آزادی ،حقوق اور مساوات کی شہزادیاں

ٓٓٓٓٓآزادی،حقوق،اور مساوات کی خواہش وہ تین روشن شمعیں ہیں جو موجودہ دور آگہی کے پیامبر روسو نے نہ صرف روشن کیں بلکہ ہر فردِواحد کے ہاتھ میں بھی تھما دیں یوں لگا جیسے انسانی معاشرے کے ارتقا نے اپنی بلندیوں کو چھو لیا انسان سچ مچ اپنے آپ کو خدا کا نائب نہیں بلکہ شاہ سمجھنے لگا ۔۔۔

انقلاب آنے لگے،بغاوتیں ہونے لگیں، گھروں میں بھی اور ملکوں میں بھی، خاندان بکھرے سلطنتیں اجڑیں مگر ۔۔۔بنیادی اصول وہی رہا کسی کو عروج ملا کسی کو زوال، کسی کے حصے میں زمانے بھر کی دولت آئی تو کسی کو عمر بھر کی مفلسی ملی۔اور۔۔۔۔۔ یہیں سے یہ نظریہ زوال پذیر ہونے لگا ، اسکے تمام دعوے جھاگ کی طرح بیٹھ گئے۔

فطری آزادی کا تصور بہت خوش کن سہی مگر فطری قوانین سے سراسر متصادم ہے ۔ہمارے آبا ء ذہنی طور پر اس قدر پسماندہ اور ناپختہ نہیں تھے جتنا ہم انہیں سمجھتے ہیں انکے بنائے ہوئے قوانین اور اصول و ضوابط فطرت سے قریب تر اور قانون قدرت کے عین مطابق تھے انکے مشاھدہ فطرت نے انکی ترقی میں انکی مدد کی ، مساوات، برابری ،آزادی جیسے الفاظ سے وہ آشنا نہ تھے کیونکہ مظاہرِ فطرت میں ایسی کوئی مثال موجود نہ تھی حقیقی دنیا میں ایسا کوئی فلسفہ قابلِ عمل نہ تھا ۔عقل اور عمل میں کوئی تصادم نہ تھا ۔ھمارے آباء شعور رکھتے تھے کہ اگر خالق کا ئنات یہی منشاء رکھتا تو اس قادرِ مطلق کے لئے یہ چنداں مشکل نہ ہوتا ۔ایک جیسے درخت ، پہاڑ،ندی، نالے یکساں صورت اور صلاحیت کے مالک جن و اِنس۔۔۔۔ مگر ایسا نہیں ہے اور یہی حسنِ کائنات ہے یکسانیت سے گریزاں مگر متوازن

اپنے آباؤ اجداد کی کم عقلی کا رونا روتے ہوئے ہم نے فطرت سے متصادم رویہ اختیار کر لیا ۔ اپنی مشکلات اور ناکامیوں کا ذمہ دار فطری نا ہمواریوں کو قرار دیا ہم ایسے معاشرے کی خواہش کرنے لگے جہاں یکساں راستوں پر تیز رفتاری کے ساتھ سفر جاری رکھا جا سکے مگر بنی نوع انسان توازن اور مساوات کے فرق کو نہ سمجھ سکا ۔آزادی کی تڑپ میں نظم و ضبط کی لذت گنوا بیٹھا ۔ظاہری برابری کے حصول کے لیے ابدی درجات کی ترقی کو بے معنی اور غیر ضروری گرداننے لگا۔اور اپنے ہی ایجاد کردہ نعروں کے گرداب میں پھنسنے لگا ۔

انسانی سماج میں ان نعروں کی مقبولیت کی وجوہات تلاش کرتے ہوئے ذہن الجھ جاتا ہے ۔ کیونکہ فرد کی بقاء تو ان نعروں کو رد کرنے میں تھی ، پھر کیوں ان کا طوطی سر چڑھ کر بولنے لگا؟

