پاکستان میں مہنگائی نے جس طرح انسانی زندگیوں کو گزارنا
مشکل کر دیا ہے اس کی ذمہ داری کوئی بھی لینے کے لئے تیار نہیں!ہمارے وزرا
بڑی فراخ دلی سے فرما دیتے ہیں کہ مہنگائی کی ذمہ دار پچھلی حکومت ہے یا
پھر اس کی ذمہ داری جمع خوروں پر لگا دی جاتی ہے۔ اگر جمع خوروں پر ذمہ
داری عائد ہوتی ہے تو اس میں بھی جب تک اعلیٰ افسران ملوث نہ ہوں ایسا کرنا
ممکن ہی نہیں۔اور وہ یہ بھی بتانے میں ناکام رہتے ہیں کہ جمع خوروں پر
کنٹرول کرنے کی ذمہ داری کس کی ہے۔ قانون کس لئے بنائے جاتے ہیں اور قانون
بنانے کے بعد اس پر عمل درآمد کرانے کی ذمہ داری کس کی ہے اس کا جواب بھی
ان وزراء کے پاس نہیں ہے۔ اس وقت ملک میں ضروری اشیاء خورد و نوش سے لے کر
تمام ہی چیزوں پر مہنگائی کی ہاہا کار مچی ہوئی ہے مگر پھر بھی وزراء کے
بیانات اخبارات و میڈیا پر یہی جاری ہو رہے ہیں کہ سب کنٹرول میں ہے۔ میری
سمجھ سے بالاتر ہے کہ جس چیز کا سیزن ہو انہی موسم میں ضروری اشیاء کی کمی
کا طوفان اُمڈ آتا ہے اور یہ اچانک نہیں ہوتا بلکہ آہستہ آہستہ ہوتا ہے ۔
تو کیا صوبائی و مرکزی حکومتیں پہلے سے اس کے لئے کوئی بندوبست نہیں کر
سکتیں یا کرنا ہی نہیں چاہتیں۔ہمارے وزرا یہ بھی ببانگِ دہل فرماتے ہیں کہ
ذخیرہ اندوزوں کو زیادہ دیر برداشت نہیں کیا جائے گا اور ہر چیز عام آدمی
کی پہنچ تک لائی جائے گی۔ یہ بات اچھی ہے مگر اس پر عملدرآمد نظر نہیں آتا۔
آج ہر چیز آٹے سے لے کر آلو تک غریبوں کی پہنچ سے بہت دور ہے اور ملک کا ہر
غریب تذبذب کا شکار ہے کہ کیا کھائے اور کیا پہنے۔ یعنی کہ ’’سر ڈھانپو تو
پاؤں کھلتے ہیں، اور پاؤں ڈھکوں تو سر کھلتے ہیں‘‘ ہائے اس کسمپرسی پہ کون
نہ مر جائے مگر آج تک بننے والی حکومتوں نے بھی غریبوں کی کوئی داد رسی
نہیں کی اور اس ملک کا غریب آج بھی شدید تناؤ میں اپنی زندگی گزارنے پر
مجبور ہے۔
ملک میں دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ اور دوسری برائیوں کے سلسلے میں چند روز
پہلے وزیراعظم صاحب نے کراچی میں ایک میٹنگ بلائی جس میں ملکی اداروں کے
بڑے بڑے صاحبان نے شرکت کی۔ گو کہ یہ شہرِ قائد کے حوالے سے امن و امان کے
حوالے سے بڑا اجتماع تھا اور ظاہر ہے کہ اس میں فیصلے بھی ہوئے ہونگے۔ خدا
کرے ان فیصلوں پر عملی اقدامات بھی اٹھائے جائیں تاکہ ملک سے بالخصوص شہرِ
قائد میں امن و امان قائم ہو جائے۔ اس اجلاس سے پہلے بھی سینکڑوں اجلاس
ہوئے، سینکڑوں فیصلے ہوئے ، کاروائیاں بھی ہوئیں مگر ایسا لگتا ہے کہ سب بے
نتیجہ ہے۔ مجرم آج بھی آزاد گھوم رہے ہیں اور ان کا جہاں جی چاہتا ہے
کاروائیاں کر گزرتے ہیں اس کے بعد شریف شہریوں کو تنگ کرنے کا سلسلہ جاری
رہتا ہے۔ ضرورت ہے خلوصِ دل اور تعصب سے پاک کاروائیوں کی تاکہ امن و امان
کا شیرازہ قائم و دائم ہو۔ امن و امان ہی کسی ملک کی ترقی میں اہم کردار
ادا کرتا ہے۔ آج امن و امان نہ ہونے کی وجہ سے ادنیٰ سے ادنیٰ کرکٹ ٹیم بھی
ہمارے یہاں آکر کھیلنے کو تیار نہیں تو سرمایہ دار کس طرح آ سکتے ہیں۔
انہیں بھی بھتہ خوری کا ڈر ہوگا، انہیں بھی ٹارگٹ کلنگ اور دہشت گردی کا
خطرہ ہوگا، ان ابہام کو دور کرکے اور قوتِ ارادی سے فیصلے کرکے امن و امان
قائم کیا جائے نہ کہ ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے جائیں۔ امن و آشتی ملک کی
اہم ضرورت ہے اس پر تہہ دل سے عمل در آمد کیا جانا چاہیئے اور جو بھی فیصلے
حکومت کرے اس پر نیک نیتی سے عملدرآمد کرایا جانا چاہیئے۔گولی اور گولہ کے
نظریئے کو شکست دیجئے تاکہ ہمارا ملک بھی اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کے قابل
ہو سکے۔عوام کو نئی حکومت (جو کہ اب ایک سال کی ہو چکی ہے) سے بہت اُمیدیں
تھیں مگر ان کی سب اُمیدیں پچھلی سرکاروں کی طرح ہی نکلی جن کے وزراء پچھلی
حکومتوں کی طرح کام کم اور بیان بازی سے لے کر ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے
کی کوشش زیادہ کر رہے ہیں۔ ہر کوئی ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے تگ و دُو
میں مصروف ہے۔ خدا خیر کرے!
