گلستان زندگی کو یہ تعفن آلود ہ کردے گا

تما م تعریفیں اللہ عزوجل ہی کے لئے ہیں جس نے اشیاکو اپنی قدرتِ لطیف کے لطائف اور صنعتِ بدیع سے انتہائی خوبی کے ساتھ پیدا فرمایا ،۔۔۔۔ اس نے موجودات کو بغیر کسی سابقہ مثا ل کے پیدا کیا اور اِس تخلیق میں اُس کا کوئی شریک نہیں،۔۔۔۔۔۔ اس نے مختلف اقسام کے لطیف وکثیر جواہر کوجمع فرمایا تاکہ اس کی وحد انیت کا اقرار کیا جائے اور بنی ہوئی اشیاء سے بنانے والے کے وجود پر دلیل قائم کی جاسکے۔۔۔۔ سچے ربّ نے اپنے بندوں کو بھی سچ کاپرچارکرنے کا حکم ارشاد فرمایا۔اخلاق رزیلہ سے بچتے رہنے کا فرمان جاری فرمایا ۔۔ انسان کو اپنی تخلیق کا عظیم مظہر پیدافرمایااور اسےتاج اشرف المخلوقات سے بہرہ مند فرمایا۔

محترم قارئین!
ہم اپنے معاشرے میں ہیجانی کیفیت دیکھ رہے ہیں ۔چہروں پر بے چینی ،رشتوں میں تشنگی ،اخلاق میں خفگی نظر آرہی ہے ۔بے اعتمادی ،عدم تحفظ کی کیفیت پروان چڑھ رہی ہے۔والدین اولاد کے رویہ ،مزاج سے بہت پریشان ہیں ۔ان پریشانیوں میں بہت سے عوامل کارفرماہیں ان میں ایک عامل "جھوٹ"بھی ہے ۔ والدین کی ذمہ داری اور تربیت اولاد کے حوالے سے آج ہم جھوٹ کی قباحتوںاور اس کے محرکات اور نقصانات کے حوالے سے بات کریں گئے۔ جھوٹ گناہ کبیرہ ہے ۔سب سے پہلے جھوٹ کی تعریف جانتے ہیں کہ جھوٹ کہتے کسے ہیں ۔

تعریف:
خلاف واقعہ بات کو "جھوٹ" کہتے ہیں ۔
ہمارے معاشرے میں جھوٹ کا مرض بہت تیزی کے ساتھ پھیلتاچلاجارہاہے ۔معاذاللہ برائی ہی تصور نہیں کیا جاتا ۔ایسے حالات میں بچوں کا اس سے بچنابہت دشوار ہے ۔ہمیں چاہیے کہ بچپن ہی سے جھوٹ کے خلاف نفرت بٹھادیں ۔تاکہ وہ بڑے ہوکر سچ بولنے کے عادی ہوجاءیں اور اپنی اچھی عادت پر قائم رہیں ۔

قابل توجہ امر:
اللہ عزوجل جب اولاد کی نعمت سے مالامال فرماتاہے تو والدین کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ ان کی اولاد سب سے نمایاں ہوں ،ممتاز ہو،کردار و گفتار کا شاہکارہو۔لیکن والدین کے لیے وہ بڑا اذیت ناک اور دکھ بھرا لمحے ہوتے ہیں جب وہ اپنے بچوں کی اچھی مُثبت تربیت کے لیے اپنی تمام تر اچھی صلاحیات اور وسائل کا استعمال کرنے کے بعد اور اپنے طور پر ان کی اچھی تربیت کرنے کے بعد دیکھیں کہ ان کے بچے یا بچوں میں سے کوئی جُھوٹ بولتا ہے ،،،،، لیکن ایسے اکثر والدین یہ نہیں جانتے کہ ان کی اس اذیت اوردُکھ کے اسباب کیا ہیں ، اور اس لاعلمی کی بنا پر وہ اپنی صلاحیات اور وسائل کسی مثبت نتیجےکے حصول کی کوشش میں خرچ کرتے رہتے ہیں لیکن مطلوبہ نتیجہ حاصل نہیں کر پاتے ،چنانچہ کسی بھی کام کو روکنے کے لیے اُس کام کے ہونے کے اسباب جاننا بہت ضروری ہے ، اور اُن اسباب کو ختم کرنا ہی ایک ایسا واحد ذریعہ ہے جو اس کام کو مکمل طور پر ختم کرنے والا ہوتا ہے۔جس کی بنیاد پر صحت افزا ثمرات موصول ہوتے ہیں ۔

