۱۔ جب خوارج کا ظہور ہوا اور
انہوںنے قرآنی آیات سے غلط استدلال کو رواج دیا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ
کی نظرِ انتخاب مفسرِ قرآن حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ پر پڑی اور آپ نے
انہیں خوارج کو سمجھانے کا حکم فرمایا۔
حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے حسین و نفیس قسم کا ایک
یمنی جوڑا پہنا۔ جب میں خوارج کی جماعت کے پاس پہنچا تو انہوں نے مرحبا کہہ
کے میرا استقبال کیا اور( ساتھ ہی طنزواعتراض کے طور پر) کہا کہ: یہ بڑھیا
جوڑا کیا ہے؟ (مطلب یہ تھاکہ بڑھیا قسم کا حسین و جمیل لباس اسوۃ نبوی اور
مقام تقویٰ کے خلاف ہے) ۔میں نے کہا :
ما تعیبون علی لقد رایت علی رسول اللہ ﷺ احسن ما یکون من الحلل
’’تم میرے اس اچھے لباس پر کیا اعتراض کرتے ہو میں نے رسول اللہ ﷺ کو حسین
سے حسین جوڑا پہنے دیکھا ہے۔‘‘ (سنن ابی دائود، اللباس،باب لباس الغلیظ،
الرقم:۴۰۳۷)۔
۲۔ ایک مرتبہ چند صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نبی کریم ﷺ کے دولت کدے کے باہر
آپ ﷺکی آمد کے منتظر تھے ۔آپ ﷺ ان سے ملنے جب گھر سے باہر تشریف لے جانے
لگے تو پانی سے بھرے ایک چھوٹے برتن میں دیکھ کر اپنی داڑھی اور سر کے بال
سوارنے لگے، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا یہ منظر دیکھ رہی تھیں عرض کیا، آپ
تو اللہ کے رسول ہیں آپ بھی اہتمام کررہے ہیں آپ نے جواب میں سمجھایا:
’’نعم اذااخرج الرجل الی اخواتہ فلیھی من نفسہ فان اللہ جمیل یحب الجمال‘‘
’’ہاں جب بندہ اپنے بھائیوں سے ملنے کے لئے گھر سے نکلے تو اسے چاہیے کہ
اپنا حلیہ دُرست کرلے کہ بے شک اللہ تعالیٰ جمیل ہیں اور جمال کو پسند کرتے
ہیں‘‘(تفسیرِ قرطبی:۷؍۱۲۷، الاعراف:۲۶)
۳۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہ ایک مرتبہ قیمتی جوڑا پہنے ہوئے شہر سے گزر
رہے تھے۔ راستے میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے چند طلبہ سے ملاقات ہوگئی، وہ
ازراہِ تعجب کہنے لگے ’’آپ تو حضرت ابنِ عباس ہیں اور آپ نے اس طرح کا
لباس پہنا ہوا ہے‘‘۔
حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہ نے طلبہ کی نظریاتی تربیت کے پیشِ نظر فرمایا:
’’اول مااخا صمکم بہ قال اللہ (قل من حرم زینتہ اللہ) وکان رسول اللہ علیہ
السلام یلبس فی العیدین بردی حبرۃ (الدرالمنثور: ۳/۴۴۱، الاعراف: ۳۱)
’’ میں سب سے پہلے قرآن کریم سے دلیل دیتا ہوںکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
[کہوکہ! آخر کون ہے جس نے زینت کے اس سامان کو حرام قرار دیا ہے جو اللہ
نے اپنے بندوں کے لئے پیدا کیا ہے]( دوسری دلیل سنت سے دیتا ہوں کہ) آپ
علیہ السلام عیدکے موقع پرحبرہ کی بنی ہوئی عمدہ چادر اُوڑھتے تھے۔‘‘
۴۔ حضرت ابو رجا رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ایک موقع پر ہمارا حضرت
عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے سامنا ہوا، آپ نے ریشم کی ملاوٹ سے بنی
ہوئی منقش چادر (مطرف خز) اُوڑھی ہوئی تھی، ہم نے عرض کیا: اے صحابی رسول!
