اپنے گریبان میں جھانکنا صداقت ہے اور یہ صداقت مشکل ترین
محاسبہ ہے۔
دس سال ہوئے اس بات کو کہ جب میں نے اپنے ایک قریبی اخبار نویسی سے پوچھا
تھا کہ آپ کی اخبار میں چھپنے والی جنسی جرائم کی خبروں میں کہاں تک اور
کتنی صداقت ہوتی ہے تووہ صاحب سوالیہ انداز میں بولے کہ صداقت کون پڑھتا
ہے؟پھر پوچھا کہ کیا یہ من گھڑت افسانے ہیں ؟ جواب ملا کہ تقریباً۔پوچھا ان
خبروں میں صداقت کتنی ہوتی ہے تو بولے ہفتہ میں ایک خبر یا وہ بھی نہیں۔
پوچھا کہ چھاپنے کا مقصد ؟ بولے: سرکولیشن بڑھانا۔سرکولیشن کیسے بڑھائی
جاتی ہے تو بولے اسی طرح کی خبروں کا ’’تڑکا‘‘ لگا کر ۔وجہ پوچھی تو بولے :دوسری
خبروں کو عوام وقت دیں یا نہ دیں، ایک دوسرے کے ساتھ ڈسکس کریں یا نہ کریں
، پوری خبر پڑھیں یا نہ پڑھیں ایسی خبروں کوعوام وقت بھی دیتی ہے، ایک
دوسرے کے ساتھ ڈسکس بھی کرتی ہے اور الف سے یے تک پڑھتی بھی ہے، باقی خبریں
ایک طرف اور یہ ایک دو خبریں ایک طرف۔
سرکولیشن پڑھانا ایک جنون ہے اور یہ جنون تنگ دست ہونے کا ہے جب کہ ارباب
اختیار کا طریقہ کار بھی کچھ پسندیدہ نہیں ہے عوام کا اس پر مذکورہ بالا
ردعمل المیہ ہے ، بہت بڑا المیہ۔
ہدایت سامنے ہے اور واضح بھی ہے ، سورۃ البقرہ آیت 268میں ارشاد باری تعالیٰ
ہے ’’ شیطان تمھیں تنگ دستی کا خوف دلاتا ہے اور بے حیائی کے کام کرنے کو
کہتا ہے اور اﷲ تم سے اپنی بخشش اور رحمت کا وعدہ کرتا ہے اور اﷲ کشائش
والا ہے سب کچھ جاننے والا ہے‘‘
سال ہوا ہے کہ پڑوسی ملک میں ایک طالبہ کے ساتھ چلتی بس میں ظلم ہوا ، خود
کشی ہوئی اور انڈین عدالت نے ملزمان کے لیے سخت ترین سزا ، سزائے موت
لکھی۔سخت سے سخت سزا ہوئی ، سزا اور ملزم عبرت کا نشانہ بنے مگر ۔۔۔مگر
حالات جوں کہ توں۔کیا یہ سخت سے سخت سزائیں ایسے ظلم کا تدارک کر سکتی
ہیں؟اگر کر سکتی ہیں توپھر اسی ملک میں چھے ماہ بعد پھر ایک ایسا واقعہ
کیوں ہوا ؟حالاں کہ اس پر بھی سزائیں ہوئیں اور سخت سے سخت سزائیں، خود
کشیاں ہوئیں مگر حالات ابھی بھی جوں کہ توں ہی ہیں۔
کچھ ماہ گزرے ہیں ملک خداداد پاکستان میں ظلم ہوا ، تھانے کے سامنے ایک
بیٹی نے انصاف نہ ملنے پر خود سوزی کی جو بعد میں اﷲ کو پیاری ہو گئی ،
ملزم پکڑے گئے، قانونی چارہ جوئی جاری ہے مگر حالات جوں کہ توں ہی ہیں۔آئے
دن دل کو دہلا دینے والی خبر جسم میں سرایت کرکے دل چیر دیتی ہے اور ذہن
