کڑوا سچ

آج سے تقریباً پینتیس چھتیس سال قبل جب پیپلز پارٹی کا دور ختم ہوا اور جنرل ضیا نے مارشل لا نافِذ کرنے کے بعد مُلک کی باَگ دوڑ سنبھالی تو اِخبارات کے ذریعے مختلف شہروں اور دیہاتوں میں یہ خبریں ہر خاص و عام تک پہنچنا شروع ہو گئیں کہ مڈل ایسٹ ممالک میں کنسٹرشن ہو رہی ہے اور اُنہیں لیبرز سے اِ نجئینرز تک کی ضُرورت ہے باہر جانے کے خواہش مند حَضرات فَلاں فلاں ایجنسی سے رابطہ کریں اُس زمانے میں بہت کم لوگوں کو باہِر جا کر کام کرنے یا پیسا کمانے کا شوق یا جُنون تھا حتیٰ کہ باہِر اور خاص طور پر دوبئی یا سعودیہ کے بارے میں کافی حد تک لوگ جان چکے تھے کہ ایجنسیاں دو یا تین سال کے کنٹریکٹ پر مڈل ایسٹ کے کِسی ملک بھجوا دیتی ہیں لیکن پھر بھی لوگ پاکستان میں ہی رہنے کو ترجیح دیتے زیادہ عرصہ نہیں گُزرا کہ ایک لِہر سی آئی اور سب کے سَر پر باہر جانے کا بُھوت سوار ہو گیا اُن دنوں پاکستانیوں کا خواب دوبئی ہوا کرتا کِسی کے ذہن میں یورپ جانے کا خیال نہیں آیا شاید اس لئے کہ یورپ بہت دور ہے وہاں انگریزی بولی جاتی ہے یا کوئی بھی وجہ ہو عام طور پر مڈل ایسٹ کا چرچا تھا ، لیکن کچھ عرصہ بعد جب ذوالفقار علی بُھٹو کو پھانسی دینے کی خبریں عام ہوئیں تو ملک کے حالات مَزید خراب ہونا شُروع ہو گئے آئے دن جُلوس نکالے جاتے اور پولیس جگہ جگہ چھاپے مارتی ہر آنے جانے والے بے گُناہ کو ناکردہ جُرم میں مُلوث کیا جاتا اور تھانوں حوالاتوں میں بند کر دیا جاتا ، اُ نہیں دنوں اُڑتی اُڑتی یہ خبریں بھی آنا شروع ہو گئیں کہ یورپ میں سیاسی پناہ مل رہی ہے بات سے بات نکلتی کوئی کہتا فرانس سیاسی پناہ دے رہا ہے اور کوئی کہتا جرمنی اور تب لوگوں نے اپنے دور پار کے رشتہ داروں جان پہچان والوں سے بات کی کئی لوگوں کے قریبی دوست یا مُحلے والوں کی توسط سے رابطے ہوئے ، یورپ میں رہنے والوں نے انہیں گائڈ کیا اور رفتہ رفتہ یہ ٹرینڈ آیا کہ یورپ جائیں گے۔ یونان ، اٹلی ، سپین ، فرانس ، بیلجئم غرض یہ کہ جس ملک کا بھی ویزہ ملا وہ وہاں چلا گیا کچھ لوگ کم تعلیم یافتہ ہونے پر ٹولیوں کی صُورت میں اور کُچھ اپنے بَل بُوتے پر سَفری معلومات حاصل کرنے کے بعد یورپ کی طرف نِکل پڑے ، ان لوگوں میں چند کا تعلق پیپلز پارٹی سے تھا اور باقی ایک عام شہری کی حیثیت سےصِرف پیسا کمانے کی غرض سے نکلے کیوں کہ جب اُن لوگوں کو مُختلف ذرائع سے یہ عِلم ہوا کہ سیاسی پناہ والوں کے کیس عدالتوں میں دو تین سال تک پھنسے رہتے ہیں تو سوچا کہ سال دوسا ل کے ایگریمنٹ پر مڈل ایسٹ میں مزدوری کرنے سے بہتر ہے یورپ کا رُخ کیا جائے اُس زمانے میں کوئی نہیں جانتا تھا کہ قانون کیا ہوتا ہے ، کہاں ہوتا ہے اور کیسا ہوتا ہے ایک دُھن سوار ہو گئی کہ یورپ جانا ہے ، چند رُوپوں میں خود ایمبیسی جاکر ویزے حاصل کئے اور پاکستان کو خیر باد کہا ۔ ہر فَرد کا نہ تو کوئی جاننے والا تھا اور نہ ہی کِسی کو یہ عِلم کہ کون سا ملک سیاسی پناہ دیتا ہے لیکن ایک اُمید اور رِسک ساتھ لئے یورپ کے مُختلف مُمالک میں پہنچے اور کسی نہ کسی ذریعے سے اپنے اپنے راستے بنائے اور سیاسی پناہ لینے کے بعد کام دَھندے میں مصروف ہو گئے ۔
اُ س زَمانے میں سب پاکستانی صحیح معنوں میں پاکستانی تھے ، ذات برادری یا فِرقہ میں اتنی ترقی نہیں ہوئی تھی جِتنی کہ آج ہے لیکن زیادہ تَر لوگوں کی خواہش یہ ہی ہوتی کہ اُس کے گاؤں یا شہر کا آدمی ہی اس کے قریب ہو دوسرے اِلفاظ میں ڈاک خانہ مل جائے تو اچھی بات ہے ۔ مڈل ایسٹ جانے والوں کی اکثریت کا خیال تھا کہ مُسلِم ممالک میں دو تین سال کے کنٹریکٹ پر کا م کریں گے اِتنا کما لیں گے کہ واپس جا کر کوئی چھوٹی موٹی دوکان کے ساتھ دو چار کَمروں کا گھر بھی بن جائے گا اور باقی ماندہ زندگی اپنے مُلک میں آرام سے گُزر جائے گی ، اور شاید ہوا بھی ایسے کہ جو لوگ مُسلم ممالک میں دو چار سال لگا کر کر واپس چلے گئے اُنہیں اُن کی منزِل مل گئی اور ان کا خواب پورا ہو گیا لیکن جو لوگ یورپ آئے وہ مُصیبتوں اور مسائل کے پہاڑ تلے دَب گئے کیوں کہ بھلے سب پاکستانیوں نے مِل جُل کر ایک دوسرے کی مدد کی لیکن اِ ن سب کا بڑا مسئلہ یہاں کی مُستقل رہائش تھا ، سب نے پیپلز پارٹی کے سیاسی کیس کروائے اُن دنوں میڈیا اِتنا فاسٹ نہیں تھا یورپی ممالک کو پاکستان میں واقع اپنی قونصلیٹ یا ایمبیسی سے رابطے کے لئے ٹیلی فون یا خُطوط کا سہارا لینا پڑتا اور اِس کے لئے کافی وقت درکار ہوتا اِسی بنا پر سیاسی کیس کو منظُور کرنے یا ری جیکٹ کرنے میں سال دو سال لگ جاتے اِ س دوران تمام لوگ کام کرتے رہے اور مارکوں ، فرانکوں اور لیروں میں پیسے کماکما کر پاکستان بھیجتے رہے جب کیس ری جیکٹ ہوئے تو انہیں ملک چھوڑنا پڑا ، جن لوگوں نے اِتنا کما لیا کہ اُنہیں پاکستان واپس جا کر کچھ کرنے کی ضرورت پیش نہ آئے وہ تو خاموشی سے چلے گئے لیکن کئی لوگوں نے ملک چھوڑنے کے بعد ہمسایہ ملک میں جا کر نیا کیس کروایا اور یوں انہیں پھر سال دو سال کا چانس مل گیا ان میں سے کچھ لوگ فیملی مسائل کی وجہ سے پاکستان چلے گئے ، باقی یہاں اصلی اور جعلی شادیاں کر کے مستقل رہائش پذیر ہو گئے ، ان میں سے کئی لوگ پہلے سے ہی پاکستان میں شادی شدہ تھے اور بال بچہ دار بھی ، کئی لوگوں کی سیاسی پناہ منظور ہوئی اور اُنہیں بغیر شادی کے ہی مُستقل ویزہ جاری کر دیا گیا لیکن ساتھ ہی پاکستان جانے پر بھی پابندی عائد کی گئی ۔