خاندان کسی بھی قوم کی تعمیر میں
خشتِ اول کی حیثیت رکھتا ہے۔خاندان وہ گہوارہ ہے جہاں آنے والے کل کے معمار
اور پاسبان پرورش پاتے ہیں۔خاندان یا گھر وہ تربیت گاہ ہے جہاں اخلاق
وکردار کی قدریں افراد کے دِل ودِماغ پر نقش ہوتی ہیں اوریہ نقوش دیر تک
مدہم نہیں پڑتے۔یہی وجہ ہے اسلام سمیت تمام مذاہب میں گھرا ور خاندان کو
بہت اہمیت دی گئی ہے۔اسلام میں گھر اور خاندان کے ماحول کو خوش گوار بنانے
کے لئے مبہم نصیحتوں پر اکتفا نہیں کیا گیا بلکہ اس کے واضح اور غیر واضح
قواعد و ضوابط کا بھی احاطہ کیا گیا ہے۔
ہر سال15مئی کو پوری دنیا میں عالمی یومِ خاندان کی حیثیت سے منایا جاتا ہے
۔اس دِن کومنانے کا مقصد خاندان کی اہمیت کو معاشرے کی بنیادی اکائی کے طور
پراُجاگر کرنا ہے ۔اس موقعے پر مختلف اداروں میں آگہی سیمینارز،واکس وغیرہ
کا انعقاد کیا جاتا ہے ۔انسانی فلاح وبہبود کے لیے کوشاں سرکاری و غیر
سرکاری تنظیمیں اس دن بروشرز ،پمفلٹس اور دیگر ذرائع سے لوگوں میں خاندان
کی اہمیت کا شعور بیدار کرنے کی خصوصی مہمیں چلاتی ہیں۔اس دِن کے حوالے سے
ریڈیو اور ٹی وی پروگرامز اور اخباری مضامین کو بھی بروے کار لایا جاتا ہے۔
یہ دِن سوسائٹی کی ترقی میں فیملیز یا خاندانوں کے کردار پر روشنی ڈالنے کا
ایک بہترین موقع فراہم کرتا ہے ۔اس کے علاوہ خاندانوں کی فلاح و بہبود اور
خاندانی نظام کو درپیش چیلینجز اور اُن کے حل سے متعلق تجاویز بھی زیرِ بحث
آتی ہیں ۔
اس دن کا آغاز 1994میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی ایک قرار داد کے
ذریعے ہوا۔قرار داد کے مطابق یہ دِن خاندانوں کے معاملات اور خاندانوں پر
اثر انداز ہونے والے سماجی ،معاشی اورآبادیاتی عناصر سے متعلق آگاہی کا ایک
اچھا موقع ہے ۔اس قراد داد کا محرک وہ سب عوامل تھے جنہوں نے دنیا کے مختلف
خطّوں میں خاندانی اکائیوں کے ڈھانچے اور استحکام پر بُرے اثرات ڈالے ۔عالمی
یوم خاندان کی علامت ایک سبز رنگ کا دائرہ ہے جس میں سُرخ رنگ کی ایک تصویر
دکھائی گئی ہے ۔یہ تصویر دِل اور ایک گھر کی سادہ سی ڈرائنگ پر مشتمل ہے ۔جو
اس بات کی جانب اشارہ ہے کہ فیملییز یا خاندان معاشرے میں مرکزی حیثیت کے
حامل ہیں اور یہ ہر عمر کے افراد کو ایک مستحکم اور معاون گھر فراہم کرتے
ہیں۔
دنیا بھر میں بالعموم جبکہ یورپ و امریکا میں خاص طور پرخاندانی نظام کو بے
شمار چیلنجز درپیش ہیں۔صنعتی ترقی کی دوڑ میں آگے نکلنے کی خواہش نے
انسانوں کو مشینیں بنا دیا ہے ۔خاندان کے دونوں اہم ستون خاوند اور بیوی
اپنی معاشی ضروریات پوری کرنے میں اس قدر منہمک ہیں کہ ان کے پاس اولا د کی
مناسب دیکھ بھال کا وقت بہت کم بچ پاتاہے ۔ان کے بچے چائلڈ کیئر سنٹرز میں
تمام سہولیات کے باوجود ماں باپ کی خالص توجہ کی کمی کا شکار رہتے
ہیں۔اعداد وشمار بتاتے ہیں کہ آج امریکا میں ہر تین میں سے ایک بچہ ایک
ایسے گھر میں رہ رہا ہے جہاں باپ نہیں ہے ۔بغیر باپ کے اکیلی ماؤں کی زندگی
بہت کسمپرسی میں بسر ہو رہی ہے۔42 فی صد تنہا مائیں’’فوڈ اسٹمپس‘‘ پر زندگی
بسر کر رہی ہیں۔ان کا گزارہ امریکا میں’’سپلیمنٹ نیوٹریشن اسٹمپس پروگرام‘‘
پر چل رہا ہے جس کے تحت مرکزی حکومت ایسے گھرانوں کی معمولی سی امداد کرتی
ہے۔ ۔اعداد وشمار کے مطابق آج امریکا کے پبلک اسکولوں میں زیرِتعلیم دس
