تنہا جزیرہ:اشتراکی جمہوریہ

بسم اﷲالرحمن الرحیم
تنہا جزیرہ:اشتراکی جمہوریہ
کیوبا
(Cuba)
(20مئی:قومی دن کے موقع پر خصوصی تحریر)

کیوبا سمندر کا پڑوسی ملک ہے اور چاروں طرف سے پانی میں گھراہے۔جغرافیائی طور پرویسٹ انڈیزمیں واقع یہ ملک بہت بڑا تنہا جزیرہ ہے۔1492ء مین کرسٹوفرکولمبس نے اس جزیرے کو دیافت کیاتب کے بعد سے صدیوں تک یہ جزیرہ اسپین کے زیرتسلط رہا اوریہاں گنے اور کافی کی فصل کے لیے افریقہ سے غلام لائے جاتے رہے ۔اس جزیرے کو کیوبا کانام دیاگیااور ’’ہوانا‘‘ کے مقام کو یہاں کا دارالسلطنت بنایاگیا۔1898ء کی امریکہ اسپین جنگ میں امریکہ نے کیوبا کے لوگوں کو اسپین سے آزادی کی شہ دی اور معاہدہ پیرس کے تحت 20مئی1902میں کیوباامریکی سامراج سے آزاد ہوا۔کیوبا چاروں طرف سے سمندر کے پانی میں گھراہے اور اسکا رقبہ ایک لاکھ دس ہزار مربع کلومیٹر سے کچھ زائد ہے۔ہیٹی اس جزیرے کا سب سے قریبی ملک ہے جو یہاں سے 48میل مشرق میں واقع ہے ،جنوب میں 87میل دور ’’جمائکا‘‘ ہے اور 90میل شمال میں امریکہ کی ریاستیں موجود ہیں۔چھوٹے بڑے سولہ سو جزائر کیوبا میں شامل ہیں ۔اس ملک کے ایک چوتھائی حصے پر پہاڑی سلسلے اورسطح ہائے مرتفع ہیں جبکہ دو تہائی رقبے پر تمباکو اور گنے کی کاشت سمیت جانوروں کے لیے بنائے گئے بڑے بڑے فارم موجود ہیں۔کیوبا کی سرزمین چونکہ ایک جزیرہ ہے اس لیے یہاں کوئی بہت بڑے بڑے دریا نہیں بہتے ،کوئی چھ سو کے لگ بھگ دریائی نالے اورپانی کی گزرگاہیں ہیں۔

کیوبا کے شہریوں کو بنیادی وسائل کی فراہمی پر کافی شکایات ہیں شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے پڑوسی ممالک بہت خوشحال ہیں جبکہ اشتراکی معیشیت کے باعث یہاں پرابھی غربت سمیت راشن بندی کا بچاکھچا نظام چل رہا ہے جس کے باعث اشیائے صرف وافرمقدار میں میسر نہیں رہتیں۔کیوبا زیادہ تر دیہی آبادی کا ملک ہے یہاں ایک ہی بڑا شہر ہے’’ہوانا‘‘ جو یہاں کا دارالحکومت بھی ہے اور زیادہ تر کارخانے ہونے کے باعث معاشی سرگرمیاں بھی یہاں زیادہ ہیں۔ساحل پر واقع ہونے کے باعث یہ شہر اپنی خوبصورتی کی بناپر باہر کے سیاحوں کے لیے بہت پر کشش ہے۔ایک طویل عرصہ تک اسپینی نظام کے تحت رہنے کی وجہ سے کیوبا کے شہروں میں اسپینی دور کی باقیات ،عمارات کی شکل میں آج بھی موجود ہیں۔یہاں کا سالانہ اوسط درجہ حرارت 26ڈگری سینٹی گریڈ تک ہی رہتا ہے اور سالانہ بارش کی اوسط 54انچ سے بڑھتی نہیں ہے۔موسم کی اس صورتحال کی وجہ سمندر کا جوار ہے۔

