میں کبھی آمریت کی کسی بھی صورت کا حامی نہیں رہا۔اﷲ کریم
نے انسان کو آزاد پیدا کیا۔اس کی آزادی کی ہر صورت میں حفاظت کی جانی
چاہئیے۔خالق ِ کائنات نے جہاں انسان کو آزادی مرحمت فرمائی وہیں سزا وجزا
کا نظام بھی وضع کیا۔نیک عمل کرنے والوں کے لئے اجر اور برائی کے
علمبرداروں کے لئے جنت اور دوزخ تخلیق کی گئی۔دنیا میں بھی انسان کو قانون
قاعدوں اور ضابطوں کے تحت زندگی گذارنے کی تلقین کی گئی۔کسی بھی معاشرے سے
اگر سزا وجزا کا اصول مٹ جائے تو وہ معاشرہ جنگل کا منظر پیش کرنے لگتا
ہے۔وطن عزیز میں بوجوہ یہ نظام بری طرح مجروح ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایسے
ایسے جرائم سامنے آ رہے ہیں جن کے بارے میں آج سے دس سال پہلے تک کوئی تصور
بھی نہیں کر سکتا تھا۔تین تین سال کی معصوم کلیاں مسل کے راہوں میں پھینک
دی جاتی ہیں۔ مائیں اولاد کو قتل کر رہی ہیں اور اولاد ماں باپ کی جان لینے
پہ تلی ہے۔
میڈیا آزاد ہے اور آزادی کا علمبردار۔ لڑکی ابھی جوان نہیں ہوتی کہ میڈیا
پہ چلنے والوں ڈراموں سے متائثر ہو کے پسند کی شادی کر لیتی ہے۔ کوئی اس
دکھیا ماں اور بدقسمت باپ کا دکھ نہیں دیکھتا جس نے خونِ جگر دے کے اسے
پالا ہوتا ہے۔ماڈرن ہونے کے چکر میں ہر چینل لڑکی کے حقوق کے لئے کھڑا ہو
جاتا ہے۔ہمارے ہاں ہر بدمعاش ،ہر شرپسند ہر بے ایمان ہر ڈاکو کے حقوق ہیں
لیکن شریف آدمی کا کوئی حق نہیں۔ ایماندار آدمی کی کوئی شنوائی نہیں۔پولیس
والے کوئی مقابلہ کریں اسے مبینہ پولیس مقابلہ ہی کہا جاتا ہے۔کبھی ایسا
نہیں ہوا کہ ہمارا میڈیا قانون نافذ کرنے والے اداروں کے پیچھے کھڑا ہوا
ہو۔آج تک کسی رپورٹر نے یہ جاننے کی کوشش نہیں کی کہ مسنگ پرسنز کن
کاروائیوں میں ملوث تھے۔انہیں کیوں اٹھایا گیا۔ہمارا معاشرہ قانون کو نہیں
جرم کو تحفظ دیتا ہے اور اس احساس کو ابھارنے میں ہمارے مادر پدر الیکٹرانک
میڈیا کا سب سے زیادہ دخل ہے۔صحافی کا بنیادی کام خبر تلاش کرنا اور اسے
عوام تک پہچانا ہے جبکہ ہمارے ہاں خبر پیدا کی جاتی ہے۔ہمارے رپورٹر کیمرہ
ہاتھ میں لے اور مائیک پکڑ کے پولیس والا کام سر انجام دیتے ہیں اور ان کی
تحسین کی جاتی ہے۔کیا یہ آمریت نہیں؟اپنی لفظ دوسرے کے منہ میں ڈالنا اور
اپنی مرضی دوسروں پہ مسلط کرنا ہی آمریت کہلاتا ہے۔
ذوالفقار علی بھٹو نے ایک بارمیڈیا کی ایک نام نہاد بڑی شخصیت کوا سکی خوش
آمد ،چاپلوسی اور تھالی کے بینگن جیسا رویہ دیکھ کے "صحافت کی طوائف" قرار
دیا تھا۔بزرگ تو چل بسے لیکن ان کی کمائی دولت نے جو گل کھلائے اس کے آج ہم
چشم دید گواہ ہیں۔اسلام ہمارا دین ہے لیکن اسے جس طرح پیسے کمانے کا ذریعہ
بنایا گیا۔اسلامی تاریخ کو جس طرح مسخ کیا گیا اور فحاشی اور عریانی کی
جیسے ترویج کی گئی ۔جب یہ سب ہو رہا تھا ہم نے اسی وقت بر وقت انتباہ کیا