کیونکہ بقول انہیں لوگوں کے ہم سیاسی لوگ ہیں پاکستان میں جمہوریت نہیں آمریت ہے اور ہم وہاں وان ٹیڈ ہیں اس لئے وہاں نہیں جا سکتے لیکن اس پابندی کے باوجود یہ لوگ دوسرے ممالک سے پاکستان آتے جاتے رہے جو لوگ ہمیشہ کے لئے پاکستان سدھار گئے وہ اس کہانی سے آؤٹ ہو گئے لیکن جو یہاں مستقل رہے انہیں بے شمار تکالیف کا سامنا کرنا پڑا ، جو پاکستان میں شادی شدہ تھا اور ویزے کے لئے یہاں بھی شادی کی بچہ پیدا ہوا تو اس کےلئے مسئلہ بنا جس نے پہلی بار کسی گوری یا کالی سے شادی کی بچہ پیدا ہونے پر اس کے لئے بھی مسئلہ بنا لڑکا پیدا ہوا تو سب خوش لڑکی پیدا ہوئی تو سب نے کوئی نہ کوئی بہانا بنایا عورت کو طلاق دی اور کسی دوسرے ملک چلے گئے پلٹ کر دیکھنا تک گوارہ نہ کیا کہ جس کی بدولت وہ آج یورپ میں ہیں اس کا حال ہی دریافت کر لیں؟

سچائی سے کوئی کب تک منہ چھپاسکتا ہے وہ لوگ انہیں چھوڑ تو گئے لیکن یہ بھول گئے کہ جب تک اس لڑکی کی ماں زندہ رہے گی اسے کہتی رہے گی کہ تیرا باپ پاکستانی تھا ۔

پاکستانیوں کی ان گنت کہانیوں میں ابھی تک کئی کہانیاں ادھوری ہیں جن پر کتابیں لکھی جاسکتی ہیں ۔
رفتہ رفتہ پاکستان کے حالات نام نہاد جمہوریت آنے پر بحال ہوئے میڈیا نے بھی ترقی کی یورپی ممالک نے عائد کئی پابندیوں کو ختم کیا نئی حکومتیں آئیں نئے قانون بنائے لوگوں میں شعور پیدا ہوا دن مہینوں اور سالوں میں بدلے دنیا ہی بدل گئی لیکن پاکستانی جہاں تھے وہیں کھڑے رہے دوچار دہائیاں ان ترقی یافتہ ممالک میں گزارنے کے باوجود وہ اپنے آپ کو نہ بدل سکے ، گنتی کے لوگ ہی ہوں گے جنہوں نے یہاں کے ماحول اور سوسائٹی کو اپنایا لیکن انہیں کچھ جاہل اور دیہاتی پاکستانیوں کی تنقید کا شدید نشانہ بننا پڑا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ان کے راستے الگ ہوگئے اور انہوں نے ان علاقوں کا رخ کیا جہاں جہالت سے واسطہ نہ پڑے۔

ان ترقی یافتہ ممالک میں سالوں سے رہائش رکھے پاکستانی جہالت اور ترقی کو نہ کبھی سمجھ سکے نہ سمجھ سکیں گے ، ترقی کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ جو یہ گورے کھاتے پیتے ہیں وہی کھایا پیا جائے ترقی کا یہ مطلب نہیں کہ ڈسکو یا شراب خانوں میں رقص کیا جائے یا ناکوں ناک شراب پی کر غل غپاڑہ کیا جائے کہ لوگ دھکے اور گالیاں دے کر شراب خانے سے باہر