نئی حکومت سے لوگوں کی قدرتی طور پر بڑی توقعات ہیں لکین پچھلے دس سال کی
بد نظمی کی وجہ سے ملک کے سامنے مسائل کا پہاڑ کھڑا ہے اس سے نجات پانا نئی
سرکار کے لئے کوہِ ہمالہ سر کرنے کے مترادف ہے۔ سرکار کے سامنے اس وقت سب
سے زیادہ بڑا مسئلہ امن و امان قائم کرنا، بے روزگاری کو شکست دینا،
مہنگائی کو ختم کرنا، لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ،اور ان حالات کی وجہ سے ملک کی
چوپٹ انڈسٹریوں کو نئے سرے سے کھڑا کرنے کا مسئلہ درپیش ہے۔ اس لئے ضروری
ہے کہ باتیں کم اور کام زیادہ کے مصداق عمل پیرا ہو کر جلد از جلد عوام کو
ریلیف مہیا کیا جائے۔ بے روزگاری ملک کا بڑا مسئلہ ہے۔ کیسی ستم ظریفی ہے
کہ ایک طرف تو نوجوان کروڑوں کی تعداد میں بے روزگار ہیں ، جو ڈگڑیاں
اٹھائے اٹھائے تھک چکے ہیں مگر انہیں روزگار میسر نہیں ہوتا۔ بنیادی
ڈھانچوں میں ترقی حکومت کی ترجیح ہونی چاہیئے۔ موجودہ حکومت کے سامنے کام
زیادہ ہیں ، عوامی توقعات زیادہ ہیں لیکن کیا حکمران ان پر کھری اُترے گی۔
اُمید و یاس پر دنیا قائم ہے ہو سکتا ہے کہ کوئی معجزہ ہوجائے اور عوام کی
تقدیر چمک جائے۔
غالباً دس سال پہلے شہرِ قائد ایسا نہیں تھا جیسا اب ہے۔ دنیا کے بڑے میگا
سٹی میں اس کا نام شمار ہونے لگا ہے۔ اس شہر نے اتنی ترقی کبھی نہیں کی تھی
، شاہراہیں، پارک، انڈر پاسسز، اوور ہیڈ برجز، اور اسی اقسام کے کئی مزید
جدتیں، کہنا یہ ہے کہ اگر موقع ملے اور نیت صاف ہو تو یہ سارے کام آسانی سے
کئے جا سکتے ہیں اور یہ کام متحدہ کے ناظمِ اعلیٰ نے کر کے دکھایا ہے نہ
صرف کرکے دکھایا بلکہ اپنا نام دنیا کے دوسرے بہترین میئر کی فہرست میں بھی
شامل کرایا۔ پانی کے کئی منصوبے کے ٹو، کے تھری انہیں کا کیا ہوا کام ہے
مگر آج یہ حال ہے کہ شہرِ قائد کے مکین پانی کو ترس رہے ہیں۔شہرِ قائد کی
بڑھتی ہوئی آبادی کا یہی حال رہا تو آنے والے سالوں میں پانی پیٹرول کی طرح
مہنگا بِکے گا۔چھوٹے ڈیموں کی اشد ضرورت ہے اس کی تعمیر میں اب دیر نہیں
ہونا چاہیئے۔ پہلے پانی کی کھپت کے مطابق فراہمی تھی لیکن اب حالات تبدیل
ہو گئے ہیں پہلے کبھی بوتل بند پانی فروخت نہیں ہوتی تھی لیکن اب حالات
ایسے ہو گئے ہیں کہ بوتل بند پانی کو خریدنا پڑ رہا ہے۔کھارے اور سمندری
پانی کو صاف کرکے ضروریاتِ زندگی کے لئے کارآمد بنایا جائے۔ اگر سمندر کا
کھارا پانی ـصاف کرنے کا یہ فلٹر پلانٹ لگا دیا جائے تو کافی حد تک ضروریاتِ
زندگی اور دیگر کاموں کے لئے پانی کا انتظام کیا جا سکتا ہے۔اگر یہی حال
رہا تو آنے والوں سالوں میں کیا ہوگا۔گزشتہ برسوں میں نئی حکومت کے حسنِ
انتظام کرنے کی بازگشت دور دور تک پہنچی ہے اسی لئے عوام نے انہیں منتخب
کیا کہ یہ بھی ملک کی کایا پلٹ کر رکھ دیں گے اور ملک کی تقدیر سنوار دیں
گے مگر تاحال ایسا ہوتا ہوا نظر نہیں آ رہا۔ یہ حکمرانوں کے لمحۂ فکریہ سے
کم نہیں اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ آج ہی سے آئندہ کی حکمتِ عملی وضع
کیا جائے تاکہ جو حال ہے آج ہے وہ کل نہ ہو۔ خدا ہمارے اعمال پر رحم فرمائے۔
اختتامِ کلام بس اتنا کہ:
تھوڑا سا کہیں جمع بھی رکھ بوند کا پانی
موسم ہے کوئی خشک سا برسات سے آگے |