علم و دانش سے محبت رکھنے والا
کون پاکستانی ہوگا جو پروفیسر شاہدہ قاضی کے نام سے واقف نہیں۔ ابلاغیات کی
تدریس ان کی پہچان ہے، لیکن ان کی فکر اور علم اس شعبے تک محدود نہیں۔ ایک
سچے دانش ور کی طرح وہ ان مسائل پر بھی نظر رکھتی ہیں جو بہ ظاہر چھوٹے اور
غیرسنجیدہ نظر آتے ہیں لیکن درحقیقت یہ مسئلے بہت اہم ہوتے ہیں، جس کا
اندازہ مجھے پروفیسر شاہدہ قاضی کی جانب سے سماجی رابطے کی مشہور اور سب سے
زیادہ مقبول سائٹ فیس بک پر کی گئی ایک پوسٹ سے ہوا۔
پروفیسر شاہدہ قاضی نے ایک ٹی وی چینل کے ایک ڈرامے کو تنقید کا نشانہ
بناتے ہوئے اپنی پوسٹ میں اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ اس ڈرامے میں ایک
ایسی عورت کی کہانی بیان کی جارہی ہے جو جوانی میں بیوہ ہوجاتی ہے۔ ایک
ایسی لڑکی جو دو بچوں کی ماں ہے اور شوہر کے انتقال کے بعد اپنے ماں باپ کے
گھر بچوں کے ساتھ رہنے لگتی ہے۔ پھر اس کی زندگی میں مسائل شروع ہوجاتے ہیں۔
ہر شخص اس کی زندگی، احساسات اور خوشیوں کا دشمن بن جاتا ہے۔ وہ ایک انٹر
پاس لڑکی ہے، ایک چھوٹی موٹی نوکری کرلیتی ہے لیکن دوسری شادی کی تلوار اس
کے سر پر لٹکی رہتی ہے، جب کہ وہ اپنے بچوں کی خاطر دوسری شادی نہیں کرنا
چاہتی۔ یہ کہانی اور کردار عورتوں کے لیے ہمت شکن ہیں۔
لمحہ بھر کے لیے پروفیسر شاہدہ قاضی کی طرح میرے جسم میں بھی جھر جھری سی
دوڑ گئی۔ ایک سوال میرے دل و دماغ میں گونجنے لگا۔ کیا عورت اتنی ہی مظلوم
ہے۔ کیا آج کی عورت اتنی ہی بے اختیار ہے کہ اس کی زندگی کے ساتھ کوئی کچھ
بھی کرتا رہے۔ وہ اپنے حق اور زندگی کے لیے کیا کچھ نہیں کرسکتی ہے، وہ بھی
ایک شہری عورت جو دیہات کی ناخواندہ اور پسی ہوئی خواتین کے مقابلے میں
کہیں زیادہ عقل و شعور رکھتی ہے۔
لیکن سیلف میڈ عورت کی حیثیت سے میں اس سوچ کو رد کرتی ہوں، عورت زندگی ہے،
عورت شعور کا دوسرا نام ہے، پھر کیسے اسے کچلا جاسکتا ہے۔
یہ صرف ایک ٹی وی ڈرامے کا حال نہیں ٹیلی ویژن پر دکھائے جانے والے 80 فی
صد ڈرامے عورت کی تذلیل کی منظر کشی کررہے ہیں۔
اس بات سے کون انکاری ہے کہ ٹی وی ڈرامے ہماری زندگیوں پر کس حد تک اثر
انداز ہوتے ہیں۔ ہم جو کچھ بھی دیکھتے ہیں لاشعوری طور پر وہ ہماری ذہن میں
بیٹھ جاتا ہے اور جب اس طرح کے حالات ہمارے سامنے آتے ہیں جنہیں اپنے
لاشعور میں سجائے گئے اسٹیج پر ہم پہلے ہی بٹھاچکے ہیں، تو ہم ویسا ہی
ایکشن دیتے ہیں۔ یہ انسانی نفسیات ہے۔
پاکستان میں ڈراما انڈسٹری نے تیزی سے ترقی کی ہے۔ پاکستانی ڈرامے نہ صرف
پاکستان میں بلکہ دنیا بھر میں دیکھے جاتے ہیں لیکن آج کل جو کلچر ہمارے
ڈراموں میں دکھایا جارہا ہے کیا وہ ہمارا کلچر ہے؟ کیا وہ ہماری روایات
ہیں، ہر گز نہیں۔ یہ ایک گھناؤنا مذاق ہے جو ہم سے اور ہماری آنے والی
نسلوں سے کیا جارہا ہے۔ میں آج اپنے بچوں کے ساتھ بیٹھ کر کسی ٹی وی ڈرامے
کو دیکھنے کا تصور نہیں کرتی کیوں