فرد کی زندگی کی بقاء تو قانونِ قدرت سے ہم آہنگی میں ہے ۔ بچہ کیسی ہی فطرت لے کے دنیا میں آیا ہو ا سے سب سے پہلے اپنے ماحول سے مطابقت پیدا کرنی ہوتی ہے ، اسے اپنی پسند نا پسند کو رائج شدہ قوانین کے مطابق ڈھالنا ہوتا ہے اور اگر وہ ایسا نہ کر سکے یا نہ کرنا چاہے تو۔۔۔۔۔ تو پھر وہ پورے معاشرے کے لئے سوالیہ نشان بن جاتا ہے تو پھر کیسی آزادی حقوق اور خواہش؟؟؟فرد کی کامیابی اور ناکامی کے تعین کے پیمانے بھی طے شدہ ہیں اگرچہ کوئی نہیں جانتا کہ انکو بنانے والے کون تھے البتہ ان پر عمل کرنا اور کروانا ہر فردِ واحد اپنی مطلق ذمہ داری سمجھتا ہے۔

انہی الجھنوں میں گرفتار حضرتِ انسان اپنی طبعی عمر گذار دیتا ہے،اور اپنے ساتھ تجربے اور تجزیے کی پوٹلی باندھ لیتا ہے جو اسکی عمر بھر کی کمائی ہوتی ہے جسے وہ اپنی آنے والی نسلوں تک مکمل دیانتداری کے ساتھ منتقل کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔۔۔ لیکن یہ بھی قانونِ قدرت ہے کہ ہر آدم زاد اپنی ہی جستجو پر یقین رکھتا ہے اور اپنے آباء کی پوٹلی کو بہ صد احترام طاق میں سجا دیتا ہے ۔

بس کچھ ایسے ہی اطوار بنی نوع انسان نے بحیثیت مجموعی بھی اپنا رکھے ہیں، وگرنہ اپنی تخلیق سے لے کر آج تک ہم اپنی معراج حاصل کر چکے ہوتے۔ مگر حقیقی صورتِ حال اس سے قطعی مختلف ہے ۔ انسانی معاشرے کا ارتقاء جمود کا شکار نظر آتا ہے ،تکنیکی اعتبار سے تو شائد نہیں مگر ذہنی زوال عیاں ہے ۔ ٹیکنالوجی کے میدان میں دن دوگنی رات چوگنی ترقی کرتا ہوا معاشرہ خود احتسابی کی بجائے خود ستائی کا شکار ہے ماضی کو رد کر چکا ہے مگر اپنے بے چین ، بے کل، خالی ا لذہن اور خوف زدہ افراد کے سکون اور طمانیت کے لیے اسکے پاس کوئی مرہم کوئی مداوا نہیں۔۔۔ ہیں تو بس یہ کھوکھلے نظریات جو اسے رات کی تاریکی میں ناامیدی اور تضادات کا شکار کر دیتے ہیں اور آنے والے دن میں وہ نام نہاد ترقی کے حصول کے لئے مشینوں کا مقابلہ کرنے میں جت جاتا ہے۔

حقوق ، آزادی اور مساوات کی خواہش میں وہ اپنے مفاد پرست اور مادیت پرست رہنماؤ ں کی جانب امید بھری نظروں سے دیکھتا ہے ۔۔۔ سوال کرتا ہے کیا یہ جناتی ترقی اسے آزادی،مساوات کے حقوق دلا سکے گی؟ کیا تمام انسان برابر اس ترقی سے استفادہ حاصل کریں گے؟ کیا ایتھوپیا، افغانستان ، صومالیہ،امریکہ اور جاپان میں بسنے والے انسان یکساں مراعات کے حامل ہونگے؟میرا بچہ بھی اتنا ہی با عزت ہوگا جتنا شہزادہ ولیم کا ؟ کیا یہ خواب حقیقت کا روپ دھار سکے گا ؟ کیا ہم یا آنے والی نسلیں ہر طرح کے طبقاتی فرق کو مٹا پائیں گے ؟