پھینکوا دیں یا دھت ہو کر جن کے ملک میں روزی روٹی کمارہے ہوں انہیں برا بھلا کہا جائے یہ سب کچھ کئے بغیر بھی پاکستانی اس سوسائٹی میں رہ سکتے ہیں صرف ذہن کی تبدیلی ضروری ہے اور ویسے بھی دیکھا جائے تو جس طور و طریقے سے پاکستان کا نظام چل رہا ہے اسے نہ تو کسی کلچر کا حصہ قرار دیا جاسکتا ہے اور نہ ہی مذہبی طریقہ کہا جا سکتا ہے۔
بات شادی کی ہو رہی تھی ، سال دو سال یا زیادہ سے زیادہ پانچ سال تک ان گوریوں کے ساتھ رہنے کے بعد نہ بن سکی تو انہیں طلاق دے کر پاکستان میں شادی کی اور دو چار ماہ بعد پاکستانی بیوی کو یہاں بلا لیا کہ چلو جان چھوٹی پکے پکائے پراٹھے ملیں گے رات کو پاؤں بھی دبائے گی جیسے جی چاہے گا ہینڈل کروں گا ، ان حالات میں بے چاری بیوی کومپرومائز کرتی ہے ، " مرتی کیا نہ کرتی "۔ شوہر کا ہر حکم سر آنکھوں پر کیوں کہ وہ مسلم اور پاکستانی بیوی ہے مذہب اور ماں باپ نے یہ ہی سکھا یا بتایا ہے کہ شوہر مجازی خدا ہوتا ہے لیکن بے چاری بیوی بے خبر ہوتی ہے کہ اس کا شوہر اپنی بے عزتی کا بدلہ لے رہا ہوتا ہے کیونکہ گوری میم نے اس کے پاؤں دبانے کی بجائے گلا دبایا ہوتا تھا وہ صرف کٹھ پتلی تھا ، ریموٹ کنٹرول اس گوری کے ہاتھ میں ہوتا ، یہ سب کچھ سوچ کر شوہر صاحب دل میں گوری کو گالیاں دیتے اور پریکٹیکل( دھلائی ) پاکستانی بیوی پر کرتے۔

وقت پر لگا کر اڑتا ہے بچے پیدا ہوتے ہیں سکول جاتے ہیں یہاں پھر مسئلہ کہ لڑکا ہے تو جو جی میں آئے کرے لڑکی ہے تو سوئمنگ کرنے نہیں جائے گی پاکستانی بیوی سے جھگڑا فساد بپا کیا جاتا ہے کئی عقلمند لو گ بیوی اور بچی کو پاکستان بھیج دیتے ہیں کہ لڑکی اس ماحول میں خراب ہو جائے گی یہ پاکستانی بیوی کی لڑکی ہے یہ خراب نہ ہو گوری سے پیدا ہوئی لڑکی بھلے خراب ہو جائے ، اس چپقلش میں بیویا ں بھی اکڑ تی ہیں کہ یہ صرف تمھاری بیٹی نہیں میری بھی ہے میں اور نہ میری بیٹی تمھارے کہنے پر پاکستان جائیں گے شوہر صاحب پروا ہ نہ کرتے ہوئے پھر عقلمندی کا ثبوت دیتے ہیں اور بیوی پر تشدد کرتے ہیں بچی کو غیر قانونی پاکستان بھیجتے ہیں لیکن ہمیشہ مار ہی کھاتے ہیں ۔

وقت گزرتا ہے بچے جوان ہوتے ہیں تو پھر مسئلہ ، ان کی شادیوں کی فکر میں پتلے ہوتے ہیں سوچتے ہیں اپنے بھتیجے مامے چاچے کے بچوں سے شادی کروائی جائے دوسری طرف بیوی کو بھی پر نکل آتے ہیں کیوں جی میرے رشتہ دار مر گئے ہیں کیا میں کیوں نہ اپنے بھانجی بھانجے سے ان کی شادی کرواؤں ، کچھ عرصہ یہ جنگ جاری رہتی ہے ان بے چاروں بچوں کو خبر تک نہیں ہوتی کہ ان کے ماں باپ ان کے