اجتماعی شعور بیداری کی ضرورت ہے

یکم مئی کا دن تھادنیا بھر کے ممالک میں یوم مزدور منایا جا رہا تھا،اسی سلسلے میں باغ کے شہر میں بھی چھوٹی چھوٹی ٹولیوں کی شکل میں مزدور کے حق میں ریلیاں نکالی گئیں،میں بھی ان میں نہ صرف موجود تھا بلکہ ایک ٹولی کے ساتھ ساتھ جا رہا تھا،سب کے نعرے ،اور تقاریر ایک ہی قسم کی تھی سب کی آواز مزدور کے حق میں تھی،شگاگو کے مزدوروں سے لیکر آج کے دور کے مزدور تک کی تاریخ کو دو ہرایا جا رہا تھا،ہر ایک ٹولی نے اپنی اپنی جگہ مقرر کر رکھی تھی وہ ہاں جمع ہوتے دھواں دار تقریر کرتے مزدور کو اس کا حق دینے کی بات کرتے آج کے دور میں سرمایادارانہ نظام کے خلاف بات کرتے اور پھر منتشر ہو جاتے،جب سے میڈیا کا دور آیا ہے کوئی ایسا دن نہیں جس دن کوئی خاص ڈے نہ منایا جا رہا ہو،اور یہ ہر سال دنیا بھر میں ریلیاں جلسے جلوس،سمینارمنعقد کر کے اپنے اپنے دن منائے جاتے ہیں،مگر حیرت کی بات یہ ہے کہ جس طبقے کا دن منایا جا رہا ہوتا ہے نہ اسے خبر ہوتی ہے نہ اس کی شرکت،وہ اپنے کام میں مصروف دنیا سے بے خبر ہوتا ہے۔بات مزدور کی ہو رہی تھی وہ مزدور جس کی محنت سے اس دنیا میں رونق ہے ،اس ملک کی تعمیر و ترقی میں جس کا خون پیسنا شامل ہے،وہ مزدور جس نے یہاں بڑے بڑے محل بنائے اور خود وہ فٹ پاتھ پر سوتا ہے، وہ مزدور جس نے ایک سرمایا دار کو لاکھوں سے کروڑوں،اور کروڑوں سے ارب پتی بنایا اور خود دو وقت کی روٹی کا محتاج رہا۔۔۔۔ اس کی عدم موجودگی اوراپنے حق سے لاتعلقی اپنی جگہ کیوں کہ آج بھی مزدور کو یہ ڈر ہے کہ اگر وہ ایک دن بھی مزدوری نہیں کرے گا تو شام کو اس کا چولہا نہیں جل پائے گا ،مزدور کا نام آتے ہی ذہن میں گینتی،بیلچہ،کا تصور آتا ہے جب کہ ایسا نہیں ہر وہ شخص مزدور ہے جو اپنی محنت کا منافع کسی دوسرے کو دیتا ہے اور اس کی اجرت خود لیتا ہے جس سے اس کا نظام بھی نہیں چلتا،یا یوں بھی کہہ لیں کہ اپنی صلاحیتوں کا فائدہ کسی دوسرے کو دینے والا مزدور ہے جس میں ہم سب شامل ہیں۔ایسے دن جن کو ہم عالمی دن کے حوالے سے مناتے ہیں ان کا انعقاد اپنی جگہ مگر یہ دن ہمارے لئے بہت سے سوالات چھوڑ جاتے ہیں،بہت سے دعووں اور حقائق کو بے نقاب کرجاتے ہیں،بہت سے چھپے راز فاش کر جاتے ہیں۔سب سے پہلے تو ہمارا یہ پول کھل جاتا ہے کہ ہم کتنے متحد اور منظم ہیں،ہم کتنے پانی میں ہیں، کہ ایک آواز،ایک مقصد ،ایک نعرہ،ایک منزل،ایک کاز،اور ٹولیاں ،گروپ،ریلیاں،ہزار۔۔۔۔۔اس سے یہ اندازہ لگانا کوئی مشکل نہیں کہ ہم کتنے بکھیرے ہوئے لوگ ہیں،ہمارے اندر ایک دوسرے کو برداشت کرنے کی قوت نہیں ہم اپنی اپنی نمود و نمائش چاہتے ہیں جس کی وجہ سے ہم کسی دوسرے کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتے۔یہ حال ہمارا صرف مزدور ڈے کا نہیں، نہ کسی اور عالمی دن کا ہے بلکہ ہم اپنے تمام معاملات میں اسی سوچ اور نظریے کو لیکر چلتے ہیں،سب سے اہم اور حق کی بات ہماری آزادی کی ہے کشمیر کی آزادی کسی ایک گروپ یا ٹولی،جماعت،تنظیم کی نہیں بلکہ اس خطے میں بسنے والے ہر ایک کی آزادی ہے ،انسانی حقوق کی بنیاد پر یہ ہمارا حق ہے اس کو دنیا میں تسلیم بھی کیا جا چکا ہے مگر آج تک ہم غلاموں کے غلام ہیں،اس کی وجہ کوئی اور نہیں بلکہ ہمارا اپنا ایک نہ ہونا ،اپنی اپنی سوچ میں تقسیم ہونا،اپنے اپنے گروپوں میں بھٹ کر ایک دوسرے کی مخالفت کرنا ہے،اس کا نقصان ہمیں اور فائدہ ہمارے دشمنوں کو ہو رہا ہے۔