’’گناہتبے‘‘اور’’سیبونے‘‘قبائل یہاں پر چارہزارسال قبل مسیح میں وارد ہوئے ،جبکہ’’ٹانو‘‘ قبائل پانچ سو عیسوی میں یہاں پر آباد ہوئے۔ان قبائل کے افراد اس پورے جزیرے پر پھلتے گئے،انہوں نے یہاں پر بستیاں بھی آباد کیں اور زراعت کو بھی بطورپیشے کے اپنایا۔اسپنی قبضے کے وقت ’’ٹانو‘‘ قبائل یہاں کی آبادی کا نوے فیصد تھے۔اس وقت بھی کیوباکے آدھے سے زیادہ باشندے یورپین اور افریقیوں کی مشترکہ نسل سے ہیں جبکہ کم و بیش چالیس فیصد تک ہی خالصتاََ یورپی نسل کے ہیں جن میں بہت بڑی اکثریت اسپینیوں کی ہی ہے۔ایشیائی باشندوں کی کیوبا ئی نسل بہت ہی مختصرتعداد میں بڑھ پائی ہے اور یہ لوگ صرف ہوانا کے قرب و جوار میں ہی آباد ہیں۔کیوبامیں اسپینی زبان کو ہی بنیادی اہمیت حاصل ہے لیکن مقامی قبائل اپنی اپنی زبان بھی بولتے ہیں۔کیوبا کے اکثر باشندے کسی مذہب کے پیروکار نہیں ہیں،‘‘سینتیریا‘‘یہاں کے مذہبی اعتقادات کا ملغوبہ سا ہے ،اسکے ڈانڈے افریقہ کے قدیم مذاہب سے ملتے ہیں لیکن آبادی کا بہت کم حصہ ہی اسکو مانتا ہے باقی ماندہ افراد کسی بھی مذہب سے نابلد ہیں اور حکومت نے بھی کبھی مذہبیت کے فروغ کے لیے کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی بلکہ 1992کی آئینی ترامیم میں مذہبی گروہوں کی حوصلہ شکنی بھی کی گئی لیکن اس کے باوجود بھی رومن کیتھولک مذہب عیسائیت کے اکثر مراکزوہاں پر آباد ملتے ہیں۔یہاں کی آبادی ایک کروڑ پندہ لاکھ کے لگ بھگ ہے،آبادی میں بڑھوتری کی شرح 0,23%ہے،شرح خواندگی سو فیصد کو چھو رہی ہے کیونکہ قومی آمدنی کا نو فیصد سے زائدتعلیم پر خرچ کیاجاتاہے۔

کیوباکامعاشی نظام مرکزیت کا حامل ہے اور بہت کم نوعیت کے اختیارات نجی اداروں کو حاصل ہیں اور یہ نجی ادارے عام لوگوں کو ملازمت دینے کے لیے بھی بہت زیادہ آزادی نہیں رکھتے۔کیوبا کی حکومت نے قیمتوں کے تقرر،معاوضوں کی ادائگی اور کوٹہ کے نظام یا راشن بندی پربہت زیادہ سختی کررکھی ہے۔’’سنٹرل پلاننگ بورڈ‘‘نامی سرکاری ادارہ جو ایک وفاقی وزیر کی زیرسرپرستی کام کرتا ہے ،اس سرکاری ادارے اور اسکی ذیلی سرکاری تنظیموں کو ملکی معیشیت پر مکمل دسترس اور اختیارات حاصل ہیں۔یہ سب کچھ اشتراکی نظام کی وجہ سے ہے اورسقوط ماسکو کے بعد سے کیوبا کو بہت سخت ایام کا سامنا ہے ۔گزشتہ کئی صدیوں سے چینی اور گنا یہاں کی آمدن کا سب سے بڑا ذریعہ رہا ہے لیکن بیسویں صدی کے آخر سے سیاحت بھی یہاں کی آمدنی کا ایک وقیع ذریعہ بن چکی ہے۔یہاں کے پچیس فیصد رقبے پر جنگلات بھی موجود ہیں لیکن لکرٰ ی نے یہاں کی معیشیت پر کوئی بہت اچھے اثرات مرتب نہیں کیے۔تیتیس فیصد رقبہ قابل کاشت ہے اوربعض علاقے تو بہت زرخیز ہیں اور سال بھر میں دودوفصلیں بھی یہاں سے اٹھائی جاتی ہیں۔چاول یہاں بہت اگتے ہیں اور کھائے بھی جاتے ہیں۔کھٹے پھل،کیلے،ٹماٹر،آلواور بہت سے مقامی پھل اور سبزیاں یہاں کی عمدہ پیداوار ہیں۔کیوبا کا تمباکوبھی دنیا کے باذوق لوگوں میں کافی مشہور ہے ۔کیوبا اپنی خوراک کی ضروریات اپنے ہی مویشیوں سے پوری کر لیتا ہے لیکن پٹرولیم اور گیس کے لیے اسے بعض اوقات دوسری دنیاؤں کی طرف بھی دیکھنا پڑتاہے۔ملک بھر میں ایک سو سنتالیس ہوائی اڈے ہیں،چارہزار کلومیٹر سے لمبی ریلوے لائین ہے ،ساٹھ ہزار کلومیٹر سے زائد طویل سڑکیوں کاجال پورے ملک میں پھیلا ہے اورمحض دوسوچالس کلومیٹر پانی کے راستوں کو بھی ذرائع نقل و حمل کے لیے کارآمد بنایا گیاہے۔انقلابی افواج کیوبا کا دفاع کرتی ہیں۔فوجی تربیت تمام شہریوں کے لیے حکومت نے لازم قرار دی ہوئی ہے۔