مستقبل کے بارے میں کیا کیا پلاننگ کر رہے ہیں کئی لوگ بیٹیوں کو بہلا پھسلا اور کبھی زبردستی پاکستان لے جا کر شادیاں کروا دیتے ہیں کچھ لوگ اپنے رشتہ داروں کے بچوں کو یہاں بلوانے کے لئے اپنے ہی جگر کے ٹکڑوں کو بلی کا بکرا بنا دیتے ہیں ، سب کچھ طے پا جاتا ہے شادیاں بھی ہو جاتی ہیں پاکستان کے بچے بھی یہاں آجاتے ہیں لیکن نتیجہ بہت بھیانک نکلتا ہے،دو مختلف سوچ رکھنے والے کبھی ایک نہیں ہو سکتے یہ ایک دوسرے کے ماحول کو قبول نہیں کرتے جھگڑا ہوتا ہے اور سمجھانے بجھانے کے باوجود نوبت طلاق تک آ جاتی ہے تب دو نوں بڈھا بڈھی ماتھے پر ہاتھ رکھے روتے ہیں کبھی نام نہاد مولوی کے پاس تو کبھی کمیونٹی کے در ۔ لیکن کوئی ان کی مدد نہیں کرتا کیوں کہ یہ یا اس سے مماثلت رکھتے معاملات تقریباً سب کے ساتھ ہی ہوتے ہیں اور تب یہ لوگ ان معاملات کی جڑ یا بنیاد کو دیکھنے یا سوچنے کی بجائے قصور وار حالات ، یہاں کے ماحول اور ان ملکوں کو دیتے ہیں یا ایک دوسرے کو طعنے مارتے ہیں کہ تیرا بھانجا ایسا ہے یا تیری بھتیجی ویسی ہے جب کچھ بن نہیں پاتا تو قسمت کا رونا روتے ہیں یا کہتے ہیں اللہ کی مرضی تھی۔

ان لوگوں کو سوچنا چاہئے کہ جب پاکستان چھوڑا تو اللہ کی مرضی تھی ، یورپ اور امریکا میں رہائش رکھنے کے لئے در در ٹھوکریں کھائیں کیا کیا پاپڑ بیلے تو اللہ کی مرضی تھی ، بچہ پیدا کیا تو اللہ کی مرضی تھی ، گوری کو طلاق دی تو اللہ کی مرضی تھی ، پاکستان جا کر شادی کی تو اللہ کی مرضی تھی ، اپنی آسانی اور آسائش کے لئے عورت کو یہاں بلایا تو اللہ کی مرضی تھی ، اپنی موج مستی کو قائم رکھنے کے لئے عورت کو قید کر کے رکھا تو اللہ کی مرضی تھی ، بچوں کو تعلیم دلوائی تو اللہ کی مرضی تھی ، اپنی خود غرضی کے لئے بچوں کی شادیاں پاکستان میں کروائیں تو اللہ کی مرضی تھی اب یہ بچے سب کچھ چھوڑ بھاگ جائیں گے تو اللہ کی مرضی تھی ، کیوں ان لوگوں کو سمجھ نہیں آتی کہ سب کچھ تم خود کرتے ہو اور الزام اللہ کو دیتے ہو ۔

ہر باشعور انسان وقت اور حالات کے ساتھ خود سوچ سمجھ کر قدم اٹھاتا ہے لاکھوں کروڑوں پاکستانی یورپ امریکا میں سالوں سے رہائش پذیر ہیں ان سب کا زندگی کے کسی نہ کسی موڑ پر ان غیر مسلموں سے واسطہ ، رابطہ اور تعلق بھی رہا ہو گا کیا کسی نے کبھی ان کے منہ سے یہ سنا کہ گاڈ کی مرضی تھی یہ لوگ اپنے کسی اچھے یا برے عمل میں اللہ کو بیچ میں نہیں لاتے ڈھنڈورا نہیں پیٹتے نعرے نہیں مارتے جیسے مسلمان یا خاص طور پر پاکستانی دکھاوے اور نمائش کے لئے متحد ہو جاتے ہیں اور جب واقعی کو ئی ایسا واقعہ رونما ہو جائے تو ایک دوسرے کی شکل دیکھنا گوارہ نہیں کرتےوہاں ان لوگوں کو ذات برادری جیسے جھمیلوں سے فرصت نہیں ملتی۔