جھوٹ بولنے کی وجوہات یا جو جھوٹ جیسے مرض میں مبتلاکرنے کے محرک ہیں :
(۱)سزاکاڈریا بے جا جھڑک
بچوں کے جھوٹ بولنے کے محرکات میں سے ایک محرک سرپرست یا اہل خانہ کی جان سے بچوں کی غلطیوں پر ان کو شدید سزائیں دی جاتی ہوں ، خواہ بدنی ہوں یا نفسیاتی ۔ بات بات پر ممانعت ، پوچھ گچھ ، ڈانٹ ڈپٹ اور بسا اوقات مار پیٹ بھی ۔ایسے حالات میں پلنے والے بچے خود کو قید ی سمجھ بیٹھتے ہیں ۔وہ ہر وقت کی ممانعت ،پوچھ گچھ ،ڈانٹ ڈپٹ، اور مار وغیرہ سے بچانے کے لیے جُھوٹ کا سہارا لینا شروع کرتے ہیں ،تاکہ وہ اپنی ذات کو محفوظ رکھ سکیں یوں بتدریج جُھوٹ بولنا ان کی عادت بن جاتاہے ۔

(۲)بڑوں کی عادات کو اختیار کرنا:
بچہ یا بچی اپنے گردونواح سے سیکھ سیکھ کر اسے اپنانے کی کوشش کرتاہے ۔وہ جو کچھ اپنے بڑوں کو کرتا دیکھتاہے وہ اس کی نقالی کرتاہے ۔جب وہ اپنے بڑوں اور بالخصوص اپنے والدین کو مختلف کاموں کے بارے میں جُھوٹ بولتے دیکھتا ہے کہ اس کے والد یا والدہ اپنی شخصیات کے بارے میں ، اپنے مال و جائداد کے بارے میں اور دیگر کئی معاملات میں جُھوٹ بولتے رہتے ہیں ، بچہ والدین کی ایسی حرکات دیکھ کر ان حرکات کو اچھا اور فائدہ مند سمجھنے لگتا ہے اور ان کا شکار ہو جاتا ہے ۔

(۳)والدین کا جھوٹ بلوانا:
کبھی والدین یا دونوں میں سے کوئی ایک یا کوئی اور بڑا اپنے آپ کو کسی ممکنہ پریشانی یا ناپسندیدہ کام سے بچانے کے لیے اپنے پاس موجود بچوں کو جُھوٹ بولنے کا کہتا ہے ، مثلاً کسی مہمان کی آمد کے وقت جسے یہ ملنا نہ چاہتا ہو بچے سے کہلوانا کہ فُلاں گھر پر نہیں وغیرہ۔

(۴)جھوٹا کہہ کر پکارنا
کسی بچے کو کبھی کبھار جُھوٹ بولنے کے سبب بڑوں کی طرف سے جُھوٹا ہی کہے جاتے رہنے کی وجہ سے وہ بچہ غصہ میں آ کر انتقامی طور پر واقعتا جُھوٹ بولنے لگتا ہے ۔

یا کبھی والدین بچے کو اس کی کسی پسندیدہ جگہ لے جانے کے نام پر کسی ناپسندیدہ جگہ لے جاتے ہیں ، مثلاً پارک وغیرہ لے جانے کے نام پر ڈاکٹر کے پاس لے جائیں .یا کبھی بچے سے کسی خاص کام کرنے کی صورت میں کوئی انعام دینے کا وعدہ کرنا اور وہ انعام نہ دیا جانا ، وغیرہ ،تو ایسے میں یہ بچہ انتقامی طور پر جھوٹ کی روش اختیارکرتاہے ۔