تھاکہ اس مادر پدر آزادی کو لگام دی جائے ورنہ کل کو یہ کوئی بڑا گل کھلائے
گی۔سابقہ حکمران تو یونہی لوٹ مار میں مصروف تھے انہیں تو خبر ہی نہیں تھی
کہ ملک دشمن اس ملک کا کیا حشر کر رہے ہیں ۔موجودہ حکومت آئی تو توقع تھی
کہ یہ بہت حبِ وطن کا دعویٰ کرتے ہیں یہ ضرور ان کو لگام دینگے۔کسی کو کیا
خبر تھی کہ یہ حکومت تو برسر اقتدار ہی ان دلالوں کے بل بوتے پہ آئی ہے۔لوگ
کہتے ہیں کہ انہوں نے اربوں روپے کا ٹیکس چوری کیا ہے اور اربوں ہی کے یہ
نادہندہ ہیں۔اب چونکہ یہ میڈیا کے کن ٹٹے ہیں اس لئے حکومت وقت بھی ان سے
دبنے لگی ہے۔انہوں نے ہمیشہ غیر ملکی ایجنڈے پہ کام کیا۔ ہمیشہ وطن پہ پیسے
کو ترجیع دی۔ جب کوئی روک ٹوک نہیں ہوئی تو انہوں نے ملکی اساس پہ حملے
شروع کئے۔اجمل قصاب کا والا کیس لوگ ابھی تک نہیں بھولے۔ حامد میر پر حملے
کی آڑ میں انہوں نے پاکستان کے اداروں اور شخصیات پہ کھلم کھلا حملے شروع
کئے۔آٹھ گھنٹے تک بغیر کسی ثبوت کے آئی ایس آئی کے چیف کی تصویر دکھا کر وہ
تبرے بازی کی کہ سارا پاکستان انگشتِ بدنداں رہ گیا۔حکومت تو خیر اپنے
سربراہ اور وزراٗ کے ساتھ انہی کن ٹٹوں کے ساتھ کھڑی نظر آئی لیکن ملک کے
سنجیدہ حلقوں نے اس حرکت کو ایک خطرناک رحجان قرار دیا۔اگر اس وقت ان
بدمعاشوں کو لگام دے دی جاتی تو شاید بات وہیں تک رہتی ۔
حکومتی روئیے کی بناء پہ ان لوگوں کے حوصلے بڑھے۔پاکستان اﷲ کی عطا ہے اور
یہ تاریخ ہے کہ جس کسی نے بھی پاکستان کی نظریاتی اساس پہ حملہ آور ہونے کی
کوشش کی ہے اﷲ کریم نے اس کو نشانِ عبرت بنا دیا ہے۔ان بدبختوں کی بدبختی
ملاحظہ ہو کہ انہوں نے ایک بدنام زمانہ عورت کو کہاں جا ملایا۔ درست طور پہ
مسلمانوں نے اس رذیل حرکت پہ احتجاج کیا اور ابھی تک کر رہے ہیں۔حکومت جیسے
فوج اور آئی ایس آئی کی تذلیل پہ خاموش تھی ابھی بھی اس نے منہ سی رکھا
ہے۔چینل کو صرف شوکاز نوٹس دء کے گونگلوؤں سے مٹی جھاڑنے کی کوشش کی جا رہی
ہے۔حکومت یاد رکھے کہ جیو کی یہ حرکت کسی بھی طرح قابل معافی نہیں۔اس پہ
فیصلہ جس قدر جلدی ہو اتنا ہی اچھا ہے۔اس معاملے میں تاخیر نہ صرف اس
بدبختی کو مزید طویل کرے گی بلکہ بات خون خرابے تک جا سکتی ہے۔ہم بے عمل
مسلمان ہی سہی لیکن شعائر اسلام کی توہین کوئی نام کا مسلمان بھی برداشت
نہیں کرتا۔مجھے تو رسالت ،اہل بیت اور صحابہ کرام کے نام کے ساتھ توہین کا
لفظ جوڑنا بھی مناسب معلوم نہیں ہوتا۔ اس معاملے میں حکومت کی ذرا سی
کوتاہی یا تاخیر نہ صرف حکومت کو اپنے ساتھ بہا لے جائیگی بلکہ اس سے ملک
کو بھی نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔
طوائفوں کا کیا ہے ان کا کاروبار کبھی بند نہیں ہوتا۔یہاں سے اٹھ کے وہ
کہیں اور اپنا کاروبار جما لیں گی۔یہ جتنی جلدی اپنے ناپاک وجود سے پاکستان
کو پاک کر دیں اتنا ہی بہتر ہے۔ |