آپ نے یہ کیسے اوڑھ لی؟
حضرت عمران رضی اللہ عنہ نے فرمایا :(یہ شریعت کے مزاج کے خلاف نہیں) بے شک
آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کو یہ بات محبوب ہے کہ جس بندے پر اس کی طرف
سے انعام ہو تو اس کا اثر نظر آئے۔(السنن الکبری للبیہقی: ۳/ ۲۸۱)
ان تمام واقعات سے اس خام خیالی کی واضح نفی ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے
طالبوں اور آخرت کی فکر رکھنے والوں کو اپنی صورت و ہییٔت اور لباس کے حسن
و قبح سے بے پرواہ ہوکر میلا کچیلا، پراندہ حال اور پراگندہ بال رہنا چاہے
اور صفائی ستھرائی ، صورت و لباس کو سنوارنے کی فکر اور اس میں جمال پسندی
گویا دنیاداری کی بات ہے۔جو لوگ ایسی سوچ رکھتے ہیں وہ بلاشبہ زہدِاسلامی
کی صحیح روح اور لباس کے حقیقی مقاصد سے بے خبر ہیں۔
لباس میں جمال مقصود ہے۔
قرآن حکیم میں لباس کے دو مقاصد بتائے گئے ہیں۔
یبنی آدم قدانزلنا علیکم لباسا یواری سوآتکم و ریشا (اعراف: ۲۶)
ـ’’اے آدم بیٹواور بیٹیوں! ہم نے تمہارے لئے لباس نازل کیا ہے جو تمہارے
جسم کو ان حصوں کو چھپا سکے جن کا کھولنا بڑا ہے اور جو خوشنمائی کا ذریعہ
بھی ہے۔‘‘
ریشاَ اس لباس کو کہتے ہیں جو آدمی زینت و جمال کے لئے استعمال کرتا ہے،
غور کریں تو صرف ستر چھپانے کے لئے مختصر سا لباس کافی ہوتا ہے، مگر اللہ
تعالیٰ نے انسان کو اس سے زیادہ لباس اس لئے عطا کیاکہ اس کے ذریعے زینت و
جمال حاصل کرسکے اور اپنی ہییٔت کو شائستہ بنا سکے۔ لہٰذا ایک اچھے لباس کی
صفت یہ ہونی چاہیے کہ وہ یہ دونوں مقاصد کو پورا کرے۔ نہ تو ایسا ناقص ہوکہ
سترپوشی کا مقصد ہی پورا نہ ہو اور نہ ہی ایسا کم درجہ کا ہو کہ بجایٔے زیب
و زینت کے آدمی کی صورت بگاڑدے اور دیکھنے والوں کے دلوںمیں بے وقعتی پیدا
کرے۔
کپڑے پہننے کی مشہور ومسنون دُعا میں بھی انہیں دونوں مقاصد کا ذکر ہے تاکہ
ہر مسلمان لباس کے شکر ادا کرتے وقت ان مقاصد سے غافل نہ رہے۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ جب
کوئی شخص نیا لباس پہنے تو یہ دُعا پڑھے۔
الحمداللہ الذی کسانی مااواری بہ عورتی واتجمل بہ فی حیاتی (جامع
الترمذی،الدعوات، الرقم:۳۵۶۰)
’’تمام تعریفیں اس اللہ کے لئے ہیں جس نے مجھے لباس دیا جس کے ذریعے میں
اپنے ستر چھپائوں اور زینت حاصل کروں‘‘۔
یہ دُعا ہر مسلمان کو سمجھاتی ہے کہ نمائش و اسراف سے بچتے ہوئے آسائش و
آرائش کی نیت سے عمدہ لباس کا استعمال مقاصدِ لباس کے عین مواقع اور
مستحسن عمل ہے۔
خوش لباسی اورہمارے اسلاف
اسی لیے نبی کریم ﷺ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین،ایٔمہ مجتہدین اور
بزرگانِ دین اللہ تعالیٰ کی حلال کی ہوئی عمدہ پوشاک زیب تن کیا کرتے تھے۔
بہت سے اکابرِ حق جن کو اللہ تعالیٰ نے مالی وسعت عطا فرمائی تھی اکثر عمدہ
اور پیش قیمت لباس استعمال کرتے تھے۔
۱۔ ’’وقد روی انہ علیہ السلام خرج و علیہ رداء قیمتہ الف درھم‘‘
(روح المعانی:۴/ ۳۵۲، الاعراف:۳۲)
ترجمہ: ’’روایت کیاگیا ہے کہ ایک موقع پر آپ ﷺ باہر تشریف لائے اس حال میں
کہ آپ ﷺ نے ایسی چادر لی ہوئی تھی جس کی قیمت ہزار درہم تھی‘‘۔
۲۔ ’’وعن ابن سیرین: ان تمیماََ الداری اشتری رداء بالف وکان یصلی فیہ‘‘۔
(مجمع الزوائد، الطب، باب اظہار النعم: ۲/۲ ۳۱)