مگر کیسے؟؟؟؟ کیا امریکہ والے اپنی مراعات سے دستبردار ہونگے؟ کیا ترقی اتنی تیز رفتار ہوگی کہ امریکا اور صومالیہ کا فرق مٹ جائے گا؟ کیا انسان کی طبقاتی شناخت ختم ہو جائے گی؟

منطقی اعتبار سے تو ان سوالوں کے جواب کسی کو معلوم نہیں مگر انسانی ذہن کی یہی تو خوبی ہے کہ وہ کسی نہ کسی دلیل سے اپنی سوچ اور عمل کو درست ثابت کرنے میں لگا رہتا ہے ۔روسو کی تخیلاتی دنیا کی توجیہہ وہ کچھ اس طرح پیش کرے گا۔۔۔۔۔دیکھئے مساوات سے مراد یہ نہیں کہ تمام انسانوں کو برابر اقتصادی سہولیات میسر ہونگی بلکہ ہم تو مساوی حقوق کی بات کرتے ہیں -

بہت خوب ۔۔اب حقوق کی بھی ایک لمبی فہرست ہے جو زندہ رہنے کے حق سے شروع ہوتی ہے اور نہ جانے کہاں ختم ہوتی ہے ۔۔ ایک عام آدمی یہ تو معلوم کر سکتا ہے کہ اسکی بھوک کتنی ہے مگر یہ کبھی نہ جان پائے گا کہ اس کے حقوق کتنے ہیں ؟

کیا مساوی حقوق،آزادی اور مساوات کی شہزادیاں کبھی کسی بھی معاشرے میں جلوہء افروز ہوئی ہیں ؟
کیا جدید ترقی یافتہ معاشرے مثالی معاشرے ہیں ؟ شاید ایسا ہی ہوگا یقینا ایسا ہی ہے تبھی تو ہم پسماندہ معاشروں کے افراد بگٹٹ ان علاقوں کا رخ کر رہے ہیں جو مساوات،آزادی اور حقوق کے دعویدار ہیں۔
مگر ذہن ہے کہ الجھتا ہی جاتا ہے ۔۔۔ کیا وہاں ہم پاکستانی نہیں رہتے؟ کیا طبقاتی تفریق اور تقسیم میں ایک اور درجے کا اضافہ نہیں ہو جاتا؟ اور وہ بے لاگ منصف کون ہے جو انصاف کا ترازو ہاتھ میں لئے یہ فیصلہ صادر کرتا ہے کہ امریکہ اور برطانیہ میں سب کوآزادی اور مساوی حقوق حاصل ہو گئے ہیں مگر عراق، افغانستان یا ایران میں ابھی بھی صورتِ حال خراب ہے ۔۔۔امن اور سکون کی کمی ہے چنانچہ آزادی اور حقوق کے راستے میں آنے والی ہر رکاوٹ کو بزورِ طاقت دور کیا جائے گا۔

یہ کیسا خوف ہے جو ھمارے گلوبل ویلج پر چھا گیا ہے فطرت سے تصادم نے ہم پر ہماری کمزوریا ں آشکار کر د ی ہیں ۔ ہم ماضی کو رد کرتے کرتے ایسی بند گلی میں آ کھڑے ہوئے ہیں جہاں ہر لمحہ مٹ جانے اور فنا ہو جانے کا خوف ہے ۔ ہم اپنی آنے والی نسلوں کو صرف طاقت کے حصول کا سبق دے کر جا رہے ہیں ایسی طاقت جو دوسروں سے ان کی آزادی اور حقوق کے ساتھ ساتھ انکی زندہ رہنے کی خواہش بھی چھین لے ۔ہم ترقیء معکوس کی جانب رواں دواں ہیں ۔ شاہ بننے کی خواہش میں حضرتِ انسان اطاعت کی لذت سے بھی محروم ہوگئے ۔
 
Aneela Shakeel
About the Author: Aneela Shakeel Read More Articles by Aneela Shakeel: 10 Articles with 20061 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.