(۵)ایک زہر آلود فکر
بچوں اور بعض اوقات سچوں کے جھوٹے بننے کے بڑے اسباب میں سے ایک یہ سبب بھی ہے کہ معاشرے میں سچے لوگوں کے لیے عام طور پر یہ غلط نظریہ پایا جاتا ہے کہ یہ صاف دِل اور سیدھے سادھے لوگ ہوتے ہیں ، اس لیے مضبوط طور پر کاروبار نہیں کر سکتے اور نہ ہی لوگوں سے معاملات نمٹا سکتے ہیں ، یعنی ٹھیک طرح پبلک ڈیلنگ نہیں کر سکتے ، اور اب اس زمانے میں اس طرح سچ بولنے کا وطیرہ فائدہ مند تو کیا نُقصان دہ ہے ، کیونکہ لوگ تو یہاں اپنی ذہانت اور عقلی بُہادری کے ذریعے طرح طرح کی باتیں کر کے دوسرے لوگوں سے ہر قسم کے فائدے حاصل کرتے ہیں اور یہ سچ بولنے والے اکثر نقصان ہی اٹھاتے ہیں ، وغیرہ وغیرہ .نہ صرف یہ بلکہ اگر غور کرتے چلے جائیں تو ہمیں اس کے بہت سے محرکات نظر آتے چلے جائیں گے۔

جھوٹ بولنے والےکی حرکات اور نفسیات:
ہم اس معاشرے کا حصّہ ہیں بہت سی چیزوں کو سیکھنے کے لیے ہمیں کسی ماہر استاد یا کسی ضخیم کتاب کی حاجت نہیں ہوتی بلکہ سماج،معاشرے سے غیر محسوس انداز میں سیکھ رہے ہوتے ہیں ۔جھوٹ بولنے والوں کی بعض حرکات جنھیں ماہرین نفسیات نے قلمبند کیا نفع عام اور اشاعت دین کی نیت سے آپ کی خدمت میں بھی پیش کرتاچلوں ۔جھوٹ بولنے گفتگو کے دوران ہاتھ اور بازوں کی حرکت اور چہرے کے تاثرات سچ اور جھوٹ ظاہر کردیتے ہیں۔کیونکہ جھوٹے شخص کے چہرے پر تناؤ ہوتا ہے اور ہاتھوں اور بازوں کی حرکت اس کی گفتگو کا ساتھ نہیں دے رہی ہوتی۔جھوٹا شخص آنکھ ملاکر بات کرنے سے کتراتا ہے۔ جھوٹ بولنے والا غیر ارادی طور پر اپنے چہرے، گردن اور منہ پر ہاتھ پھیرتا رہتا ہے اور ناک یا کان کو کھجاتا نظر آتا ہے۔آپ صرف مسکراہٹ دیکھ کر ہی یہ قیاس کرسکتے ہیں کہ آپ کا مخاطب سچ بول رہا ہے یا سچ کو چھپا رہا ہے۔ کیونکہ انسانی جذبات جھوٹ کاساتھ نہیں دیتے۔ اگر کوئی شخص اپنی گفتگو میں مسرت، دکھ یا محبت کا اظہار کررہاہو اور وہ اپنے اظہار میں سچا نہ ہوتو اس چہرے پر تاثرات تاخیر سے ظاہر ہوں گے اور اچانک غائب ہوجائیں گے۔ جب کہ سچے جذبات اظہار سے پہلے چہرے پر آجاتے ہیں اور دیر تک برقرار رہتے ہیں۔جھوٹ بولنے والے کئی افراد اپنی باتوں کا یقین دلانے اور نارمل نظر آنے کے لیے مسکراہٹ کا سہارا لیتے ہیں۔ حقیقی مسکراہٹ میں چہرے کے سارے اعصاب حصہ لیتے ہیں اوردیکھنے والے کو پورا چہرہ کھلا ہوا سا دکھائی دیتا ہے۔ سچی مسکراہٹ دیر تک قائم رہتی ہے اور آہستہ آہستہ تحلیل ہوتی ہے۔ جب کہ زبردستی کی مسکراہٹ صرف ہونٹوں اور اس کے آس پاس کے اعصاب تک محدود رہتی ہے۔ مصنوعی مسکراہٹ کے دوران گال اور آنکھوں کی بھوئیں اپنی نارمل حالت میں رہتی ہیں۔ماہرین کا کہناہے کہ جھوٹا شخص گفتگو میں دفاعی انداز اپناتا ہے جب کہ سچے کا رویہ عموماً جارحانہ ہوتا ہے۔جھوٹے سے اگر کچھ پوچھا جائے تو اس پر گھبراہٹ طاری ہوجاتی ہے، جسے وہ چھپانے کے لیے اپنے سراور گردن کو بار بار حرکت دیتا ہے۔