ماؤف ہو جاتا ہے ۔ اس ظلم کے بعد متاثرین کو کیش کیا جاتا ہے ، کیمرے
تصاویر بناتے ہیں اور قلم جھوٹے قصیدوں کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں،سخت سے
سخت سزاؤں کا دلاسہ دیا جاتا ہے، ملزموں کو للکارا جاتا ہے کہ وہ بچ کر
نہیں جاسکتے ہیں ،مظلوم بیٹی ، ماں اور بہن کے سر پر ہاتھ رکھے جاتے ہیں ،
نم آنکھیں میڈیا کو دکھائی جاتی ہیں مگر اس کے بعد کیا ہوتا ہے ،کچھ بھی
نہیں اور ہونا بھی کچھ نہیں ہے ۔اتنا تضادکیوں؟تجسس بڑھا تو جواب ملا کہ
دکھاوا، عملی کام کرنے میں رکاوٹ ہے اور دکھاوا وہ ہمت پست کر دیتا ہے جس
کے بل بوتے پر فلاح و بہبود کا کام عملاًکیا جاتا ہے کیوں کہ جو دکھاوا
کرتے ہیں و ہ عملی کچھ نہیں کرتے اور جو عملی کچھ کر کے دکھاتے ہیں وہ
دکھاوا نہیں کرتے ہیں ۔
کچھ عرصہ بعد پھر ایسا ہی دل سوز واقعہ نمو دار ہوتا ہے اور پھر وہی دلاسے
، وہی ڈائیلاگ، وہی سخت سے سخت سزاؤں کی امیدیں، وہی لفظوں کے جال، دکھوں
کا مداوا کرنے کے لیے وہی شفقت بھرے ہاتھ، میڈیا کے سامنے نم آنکھیں اور
پھر ایک گہرا سکوت۔۔۔یہ سکوت کب تک؟ تب تک جب تک نیا سانحہ نہیں ہوتا۔
گلی کوچوں ، تھڑوں ، دکانوں اور ڈرائنگ روموں میں ان مظالم پر تبصرے ،
مبصرین کا بڑھ چڑھ کر موقف اور موقف بھی ایک’’نشان عبرت بنا دیا جائے‘‘اور
پھر ان تبصروں کے بعد عوام بھی ریلکس کہ حق ادا ہو گیا اور پھر ارباب
اختیار والا گہرا سکوت یہاں بھی برجمان۔
کیا ارباب اختیار کا اختیار بس اتنا ہی تھا کہ دو چار ڈائیلاگ مار لیے ،
مظلوم کے سر پر ہاتھ پھیر لیا ، آنکھیں نم کر کے تصاویر بنا لی یا پھر
زیادہ سے زیادہ ایک دو پولیس اہلکاروں کو معطل کر دیا؟؟جب کے عوام کا
اختیار صرف مباحثہ اور لعن طعن کے سوا کیا ہے کچھ نہیں؟شاید اس سے بھی
زیادہ ہے کہ جذبادیت دکھا کر انڈے اورسیاہی پھینک دیں گے اس کے بعد یہ بھی
اپنے فرض سے مستثنیٰ۔۔۔
دکھاوے کے یہ دلاسے اور جذبادیت سے بھر پور سیاہی اور انڈوں کا پھینکنا کیا
ان واقعات کا سد باب کر سکتے ہیں ؟ یقینانہیں بل کہ کبھی نہیں اور نہ ہی
سخت سے سخت سزا ان سانحات کے روک تھام کا موجب بن سکتی ہیں اگر یہ ایسا
ہوتا اور یہی ان سانحات کا سد باب بھی ہوتا تو یقینا یہ سانحات بڑھ نہ رہے
ہوتے ۔بیماری کسی اور عضو کی ہو اور علاج کسی اور عضو کا کیا جائے تو
بیماری کم نہیں زیادہ ہی ہو گی۔ |