کہ اکثر ڈرامے اس قابل ہی نہیں کہ انھیں فیملی کے ساتھ بیٹھ کر دیکھا
جاسکے۔
میڈیا پر جو کچھ دکھایا جائے گا وہ دیکھنے والوں کے ذہنوں پر اثرانداز
ہوگا، یوں ہم معاشرے کی سوچ کو بھی اسی طرح سے بدل سکیں گے جس طرح ہم بدلنا
چاہتے ہیں۔ لیکن ہمارے میڈیا نے عمومی طور پر ہمارے معاشرے کی سوچ کو مثبت
انداز میں بدلنے کے بجائے منفی سوچوں کو پروان چڑھایا ہے۔ آپ بتائیے کیا وہ
زبان ہم اپنے گھروں میں استعمال کرتے ہیں وہی ہے جو زبان آج کل ٹی وی ڈرامے
دکھارہے ہیں؟ ہر گز نہیں۔ یہ تو زبان کے وہ چٹخارے ہیں جنہیں ہمارے نوجوان
کچھ وقت کے لیے اپناتے ہیں اور پھر یہ ان کی اپنی شخصیت کا حصہ بن جاتا ہے۔
فلم ہو یا ڈراما تفریح کے یہ ذرایع اپنے اندر دل چسپی کے پہلو رکھنے کی وجہ
سے ناظرین کی بھرپور توجہ حاصل کرتے ہیں۔ خاص کر ٹی وی ڈرامے کی رسائی گھر
گھر تک ہے، اس لیے اس کے اثرات بھی گہرے، دور رس اور دیرپا ہوتے ہیں۔ ہمارے
یہاں کتابیں پڑھنے اور ان کے ذریعے شعور کی سطح بلند کرنے کا کلچر ناپید
ہے۔ ہماری عورتوں اکثریت کی تفریح ٹی وی ڈراموں اور زیادہ سے زیادہ خواتین
کے ڈائجسٹوں تک محدود ہے، جن میں چھپنے والا مواد اپنی قارئین کو حقائق سے
دور رومان اور خوابوں کی دنیا میں لے جاتا ہے۔ ڈائجسٹ پڑھنے کا رجحان تو
خیر اب بہت کم ہوگیا ہے مگر کون سا گھر ہے جہاں ٹی وی نہ دیکھا جاتا ہو اور
جس کی خواتین اپنے وقت کا ایک بڑا حصہ ڈرامے دیکھنے میں نہ صرف کرتی ہوں۔
بات ڈراما دیکھ کر ’’ٹائم پاس‘‘ کرلینے ہی پر ختم نہیں ہوتی، بل کہ اس کے
کرداروں کے افعال اور اعمال پر بڑی سنجیدگی سے تنقید اور تبصرے ہوتے ہیں،
کرداروں کے دکھوں کا غم منایا جاتا ہے اور ان کی خوشیوں پر اظہارِ مسرت کیا
جاتا ہے، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ٹی وی ڈراما کس طرح اپنے دیکھنے والوں
خاص طور پر ناظر خواتین پر اثرات مرتب کرتا ہے اور ہمارے یہاں یہ ڈرامے کس
قدر محویت کے ساتھ دیکھے جاتے ہیں۔
کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ٹی ڈراما ایک نہایت طاقت ور ذریعہ ہے، جس میں دکھائے
جانے والے حالات، واقعات کرداروں کے عمل اور ردعمل ناظرین کے ذہنوں اور سوچ
کو متاثر کرتے ہیں۔ ہمارے جیسے ملک میں جہاں ناخواندگی، تعلیم کی کمی اور
ذہنی پسماندگی عام ہے، وہاں ڈرامے ذہنوں کو کس طرح متاثر کرتے ہیں اور کر
رہے ہیں، اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ ایسے میں ضرورت ہے کہ ٹی وی ڈرامے
کے اس طاقت ور اور موثر ذریعے کو لوگوں خصوصاً خواتین میں شعور اجاگر کرنے،
ان کی ہمت بڑھانے اور انھیں حوصلہ دینے کے لیے استعمال کیا جائے، کیوں کہ
افراد کی تربیت عورت ہی کے ہاتھ میں ہے، لیکن اس کے برعکس ڈراموں میں
عورتوں کو محض مظلومیت کی نشانی بناکر کر پیش کرنا نہ حقائق کے مطابق ہے
اور نہ ہمارے معاشرے کے لیے کسی طور بھی سود مند۔ |