یعنی ہم نے جھوٹ کے محرکات پر کافی حدتک غورکرلیا کہ کن کن مقامات پر اس جھوٹ کے تعفن کو پھیلانے میں ہمارا ہاتھ ہے اور کہاں کہاں ہمارے مدنی منّوں و منّیوں کے ذہن جھوٹ سے آلودہ ہورہے ہیں ۔جب مرض کا معلوم ہوگیا۔تو اب اس کے علاج و اسباب کے لیے کوشش کرنے کی ضرورت ہے ۔

والدین یہ دو باتیں ذہن نشین کرلیں۔کافی حد تک کام آسان ہوجائیگا۔
(1) بچے کوجُھوٹ بولنے کے اسباب سے محفوظ رکھنا ،
(2) اگر وہ کبھی جُھوٹ بولے تو اس کو اُس سےمنع کرنا اور جُھوٹ کے دینی اور دنیاوی اور اُخروی نُقصانات کے بارے میں سمجھانا۔

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!ہم پر اللہ عزوجل کا کتنا کرم ہے کہ اس نے ہمیں ایمان کی دولت عطافرمائی ہمیں اسلام کی نعمت سے سرفراز فرمایا۔ قران مجید فرقان حمید جیسا عظیم تحفہ عطافرمایا۔جس میں سچ کو پسند فرمانے والے رب عزوجل نے ارشاد فرمایا:
"لعنۃ اللہ علی الکذبین"
یعنی اللہ عزوجل نے جھوٹوں پر لعنت فرمائی ہے ۔مزید عبرت کے مدنی پھول حاصل کرنے کے لیے صادق و امین آقاﷺ کی زبان اطہر سے جھوٹ کی مذمت پر وعیدات سنیے اور عبرت حاصل کیجیے ۔

فرشتے کا اظہارحقارت
جھوٹ کتنی بری چیز ہے ۔اللہ عزوجل کے پیارے حبیب ﷺ نے ارشاد فرمایا:جب بندہ جھوٹ بولتاہے تو فرشتہ اس کی بدبوسے ایک میل دور ہوجاتاہے ۔(سنن الترمذی ۔کتاب البر و الصلۃ،ج۳،ص۳۹۲)

جھوٹ نفاق کی نشان ہے :
پیارے آقامدینے والے مصطفی ﷺ نے جھوٹ کو نفاق کی علامت ارشاد فرمایاہے ۔آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:منافق کی تین علامتیں ہیں ۔(۱)جب بات کرے تو جھوٹ بولے (۲)جب وعدہ کرے تو پورانہ کرے (۳)جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو خیانت کرے۔اگرچہ وہ نمازی ہو،روزے رکھنے والاہو،خود کو مسلمان سمجھتاہو۔
مفتی احمد یارخان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ مراۃ المناجیح ،ج۲،ص۲۳ پر ہےنقل فرماتے ہیں کہ "جھوٹ تمام گناہوں کی جڑہے"الامان والحفیظ

اللہ کے ہاں کذاب کہلانا:
حدیث :حضورنبی پاک ﷺنے ارشاد فرمایا:بندہ جھوٹ بولتارہتاہے اس میں خوب کوشش کرتارہتاہے حتی کہ اللہ عزوجل کے ہاں اسے کذّاب (بہت بڑاجھوٹا)لکھ دیاجاتاہے (بخاری،کتاب الاداب۔ج۴،ص۱۲۵،الحدیث۶۰۹۴)

رزق کی تنگی
حدیث:حضورﷺ نے ارشاد فرمایا:جھوٹ رزق کو تنگ کردیتاہے ۔(مساوی الاخلاق للخرائطی،باب ماجافی الکذب،ص۷۰،حدیث۱۱۷)

جھوٹے کے لیے ہلاکت ہے ۔
حدیث:حضورﷺنے ارشادفرمایا:ہلاکت ہے اس شخص کے لیے جو بات کرتاہے تو جھوٹ بولتاہے تاکہ اس کے ذریعے لوگوں کو ہنسائے ۔اس کے لیے ہلاکت ہے ۔اس کے لیے ہلاکت ہے۔(سنن ابی داءود،کتاب الادب،باب فی التشدیدفی الکذب،ج۴،ص۳۸۷،الحدیث۴۹۹۰)

سیرت و تواریخ کی کتابوں میں ایسے بہت سے واقعات موجو د ہیں جس میں جھوٹوں کے بدترین انجام کا ذکر ملتاہے ۔چنانچہ ایسی ہی ایک سبق آموز حکایت سنیے اور درس حاصل کیجیے !