ترجمہ:’’حضرت تمیم الداری رضی اللہ عنہ نے ایک چادر ہزار درہم میں خریدی
تھی اور آپ اس میں نماز پڑھا کرتے تھے‘‘
۳۔ ’’عن نافع ان ابن عمر ربما لبس المطرف الخزثمنہ خمس مائہ درھم‘‘۔
(شعب الایمان، الباب فی المطاعم، فصل فیما کان متوسعاََ: رقم: ۵۹۴۳)
ترجمہ:’’حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کے شاگردِ خاص حضرت نافع رحمۃ اللہ علیہ
فرماتے ہیں کہ آپ کبھی کبھار پانچ سو درہم کی مالیت والی مخلوط ریشم کی
بنی ہوئی منقش چادر استعمال فرمایا کرتے تھے‘‘۔
۴۔ عن عثمان بن ابی سلمان ان ابن عباس رضی اللہ عنہ اشتری ثوباََ بالف درھم
فلبسہ‘‘۔
(حیاۃ الصحابۃ، باب انفاق الصحابۃ، ھدی النبی و اصحابہ فی اللباس: ۱/ ۸۹۲،
دارالکتاب العربی)
ترجمہ:’ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے ایک کپڑا ایک ہزار دراہم کا
خریدا اور اسے پہنا‘‘
۵۔ ’’وکان ابو حنیفتہ یرتدی بردائِ قیمتہ اربع مائۃ دینارِِ وکان یامر
اصحابہ بذلک وکان محمد یلبس الثیاب النفیسۃ‘‘
ترجمہ:’’حضرت امام ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ ۴۰۰ دینار کی مالیت کی چادر
پہنا کرتے تھے اور اپنے شاگردوں کو بھی عمدہ لباس کی نصیحت فرمایا کرتے تھے
(یہی وجہ ہے کہ آپ کے شاگردِ خاص) امام محمدرحمہ اللہ نفیس کپڑے زیب تن
فرماتے تھے‘‘۔
لباس میں عمدگی اللہ تعالیٰ کا عملی شکر ہے
دراصل جب کسی بندے پر اللہ تعالیٰ کا فضل ہوتو اس کو اس طرح رہنا چاہیے کہ
دیکھنے والوں کو بھی نظر آئے کہ اس پر اس کے رب کا فضل ہے۔ یہ شکر کے
تقاضوں میں سے ہے۔ اس لئے حضور نے مالک بن فضلہ رضی اللہ عنہ کو مال داری
کے باوجود گھٹیا قسم کے کپڑے پہنے ہوئے دیکھا تو فرمایا: کیا تمہارے پاس
کچھ مال ہے؟انہوں نے عرض کیا: جی ہاں! آپ ﷺ نے پھر پوچھا: کس نوع کا مال
ہے؟ عرض کیا: مجھے اللہ تعالیٰ نے اُونٹ، گائے، بیل، بھیڑ بکریاں، گھوڑے
اور غلام باندیاں (غرض ہر قسم کا مال) دے رکھا ہے۔ آپﷺ نے یہ سن کر
فرمایا:
’’فاذا اتاک اللہ مالاََ فلیراثر نعمۃ اللہ وکر امتہ‘‘
’’جب اللہ تعالیٰ نے تم کو مال سے نوازا ہے تو پھر اللہ کے انعام و احسان
کا اثر تمہارے اُوپر نظر آنا چاہیے‘‘(سن ابی داؤد،اللباس، باب فی غسل
الثواب: ۲/ ۷۔۲)
خوش لباسی مستحب ہے۔
ان ہی وجوہات کی بناپر فقہاء کرام بھی عمدگی لباس کو ایک درجہ مستحب قرار
دیتے ہیں۔
فتاوٰی شامی میں ہے:
و مستحب: وھو الزایٔد لاخذ الزینۃ و اظھار نعمۃ اللہ، قال علیہ السلام: ان
اللہ یحب ان یرٰی اثر نعمۃ علیٰ عبدہ۔ومباح:وھو الثواب الجمیل للتزین فی
الاعیاد و الجمع ومجامع الناس لا فی جمیع الاؤقات لانہ صلف
وخیلائ۔(شامی:۵؍۳۵۱)
فتاوٰی عالمگیری میں ہے:
سئل عن الزینۃ والتجمل فی الدنیا، قال: خرج علیہ السلام ذات یوم وعلیہ
رداء قیمتہ الف درہم و ربما قام الی الصلاۃ وعلیہ رداء قیمتہ اربعۃ آلاف
درہم
( ھندیۃ:۵؍۳۳۲)
علماء کرام کے لیے استغنیٰ کی صورت بھی مناسب ہے
عادت الٰہیہ یہ ہے کہ عوام کی دینی ترقی علمائے کرام سے مربوط و مستحکم
تعلق ہی میں مضمر ہے ،علمائے کرام کی صحبت و مجالست عوام الناس کے لئے
نہایت ضروری ہے۔ اس باہمی تعلق کی خوشگواری کے سلسلے میں علمائے کرام کی
ظاہری صورت کی درستگی، عمدگی اور استغنی کی صورت بہت معاون رہتی ہے۔
نبی کریم ﷺ فرمایا کرتے تھے!
