روزانہ سیاست اور سیاسی بازی گری کے قصے
اور کہانیاں تو میں بھی اور میرے دوسرے بھائی بھی لکھتے رہتے ہیں جسے پڑھ
پڑھ کر آپ بھی بوریت کا شکار ہو گئے ہونگے اس لئے آج میں نے سوچا کہ کوئی
اچھوتا موضوع تلاش کروں جس کے ذریعے پڑھنے والوں کو بھی مزہ آئے اور
مہنگائی کے بارے میں بھی انہیں گو کہ معلوم ہے مگر پھر بھی اس سے آپ
آشکارہو جائیں۔ تو لیجئے حاضرِ خدمت ہے ’’ یہ ہے وہ آلو ‘‘
آلو ! بلاشبہ غریبوں کی سبزی ہے۔ جسے ہر غریب با آسانی خرید کر اس کے
مزیدار پکوان تیار کرکے اپنے بچوں کا پیٹ با آسانی بھر سکتا ہے۔ مگر پچھلے
چند مہینوں سے پتہ نہیں کیا ہوا کہ مہنگائی کا سارا بوجھ اس’’ آلو‘‘ پر ڈال
دیا گیا ہے۔ چند روز پہلے تک آلو ساٹھ روپئے کلو تک فروخت ہو رہا تھا۔ یعنی
کے غریبوں کا شہنشاہ ’’آلو ‘‘اب غریبوں کی پہنچ سے بھی کوسوں دور ہوتا جا
رہا ہے مگر حکومت ابھی تک آلو کے ریٹ کو اس کے اصل سطح پر لانے میں ناکام
رہی ہے۔ غریب لوگ آلو سے مختلف انواع و اقسام کی ڈش تیار کرتے ہیں جیسے کہ
آلو کی بھجیا، آلو گوشت، دَم آلو، آلو کے پراٹھے، گوبھی آلو، آلو کے کباب،
یوں غریب اپنے بچوں کو آلو کھلا کر بمشکل جوان کرنے کی جستجو میں محو ہوتا
ہے، مگر آج بازار سے گزرو تو ہر بندہ یہی کہتا ہوا پایا جاتا ہے کہ ایک آلو
ہی تو تھا جسے ہم آسانی سے خرید سکتے تھے ہمیں اس کی پہنچ سے بھی دور کیا
جا رہا ہے۔ آخر حکومت چاہتی کیا ہے، کیوں مہنگائی پر قابو نہیں پایا جا رہا
ہے۔ گوشت تو غریبوں کی پہنچ میں ہے ہی نہیں ، سبزی میں آلو رہ گیا تھا مگر
وہ بھی اب غریبوں سے چھینا جا رہا ہے۔ مہنگائی اپنے عروج پر ہے اور اس کے
نرخ کونچلی سطح پر لانے کے لئے کسی قسم کا تگ و دُو کرنے کے بجائے ریٹوں کے
معاملے میں افسران نمک پاشی ہی کرتے پائے جاتے ہیں ، اگر ایسا نہیں تو سارا
معاملہ پچھلی حکومت پر ڈال کر سرخرو ہوجانا پرانی روایت ہے۔ جو بھی حکومت
آتی ہے وہ سارے کا سارا ملبہ پچھلی حکومتوں پر ڈال کر سرخرو ہونے کی کوشش
کرتی ہے، حالانکہ یہ مناسب طریقہ نہیں ہے ۔ مناسب تویہ ہوتا کہ بجائے الزام
تراشی کرنے کے اپنے اندر حوصلہ اور ہمت پیدا کیا جاتا اور مہنگائی کا رونا
ختم کرنے کے لئے عملی اقدامات اُٹھایا جاتا، تاکہ سرکاری ریٹوں کے حساب سے
غریبوں کو اشیائے ضروریہ فراہم ہو سکتا۔کاش وہ دن جلد آئے جب اس ملک سے
مہنگائی، غریبی اور غربت دور ہو جائے۔