پاکستانیوں کی منطق اور ان کا فلسفہ ہی نرالا ہے کچھ اچھا ہو جائے تو میں نے کیا ہے برا ہو جائے تو اللہ کی مرضی تھی ، یہ لوگ بھول جاتے ہیں جب ہر وقت ہر لمحہ اپنی مرضی سے زندگی گزارنے کو ترجیح دیتے تھے کیونکہ کسی کے ماتحت زندگی گزارنا آسان نہیں ہوتا ، کیوں بھول جاتے ہیں کہ یہ لوگ پاکستان میں نہیں یورپ میں ہیں ان کی اولادیں یہاں پیدا ہوئیں یہیں تعلیم حاصل کی کچھ جاہلوں نے تو شاید سکول کی شکل بھی نہیں دیکھی ہو گی اور ان کے بچے یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں کیا ان جاہلوں کو یہ علم ہے کہ بائیولوجی کسے کہتے ہیں کیا یہ جانتے ہیں کہ ان کے بچے جہاں تعلیم حاصل کرتے ہیں وہاں کیا اور کس سبجیکٹ پر کیسی تعلیم دی جاتی ہے کن چیزوں پر ری سرچ کی جاتی ہے نہیں یہ لوگ کچھ نہیں جانتے ان لوگوں کو اپنے کلچر اور مذہب کے علاوہ کچھ علم نہیں اسی وجہ سے یہ لوگ اپنے بچوں کے مستقبل کی راہ میں روکاوٹ ہیں انہیں سوچنا چاہئے کہ یہ لوگ چند ماہ یا سال کے بعد اس دنیا سے رخصت ہو جائیں گے لیکن اپنی جہالت سے اپنی اولاد کو اندھے کنویں میں دھکیل جائیں گے ان لوگوں کا علم یا سوچ صرف اپنے بچوں کی شادی اور پھر جلد از جلد پوتا یا نواسا دیکھنے تک ہی محدود ہے اور یہی ان کی زندگی کا فل سٹاپ بھی ۔

ان لوگوں نے اگر اپنے آپ کو تبدیل نہ کیا تو یہ بات کہنے میں کوئی عار نہیں ، آج نہیں تو کل ان کے بچے ان کے زبردستی کے کلچر اور مذہب کو قبول نہیں کریں گے اور گھر چھوڑ کر اپنی تعلیم اور مستقبل کے لئے کچھ بھی کرنا پڑا کریں گے تب یہ لوگ کسے منہ دکھانے قابل رہیں گے منہ چھپانے سے بہتر ہے ماحول اور سوسائٹی کو قبول کریں اگر نہیں کر سکتے تو وہاں واپس چلے جائیں جہاں سے آئے تھے لیکن بچوں کو زندہ درگور نہ کریں انہیں ان کی مرضی کی زندگی جینے دیں کیوں کہ یہ ناممکن ہے کہ پاکستان سے آیا ہوا کوئی بھی انسان یورپ یا امریکا کے ماحول کو قبول کرے اور یہ بھی ناممکن ہے کہ مغرب ممالک میں پیدا ہوا انسان پاکستان کے ماحول اور سو سائٹی کو قبول کرے ان بچوں کے لئے پاکستان میں زندہ رہنا تو درکنار سانس لینا بھی دشوار ہے ۔

مثالیں ہزاروں لاکھوں کروڑوں کی دی جاتی ہیں چند لوگوں کی نہیں۔
Shahid Shakil
About the Author: Shahid Shakil Read More Articles by Shahid Shakil: 250 Articles with 228685 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.