انکم قادمون علی احوانکم فاصلحوا رحالکم و اصلحوا لباسکم حتٰی تکونوا کانکم
شامۃ فی الناس( سننِ ابی داؤد،اللباس،ما جاء فی اسبال الازار، الرقم:۴۰۸۹)
’’تم اپنے بھائیوں کے پاس جارہے ہو، تو اپنی سواری اور لباس درست کرو، تاکہ
تم لوگوں میںممتاز رہو‘‘
اسلام چاہتا ہے کہ علماء کرام اور دعوت کے میدان میں کام کرنے والے جب
معاشرہ میں جایٔیں تو لوگوں کے درمیان نمایاں ہوں۔لوگ ان کی طرف دیکھنا
چاہیں۔ ان میں دوسروں کے لیے جاذبیت اور کشش ہو تاکہ وہ لوگوں کے دلوں گھر
کرنے اور ان میں اپنی دعوت پہنچانے پر قادر ہوسکیں-
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اپنی اس خواہش کا اظہار کیا کرتے تھے کہ
’’میرا دل چاہتا ہے کہ قراء حضرات صاف ستھرے سفید کپڑے پہنا کریں‘‘(مؤطا،
الجامع، ماجاء فی لبس الثیاب الجمال،الرقم:۱۴۱۶)
مدینہ منورہ کے علمائ، صلحاء کی مستقل عادت امام مالک رحمہ اللہ یہ بیان
کرتے ہیں۔
ماادرکت فقھاء بلدنا الا وہم یلبسون الثیاب الحسان(شعب الایمان،التاسع
والثلاثون من شعب الایمان،وہو باب فی المطاعم۔۔۔،الرقم:۵۹۵۰)
’’ میں نے مدینہ منورہ کے جتنے فقہاء کو دیکھا وہ سب عمدہ لباس پہنا کرتے
تھیــ‘‘
ایک غلط فہمی
آج کل یہ آواز آرہی ہے کہ عصرِحاضر کے علماء کرام صحابہ و اسلاف کی
بودوباش کھوچکے ہیں۔ ان کے راستے سے ہٹ چکے ہیں ، بجائے پیوندزدہ لباس
پہننے کے مہنگے اور عمدہ کپڑوں میںنظر آتے ہیں۔
اس طرح کی آوازیں علمی طبقے کے لئے غیر مانوس نہیں۔ حضرت مفتی شفیع صاحب
رحمہ اللہ فرماتے تھے کہــــ’’ مولوی ’ملامتی فرقہ‘ ہے، یعنی ساری دنیا کی
ملامت ہر حال میں اس پر عایٔد ہوتی ہے۔مثلاََ:اگر مولوی بیچارہ مفلس و غریب
ہو تو اس کے اوپر یہ ملامت ہے کہ یہ دنیا سے کٹا ہوا ہے اور اس کو اس بات
کی فکر نہیںکہ کہاں سے کھایٔے گا، اور اپنے بیوی بچوں کو کہاں سے کھلایٔے
گا، اور اگر مولوی کے پاس زیادہ پیسے آگیٔے تو پھر کہتے ہیں کہ یہ
مولاناتو بڑے مالدار اور ریٔیس ہیں۔
اگر مولوی دین کی بات سکھاتا ہے،قرآن شریف پڑھاتا ہے تو اس پر یہ اعتراض
ہوتا ہے کہ ساری دنیا سے کٹ گیا ہے اور اگر کسی مولوی نے دنیوی علوم بھی
حاصل کرلیے تو کہا جاتا ہے کہ ان کو چاہیٔے تھا کہ بیٹھ کر اللہ اللہ کرتے
لیکن یہ تو دنیا کے چکروں میں پھنسے ہویٔے ہیں‘‘(انعام الباری، کتاب
الایمان:۱؍۳۶۲)
بہر حال یہ آواز طعنہ ہو یا خیر خواہی، لیکن دینی تعلیمات سے ناواقفیت کا
نتیجہ ہے۔ حضرت مفتی شفیع صاحب رحمتہ اللہ علیہ (قل من حرم زینتہ اللہ )کی
تفسیر میں لکھتے ہیں:
’’وہ لوگ قابلِ عتاب و عذاب ہیں جو اللہ تعالیٰ کی حلال کی ہویٔی عمدہ
پوشاک یا پاکیزہ اور لذیذ خوراک کو حرام سمجھیں، وسعت ہوتے ہویٔے پھٹے
