مفت تعلیم کا نعرہ اور درسی کتا بیں

ہرما ں با پ کی خواہش ہو تی ہے کے اس کی اولاد اچھی تعلیم حا صل کر کے اعلٰی مقام پر پہنچے لیکن یہ خواہش اب امیروں کا مقدر بن کر رہ گئی ہے آخر کیوں نہ امیروں کا مقدر بنے جب حکو متی مشینری عوام کو مختلف حصوں میں تقسیم کر نا شروع کر دے تو غریب کے بچے کتا بوں کے لئے ترستے ہی نظر آئیں گے جی میرا اشارہ سرکاری اسکولوں میں درسی کتا بوں کی مفت تقسیم کی طر ف ہے۔سرکاری اسکولوں میں گزشتہ سات سالوں سے مفت درسی کتا بوں کی تقسیم کا سلسلہ شروع کیا ہو اہے مگر افسوس سات سال گزرنے کے باواجود کتا بوں کی تقسیم کا مسلہ حل نہیں ہو پا رہا جب سندھ حکو مت کو یہ معلوم ہے کے ہم نے کتا بیں بچوں کو مفت دینی ہیں تو کتا بوں کی چھپا ئی سے لے کر کتا بوں کی تقسیم میں دیر کیوں کی جا تی ہے یہ ایک سوالیہ نشان ہے ۔ہمارے ہاں تعلیم حا صل کر نے کے تین سسٹم ہیں اردو میڈیم ،سندھی میڈیم اور انگلش میڈیم ۔انگلش میڈیم جو امیروں کا مقدر بن گیا ہے اور غریب کی پہنچ سے دور ہے کیو نکہ اس سسٹم کو پرائیویٹ سیکڑ نے حائی جیک کیا ہو اہے جب کے سندھی میڈیم کو حکو مت سپورٹس کر رہی ہے اس کا اندازہ بخو بی لگا یا جا سکتا ہے کے حکو مت کی جا نب سے مفت سندھی سلیبس اس وقت تقسیم ہو چکا ہے جب کے عام مارکیٹ میں بھی دستیاب ہے ۔اگر اردو میڈم کی بات کی جا ئے تو ابھی تک سندھ بھر میں ستر فیصد اسکول ایسے ہیں جہاں ابھی تک حکو مت کی طر ف سے مفت کتا بوں کی تقسیم نہیں ہو سکی اور نہ ہی اردو میڈیم کی کتا بیں مارکیٹ میں دستیاب ہیں ۔یہ کو ئی پہلی مر تبہ نہیں ہو رہا سات سالوں سے یہی ہو رہا ہے میڈیا میں اس مسئلے پر چیخ پکار ہو تی رہتی ہے مگر کو ئی سنوائی نہیں ہو تی ۔سیاسی مسئلے میں عدالتوں میں پٹیشنوں کے ڈھیر لگ جا تے ہیں مگر تعلیمی مسلے پر کو ئی بھی پٹیشن یا سو مو ٹو نہیں لیا جا رہا اس سے یہ ثا بت ہو تا ہے کے ہمارے لیڈر کعلیمی مسلے میں کتنی دلچسبی رکھتے ہیں ۔ایک طر ف تو اسمبلی میں قراداد پا س کی جا تی ہے کہ جو والدین اپنے بچوں کو اسکول نہیں بھیجیں گے انکے خلاف قا نونی کاروائی کیا جا ئے گی مگر ان اداروں کے سر براہو ں کے خلا ف قا نونی کا رو ا ئی کیو ں نہیں کی جا تی جو کتا بوں کی چھپا ئی سے لے کر تقسیم تک رکاوٹ بنتے ہیں ۔ اآپ نے سنا ہو گا کہ وزیر تعلیم سندھ نثا راحمد کھو ڑو سندھ بھر میں دو ہزار بند اسکول کھلوانے میں مصروف نظر آرہے ہیں اسکو ل کھل جا ئیں اور بچے بھی آجا ئیں استاد بھی موجود ہو نگے مگر کتا بیں نہ ہو ئی تو ساری محنت رائیگا ں جا ئے گی۔ دیکھا جا ئے تو 4جو ن کو موسم گر ما کی تعطیلات کا اعلان بھی ہو چکا ہو مگر ابھی تک قوم کے معمار کتا بوں کی طرف دیکھ رہے ہیں اگر جا ئزہ لیا جا ئے تو مارچ میں امتحان اور اپریل میں نئی کلاسیں شروع ہو جا تی ہیں اپریل سے جون تک دو ماہ گزر نے کے با واجود مسلے کا حل نہیں نکل سکا اگر ابھی بھی کتا بوں کا مسلہ حل نہیں کیا گیا توتعطیلات ختم ہو نے تک یعنی ستمبر کے مہنے تک کر وڑوں بچو ں کا تعلیمی مستقبل داؤپر لگ جا ئے گا۔دیکھا جا ئے تو اپریل سے ستمبر تک پا نچ ماہ اگر بچوں کے پاس کتا بیں نہ ہو ں تو اچھی تعلیم اور پڑا لکھا پا کستان کا خواب کیسے دیکھا جا سکتا ہے ۔

ہماری اعلٰی عدالتیں دیگر ایشوپر تو سو موٹو لیتی نظر آرہی ہیں مگر تعلیم ایک ایسا مسلہ جس کے اثرات آنے والی نسلوں پرمرتب ہو تے ہیں اس مسلے پر عدالتوں کی طرف سے بھی کو ئی نو ٹس نہیں لیا جا رہا اگر نعروں کی بات کی جا ئے تو نعروں کی بھی مختلف قسمیں ہیں ۔جیسے سیاسی نعرے ،جذبا تی نعرے ،زاتی مفاد کے نعرے ،حق پرستی کے نعرے اور زبا نی کلامی نعرے ۔ان نعروں میں کچھ نعرے کھو کھلے ثا بت ہو تے ہیں اور کچھ وقت کے ساتھ اپنی مدت پو ری کر دیتے ہیں دیکھنا یہ ہے کے سندھ حکو مت کی جانب سے لگا ئے جا نے والا مفت تعلیم کا نعرہ کار آمد یا کھو کھلا ثا بت ہو تا ہے یہ آنے والا وقت بتا ئے گا ۔
Ghulam Mustafa Tareen
About the Author: Ghulam Mustafa Tareen Read More Articles by Ghulam Mustafa Tareen: 2 Articles with 1183 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.