں کواس سے دوررہنے کی تاکید کریں۔ پروفیسرز صاحبان اور اساتذہ
اپنے شاگردوں کی اس سلسلہ میں تربیت کریں۔صحافی اورکالم نگاربھی اپنا فرض
ادا کریں ۔ ہم اﷲ پاک اور اس کے رسول صلی اﷲ علیہ والہ وسلم کی تعلیمات سے
آگاہی حاصل کرکے اس پر عمل کرکے دوزخ زدہ گھروں کو جنت کے گہوارے بنا سکتے
ہیں۔ |