لاکھ بچوں کے پاس رہنے کے لیے گھر نہیں۔یہ انسانی تاریخ کا انوکھا واقعہ ہے
۔
یہ بھی حیران کن ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں جنسی زیادتی کے باعث مرنے والے
بچوں کی سب سے بڑی تعداد امریکا میں پائی جاتی ہے۔ہر سال امریکا میں 30لاکھ
سے زائد بچوں کے ساتھ زیادتی کی جاتی ہے۔یرپورٹ کے مطابق امریکا میں بالغ
ہونے والی ہر چار میں سے ایک لڑکی جنسی زیادتی کا شکار ہو چکی ہوتی ہے۔جنسی
زیادتی کا شکار ہونے والے امریکی بچوں میں سے 20 فی صد بچے وہ ہوتے ہیں جن
کی عمر آٹھ برس سے بھی کم ہوتی ہے۔’’پیور ریسرچ سینٹر‘‘ کی ایک رپورٹ کے
مطابق امریکا میں تمام بالغوں کا محض 51 فی صد شادی شدہ ہیں۔1960 میں یہ
تعداد 52 فی صد تھی۔آج ہزار میں سے صرف 6.8 فی صد ہی شادی کے بندھن میں
بندھ کر خاندان کی ابتداء کرنا چاہتے ہیں۔یہ سب واقعات وہاں خاندانی نظام
کی تار پود بکھر جانے کا مظہر ہیں۔
اِدھرمشرقی ممالک میں بھی دِن بدن خاندانی نظام کی چولیں ڈھیلی پڑ رہی ہیں۔
خواتین میں خلع لینے کے رجحان میں بہت اضافہ ہو رہا ہے۔فیملی عدالتوں سے
ماہانہ سینکڑوں خلع کی ڈگریاں جاری کی جارہی ہیں۔خلع لینے کی وجوہات میں
جبراًشادی،جلدبازی میں کی گئی کورٹ میرج اور معاشرے کی دیگرفرسودہ روایات
بھی شامل ہیں۔مشرق میں خاندانی نظام کے دن بدن کمزور پڑنے کی ایک وجہ
مردانہ تسلط پر مبنی معاشرہ بھی قرار دیا جاتا ہے۔علاوہ ازیں خاندانی نظام
کا شیرازہ بکھیرنے میں بہت مرتبہ عورتوں کا غیر ذمہ دارانہ رویہ بھی ہوتا
ہے ۔
پاکستان میں گو کہ خاندانی نظام ابھی کافی بہتر شکل میں موجود ہے ۔خاص طور
پر دیہی علاقوں میں خاندان کے افراد کے درمیان یگانگت اور ہم آہنگی بہت حد
تک حوصلہ افزا ہے۔جبکہ شہری خاص طور پر صنعتی علاقوں میں آہستہ آہستہ
خاندانی نظام کاشیرازہ بکھرتا جا رہا ہے۔اولاد شادیوں کے بعد الگ رہنے کو
ترجیح دے رہی ہے۔دوسری طرف معاشی تگ ودو میں خاندان کے اَفراد کے مابین مل
بیٹھنے کی روایت دم توڑتی نظر آرہی ہے ۔بعض حلقوں سے پاکستان میں یورپین
طرز پر اولڈ ہاؤسز کے قیام کی بھی بات کی جا رہی ہے۔
اِن حالات میں ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومتی سطح پر خاندانی نظام کی بقاء
کے لیے موثر مہمیں چلائی جائیں۔ایسی پالیسیاں ترتیب دی جائیں جن کے تحت
خاندان کو ایک سرگرم ادارہ بنایا جا سکے ۔جو معاشرے کی ترقی ،اعلی اقدار کے
فروغ،اورباہمی تعاون کے رجحانات کے احیاء کی بنیاد بن سکیں۔حکومت کے علاوہ
غیر سرکاری فلاحی تنظیموں کو بھی اس جانب توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔تعلیمی
اداروں میں خاندان کی اہمیت اور سوسائٹی میں اس کے مثبت کردار کے حوالے سے
طلبہ کی ذہن سازی بھی وقت کی اہم ضرورت ہے۔نصابِ تعلیم میں ایسے معاشرتی
مضامین کی ضرورت ہے جو ہمارے معاشرے میں خاندانی نظام کی اہمیت کو اُجاگر
کرسکیں۔سوسائٹی کے بااثر افراد مثلاًمقامی پنچائتوں کے ممبران،مقامی سیاسی
راہ نماؤں، مساجد اور دیگر عبادت گاہوں کے واعظ حضرات کی خدمات سے استفادہ
بھی کیا جانا چاہیے۔ ٹی وی چینلز اور ریڈیو کے ذریعے خصوصی پروگرام نشر کیے
جانے کی ضرورت ہے جن میں معاشرے کی ترقی میں خاندانوں کے بہتر کردار اور
سرگرم شرکت پر بات کی جائے ۔ |