اس بات سے کوئی اختلاف نہیں کہ یہ گروپ،جماعتیں،تنظیمیں،ٹولیاں،الگ الگ کیوں ہیں،ان کو ہونا چاہیے اپنے اپنے جھنڈے بھی ہونے چاہیے مگر ان سب کو ایک جگہ متحد ہو کر ایک کاز ، ایک مقصد کے لئے آواز بلند کر نی چاہیے ایک پلیٹ فام پر جمع ہو کراپنی طاقت کا مظاہرہ کریں تاکہ اس کا اثر بھی ہو، اس کا دبا بھی نظر آئے،مگر ایسا نہ ہونے کی وجہ سے آج تک ہم تقریروں،جلسے،جلسوں،اور سمینار تک محدود ہیں کسی تاریخ کا حوالہ دیے بغیر،کسی کہانی یا کسی دوسرے ملک کی داستان سنائے بغیریہ بات اپنی جگہ پتھر پر لیکر کی طرح عیاں ہے کہ جب تک ہم ایک آواز ہو کر اپنے مقصد کی طرف نہیں بڑھتے ،جب تک ہم ان اختلافات کو ختم کر کے ایک نہیں ہو جاتے اس وقت تک ہم پستی کی طرف تو جاسکتے ہیں مگر کامیابی کی طرف نہیں۔ہمارا سب سے بڑا مسئلہ آزادی ہے اس قوم نے اس کے لئے کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کیا۔،کوئی مکتبہ فکر ،کوئی گھر ایسا نہیں جس کا لہو اس آزادی کی جدوجہد میں شامل نہ ہو مگر حاصل کیا آج تک غلامی،جب کسی بڑئے پلیٹ فارم پر ،یا سیاست دان ،با اختیار،سے بات کرو تو وہ تاریخوں کے حوالے دے کر تسلیاں دیتے ہیں کہ ازادی حاصل کرنے کے لئے صدیاں چائیں،ہمیں صدیوں کی ضرورت نہیں ہم آزاد تھے ہم سے ازادی اور خود مختیاری چھینی گی ہے۔ ایک مٹھی ہونا ،اپنے اندر غلامی کی بو محسوس کرنا آزادی کا شعور بیدار ہونا یہ عوام کا نہیں بلکہ ہمارے ان نام نہاد لیڈروں کا کام ہے جو چائیں تو سب کچھ ممکن ہے ،جن کے ہاتھ میں ہے کہ وہ عوام کو ایک پلیٹ فام پر جمع کریں،کیوں کہ عوام بغیر کسی لیڈر کہ کچھ نہیں کر سکتی عوام کی طاقت کا استعمال سربراہ،کے بغیر ممکن نہیں،چند لوگ جو عوام کے نمائندے ہوتے ہیں وہ چائیں تو ان سب کو ایک لڑی میں پرو کر دنیا میں اپنا لوہا منوا سکتے ہیں مگر اپنے اپنے مفاد کی خاطرسب نے عوام کو قربانی کا بکرا بنایا ہوتا ہے ،عوام کی اس طاقت کو ٹکڑوں میں تقسیم کر کے وہ اپنا مفاد تو حاصل کرتے ہیں مگر قوم ،ملک،خطے کا نہیں۔اس دھرتی اور اس خطے کے لوگوں کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے اندر شعور کو بیدار کریں ،ایک ہو کر اپنی قوت کا مظاہرہ کریں،دنیا کو اپنی اہمیت بتائیں،اور ایسے لوگ جو ذاتی مفاد کی خاطر ان کو بے وقوف بنا کر استعمال کرتے ہیں ان کو سمجھیں ان کو جاننے،ایسے لوگوں کو مسترد کر دیں جو قومی مفاد کو چھوڑ کر ذاتی مفاد کی بات کرتا ہے۔موجودہ سوچ کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا مشکل نہیں کہ ہم اس غلامی سے صدیوں بعد بھی نہیں نکل سکتے،ہمیں ایسے لیڈر ،ایسی قیادت ،ایسی سوچ ،ایسے شخص کی ضرورت ہے جو برادری،قبیلہ،علاقہ ،ازم سے نکل کر ایک مقصد،ایک سوچ، ایک کاز کے لئے عوام کو ایک پلیٹ فام پر جمع کرے ان کی طاقت کو قومی اور خطے کے مفاد میں استعمال کرے۔اگر ہم نے ایسا نہ کیا تو کوئی باہر کی قوت ہم پر مسلط ہو سکتی ہے ،اور اس وقت ہم پر مسلط ہے بھی۔۔۔ مگرہمارے لیڈروں کے ذاتی مفاد نے اس غلامی کو آزادی کا نام دے رکھا ہے ۔
iqbal janjua
About the Author: iqbal janjua Read More Articles by iqbal janjua: 72 Articles with 75038 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.