سندھی زبان میں پٹاٹا، گجراتی اور اردو میں آلو اور انگریزی میں پٹاٹو کہا
جاتا ہے۔ اس کی رنگت قدرے سرخ اور بھورا بھی ہوتا ہے۔ذائقہ پھیکا، مزاج سرد
اور خشک پہلے درجے میں ایک مشہور عام سبزی ترکاری ہے جس کے پتے اوپر اور
پھل زمین میں ہوتا ہے۔ مقدار خوراک بیس تولہ، مصلح، گرم مصالہحہ، افعال و
استعمال، قابض نفاخ اور دیر ہضم ہے۔ عضو سوختہ پر لگانے سے فوراً تسکین بھی
مل سکتا ہے اور آبلہ نہیں پڑتا۔ آلو ! ایک مشہور عام سبزی ہے جو زمین کے
اندر پیدا ہونے والی سبزیوں میں سے ایک ہے یہ ہر ملک اور ہر خطے میں کھایا
جاتا ہے اور اسے مختلف طریقوں سے پکا کر یا اُبال کر استعمال کیا جاتا ہے۔
غرض کہ آلو ہر مقام پر موجود رہا کرتا ہے۔ اس کی کئی اقسام ہیں مگر ان سب
میں سے سرخ گولا، بہترین آلو کی قسم ہے۔ آلو ہمیشہ تازہ اور اچھے اور فائدہ
بخش ہوتے ہیں۔ انہیں اسٹور میں رکھا جاسکتا ہے۔ مگر اسٹور کئے ہوئے آلو کچھ
دنوں بعد کم مزیدار ہو جاتے ہیں۔ آلو میں نمکیات، روغنی اجزاء، پروٹین اور
وٹامن ایچ، سی، ای، بی ، ـڈی کی وافر مقدار موجود ہوتی ہے۔ سبزیوں میں
مختلف وٹامنز سب سے زیادہ آلو میں پائی جاتی ہیں۔آلو ایک ایسی سبزی ہے جسے
بچوں سے لے کر بڑوں تک سب ہی شوق سے کھاتے ہیں یہی وجہ ہے کہ آلو کو مکمل
غذا بھی کہا جاتا ہے ۔ ہمارے ملک میں آلو سب سے زیادہ کاشت کی جانے والی
سبزی ہے جو بڑھتی ہوئی آبادی کی خوراک کو پورا کرتی ہے۔ یہ ساحلِ سمندر سے
لے کر پہاڑوں کی بلند چوٹیوں تک کاشت کی جاتی ہے۔ میدانی علاقوں میں اس کی
دو فصلیں یعنی موسمِ بہار اور موسمِ خزاں اور پہاڑی علاقوں میں صرف اس کی
یعنی موسمِ گرما کی فصل کاشت کی جاتی ہے۔ آلو کی بہترین کاشت کے لئے زر خیز
زمین اور پانی کا نکاس ضروری ہوتا ہے، اس کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ فصل کو
لگاتے وقت یعنی بیج بوتے وقت کھیت میں پانی کھڑا نہ رہے اور پک جانے پر یہ
منڈیوں تک پہنچتی ہے جہاں مہنگے داموں فروخت کرکے لاکھوں روپئے کمائے جاتے
ہیں ۔ چونکہ ہمارے ملک میں آلو کی کاشت سب سے زیادہ ہے ، اس کا مطلب یہ ہوا
کہ اس کے ریٹ بہت کم ہونی چاہیئے مگر آج تو اس کمبخت ’’ آلو ‘‘ پر اُفتاد
ٹوٹ پڑا ہے ۔ اس کے ریٹ کہاں سے کہاں پہنچا دیئے گئے ہیں۔ اس کا ذمہ دار
کون سا افسر ہے اور کس ادارے کا ہے اس کی کھوج ضروری ہے ، اور اناج منڈی
میں اس کی ذخیرہ اندوزی کون کون ٹھیکدار کر رہا ہے اس کے خلاف بھی کاروائی