سیاسی طور پر کیوبا ایک اشتراکی جمہوریہ ہے،لیکن دنیا اس بات کو اچھی طرح سمجھتی ہے اشتراکی جمہوریت محض آنکھوں میں دھول جھونکنے والا امر ہوتا ہے ۔آمریت ہی ایسے ملکوں کا مقدر ہوتی ہے چنانچہ کم و بیش نصف صدی تک فیڈرل کاسترو اس ’’جمہوریہ‘‘کے صدر رہے اور صدر ہونے کے ساتھ ساتھ وہ سربراہ مملکت بھی تھے سربراہ حکومت بھی تھے،کیمونسٹ پارٹی کے پہلے سیکرٹری بھی تھے اورملکی افواج کے سپہ سالاراعظم بھی تھے اور اسکے باوجود بھی یہ ملک جمہوریہ ہے۔ملک میں 1976کا آئین نافذ ہے اور1992میں اس آئین میں کئی ترامیم بھی کی گئی ہیں۔یہاں کی قومی اسمبلی چھ سو اراکین پر مشتمل ہوتی ہے اور پانچ سال اسکی کل عمر ہوتی ہے۔اسمبلی کی نشستیں آبادی کے ساتھ ساتھ بڑھتی رہتی ہیں۔اسمبلی کا اجلاس سال بھر میں دو دفعہ ہوتا ہے اور یہ اسمبلی اکتیس اراکین پر مشتمل ایک کونسل بنادیتی ہے جو صدر مملکت کی قیادت میں کابینہ کے طرز پر کام کرتی ہے اور اسکے اجتماعات ساراسال منعقد ہوتے رہتے ہیں ،انتظام سلطنت کے ساتھ ساتھ قانون سازی بھی یہی کونسل کرتی ہے۔ملک میں چودہ صوبے ہیں اور کل ایک سو ستر بلدیاتی ادارے ہیں جن کے ارکان ڈھائی سالوں کے لیے منتخب ہوتے ہیں۔کیمونسٹ پارٹی ان اداروں پر بری طرح چھائی ہوئی ہے اور یہ یہاں کی واحد پارٹی ہے کیونکہ اشتراکی ملکوں کا نظام سیاست ایک سے زیادہ پارٹیاں برداشت نہیں کرسکتا۔یہاں کی عدلیہ ایک سرکاری ادارے کے تحت کام کرتی ہے اور سپریم کورٹ یہاں کی اعلی ترین عدالت ہے۔اسپینی قانون میں ترمیم کر کے یہاں رائج کیاگیاہے کچھ قوائد امریکی قوانین سے بھی ماخوذ ہیں لیکن اشتراکی فکر بہرحال غالب ہے۔

کیوبا میں مسلمان جو 1%ہیں، اپنے گھروں میں ہی نماز ادا کرتے ہیں کیونکہ ہواناجیسے شہر میں بھی کوئی مسجد نہیں ہے۔جمعہ کے لیے البتہ فرزندان توحید ایک ’’عرب ہاؤس‘‘نامی گھر میں جمع ہوتے ہیں اور یہ فریضہ اداکرتے ہیں۔مکہ مکرمہ میں بنی ہوئی مسلم ورلڈ لیگ نے توقع ظاہرکی ہے کہ کیوبا کی حکومت جلد ہی اس ابات پر راضی ہو جائے گی کہ اپنے ملک میں مسلمانوں کو ایک تنظیم بنانے کی اجازت دے تاکہ مسلمانوں کے اجتماعی معاملات کی نگرانی اورانکے مفادات کا تحفظ کیا جاسکے۔اس سلسلے میں کچھ ہی عرصہ پہلے مسلم ورلڈ لیگ نے کیوبا کا دورہ کیاہے اور وہاں کے اعلی حکومتی ذمہ داروں سے ملاقات کی ہے۔پس اب تک وہاں کی حکومت نے نہ ہی مسجد بنانے کی اجازت دی ہے اور نہ مسلمانوں کو کوئی ایسی تنظیم بنانے دی ہے جو انکے معاملات کی ذمہ دار ہو۔حال ہی میں کیوبا کی ایک مقامی خاتون نے اسلام قبول کیاہے اور اس نے بھی اپنے گھر کے دروازے نمازیوں کے لیے کھول رکھے ہیں۔مسلم ورلڈ لیگ نے اب توسیع اسلام کی خاطر بہت سی کتب اور مبلغین کو کیوبا بھیجنے کا فیصلہ کیاہے۔

Dr Sajid Khakwani
About the Author: Dr Sajid Khakwani Read More Articles by Dr Sajid Khakwani: 470 Articles with 572435 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.