حالوںگندہ پرا گندہ رہنا نہ کویٔی اسلام کی تعلیم ہے، نہ کویٔی اسلام میں
پسندیدہ چیز ہے، جیسا کہ بہت سے جاہل خیال کرتے ہیں۔ سلفِ صالحین اور ایٔمہ
اسلام میں بہت سے اکابر جن کو اللہ تعالیٰ نے مالی وسعت عطا فرمایٔ تھی
اکثر عمدہ اور بیش قیمت لباس استعمال فرماتے تھے، خواجہ دو عالم آنحضرت ﷺ
نے بھی جب وسعت ہویٔ عمدہ سے عمدہ لباس بھی زیب تن فرمایا۔
اور رسول ﷺ اور سلفِ صالحین میں حضرت فاروقِ اعظم اور بعض دوسرے صحابہ رضی
اللہ عنہم سے جوعام حالات میں معمولی قسم کا لباس یا پیوند زدہ کپڑے
استعمال کرنا منقول ہے اس کی دو وجہ تھیں، ایک تو یہ کہ اکثر جو کچھ مال
آتا وہ فقراء مساکین اور دینی کاموںمیں خرچ کرڈالتے تھے، اپنے لئے باقی ہی
نہیں رہتا تھا، جس سے عمدہ لباس آسکے، دوسرے یہ کہ آپ مقتدائے خلائق تھے،
اس سادہ اور سستی پوشاک کے رکھنے سے دوسرے امراء کو اس کی تلقین کرنا تھا،
تاکہ عام غرباء فقراء پر ان کی مالی حیثیت کا رعب نہ پڑے۔
اس طرح صوفیائے کرام جو مبتدیوں کو لباسِ زینت اور عمدہ لذیذ کھانوں سے
روکتے ہیں، اس کا منشاء بھی یہ نہیں کہ ان چیزوں کو دائمی طور پر ترک کرنا
کوئی کارِ ثواب ہے، بلکہ نفس کی خواہشات پر قابو پانے کیلئے ابتدائِ سلوک
میں ایسے مجاہدے بطور علاج و دوا کے کردیئے جاتے ہیں، اور جب وہ اس درجہ پر
پہنچ جائے کہ خواہشاتِ نفسانی پر قابو پالے کہ اس کا نفس اس کو حرام
وناجائز کی طرف نہ کھینچ سکے تو اس وقت تمام صوفیائے کرام عام سلفِ صالحین
کی طرح عمدہ لباس اور لذیذ کھانوں کو استعمال کرتے ہیں، اور اس وقت یہ
طیباتِ رزق(پاکیزہ رزق) ان کے لئے معرفتِِ خداوندی اور درجاتِ قرب میںرکاوٹ
کے بجائے اضافہ اور تقرّب کا ذریعہ بنتے ہیں۔‘‘(معارف القرآن:۳؍۵۴۹،
اعراف:۷)
زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ ان حضرات کا یہ عمل عزیمت پرمبنی تھا
کہ باوجود قدرت و استطاعت کے دنیاوی زیب و زینت کو اختیار نہیں کیا، لیکن
ان کے عمل سے یہ دلیل اخذ کرنا درست نہیں کہ آج کسی عالم و مذہبی رہنماکے
لئے اچھے لباس کا استعمال جائز نہیں۔
نبی کریم ﷺ کی سیرت پر افراط و تفریط کے درمیان اعتدال کی راہ ہے۔ آپ ﷺ نے
جہاں پیوند لگے کپڑے اور معمولی سوتی قسم کے لباس پہنے وہاں آپ دوسرے
ملکوں کے بنے ہوئے ایسے بڑھیا کپڑے بھی پہن لیتے تھے جن پر ریشمی حاشیہ یا
نقش ونگار بنے ہوتے تھے۔ اس طرح بہت خوش نما چادریں بھی زیب تن فرماتے تھے
جو اس زمانے کے خوش پوشوں کا لباس تھا۔ آپ ﷺنے اُمت کو اپنے طرزِ عمل سے
یہی تربیت دی کہ کھانے پینی کے طرح لباس کے بارے میں بھی وسعت ہے اور ریا ء
ونمود اور فخر و غرور سے بچنے ہویٔے عمدہ لباس بھی پہنایا جاسکتا ہے، جو
علماء خطباء کے لئے موجودہ دور میں ایک درجہ بہتر ہے۔ |