ہونی ضروری ہے تاکہ آلو کے نرخ مناسب ہو جائے تاکہ یہ غریبوں کی پہنچ تک
آجائے۔
اُف یہ مہنگائی صرف ’’ آلو پر ہی نہیں آئی جناب! ایک سروے رپورٹ نے کہا ہے
کہ کہ ایک ہفتے کے دوران شرحِ مہنگائی ملک میں نو اشاریہ چونتیس فیصد ہوگئی
ہے۔ اور یہ مہنگائی کی شرح عوام کی چیخیں نکال دینے کے لئے کافی ہے۔
پاکستان میں جو مہنگائی کا سیلاب چلا آرہا ہے یا چل رہا ہے اُس کی وجہ سے
تمام حکومتی کارکردگی پر جھاڑو پِھر جاتا ہے۔ گیارہ مئی کو موجودہ حکومت کے
ایک سال مکمل ہو گئے ۔ عوام نے جس محبت اور اُمید کے ساتھ نئی حکومت کو
منتخب کیا تھا تو حکومت کا بھی یہ فرض بنتا تھا کہ سب سے مہنگائی، بے روز
گاری اور قتل و غارت گری پر عملی اقدامات کرے مگر کہاں جناب وہی پرانا نسخہ
جو صدیوں سے چلا آ رہا ہے اُسی ڈگر پر اب بھی چال چلی جا رہی ہے اور
مہنگائی روز انہ کی بنیاد بن چکی ہے۔ جس دن مہنگائی میں اضافہ نہ ہو اس دن
حکمرانوں کا کھانا ہضم نہیں ہوتا شاید!اور غلط بیانی کا تو یہ عالم ہے کہ
بس خدا کی پناہ! آج ہی صبح ٹی وی دیکھ رہا تھا توایک چینل پر یہ سلائیڈ چل
رہا تھا وزیر بجلی و پانی کی طرف سے آج مورخہ ۱۳؍مئی ۲۰۱۴ء کو بجلی کی
پیداوار اور خرچ دونوں برابر ہیں اور ملک کے کسی حصے میں آج لوڈ شیدنگ نہیں
ہو رہی ہے۔ خدا کی پناہ شہرِ قائد میں تو معمول کے مطابق بھی اور غیر
اعلانیہ لوڈ شیڈنگ کا سلسلہ بھی جاری و ساری ہے۔ لوگ کب تک نہیں سوچیں گے
کہ یہ کون سا کھیل ان کے ساتھ کھیلا جا رہا ہے۔ حکمران کہتے ہیں کہ آج لوڈ
شیڈنگ کہیں نہیں ہے جبکہ لوڈ شیڈنگ ہو بھی رہی ہے۔
قوم روزانہ خواب دیکھ رہے ہیں کہ ہمارے ملک میں مہنگائی ختم اور سستائی کی
نہر بہہ رہی ہے جس سے یہ قوم فیضیاب بھی ہو رہے ہیں مگر جب آنکھ کھلتی ہے
تو بیچارے غریب عوام وہیں کے وہیں کھڑے خود کو ملتے ہیں کہ آلو ساٹھ روپئے
کلو خریدو۔ بہرحال عوام کو چاہیئے کہ وہ خواب دیکھتے رہیں کیونکہ خواب ہی
ایک ایسی شئے ہے جس پر حکومت اور حکمرانوں کا بس نہیں چلتا وگرنہ اس پر بھی
کوئی ٹیکس لگا دیا جاتاکہ جس سے حکومت کا خزانہ بھرتا ہے۔ آپ خواب دیکھئے
اور اُمیدِقوی رکھیئے ایک نہ ایک دن ضرور آئے گا کہ جب ملک و ملت اور قوم
سے محبت کرنے والے رہبران آئیں گے اور وہ آپ کے خوابوں کی تعبیر آپ تک
پہنچائیں گے۔ مشہور مقولہ ہے کہ ’’ اﷲ کے گھر دیر ہے اندھیر نہیں‘‘ تو بس
ویٹ اینڈ واچ۔ |