حکایت
مرو ى ہے کہ حضرت سیدنا عیسى علیہ السلام ایک سفر پر جارہے تھے کہ راستے میں ایک شخص ملا جس نے آپ علیہ السلام سے عرض کى ۔ اے اللہ کے نبى میں آپ کى صحبت میں رہ کر آپ علیہ السلام کى خدمت کرنا اور علمِ شریعت حاصل کرنا چاہتا ہوں، مجھے بھى اپنے ساتھ سفر کى اجازت عطا فرمادیجئے۔ پس آپ علیہ السلام نے اسے اجازت عطا فرمادى اور یوں یہ دونوں ایک ساتھ سفر کرنے لگے،۔ چلتے چلتے راستے میں ایک نہر کے کنارے پہنچے تو آپ علیہ السلام نے فرمایا ’’آؤ کھانا کھالیں ‘‘ دونوں کھانا کھانے لگے، آپ علیہ السلام کے پاس تین روٹیاں تھیں جب دونوں ایک ایک روٹى کھا چکے تو آپ علیہ السلام نہر سے پانى نوش فرمانے لگے، پیچھے سے اس شخص نے تیسرى روٹى چھپالى، جب آپ علیہ السلام پانى پى کر واپس تشریف لائے تو دیکھا کہ تیسرى روٹى غائب ہے، آپ علیہ السلام نے اس شخص سے پوچھا ’’تیسرى روٹى کہاں گئى ؟‘‘ اس نے جھوٹ بولتے ہوئے کہا ۔ مجھے معلوم نہیں۔ آپ علیہ السلام خاموش ہو رہے، پھر تھوڑى دیر بعد آپ علیہ السلام نے فرمایا آؤ آگے چلیں ۔

دورانِ سفر آپ علیہ السلام نے راستے میں ایک ہرنى کو اپنے دو خوبصورت بچوں کے ساتھ کھڑے دیکھا تو ہرنى کے ایک بچے کو اپنى طرف بلایا ، وہ آپ علیہ السلام کا حکم پاتے ہى فورا حاضر خدمت ہوگیا۔ آپ علیہ السلام نے اسى ذبح کیا، بھونا اور دونوں نے مل کر اس کا گوشت کھایا۔ گوشت کھانے کے بعد آپ علیہ السلام نے اس کى ہڈیاں ایک جگہ جمع کیں اور فرمایا ۔ قم باذن اللہ، یعنى اللہ عزوجل کے حکم سے کھڑا ہوجا۔ تو یکایک ہرنى کا وہ بچہ زندہ ہوگیا، اور پھر اپنى ماں کے پاس چلا گیا۔ اس کے بعد آپ علیہ السلام نے اس شخص سے فرمایا۔ تجھے اس اللہ عزوجل کى قسم جس نے مجھے یہ معجزہ دکھانے کى قدرت عطا کى ، سچ سچ بتا وہ تیسرى روٹى کہاں گئى ؟ وہ بولا مجھے نہیں معلوم ۔ تو آپ علیہ السلام نے فرمایا۔
چلو آؤ آگے چلیں۔
چلتے چلتے ایک دریا پر پہنچے تو آپ علیہ السلام نے اس شخص کا ہاتھ پکڑا اور پانى کے اوپر چلتے ہوئے دریا کے دوسرے کنارے پہنچ گئے، اب پھر آپ علیہ السلام نے اس شخص سے فرمایا، تجھے اس اللہ عزوجل کى قسم جس نے مجھے یہ معجزہ دکھانے کى قدرت عطا کى ، سچ سچ بتا وہ تیسرى روٹى کہاں گئى ؟ اس بار بھى اس نے یہى جواب دیا کہ مجھے نہیں معلوم، تو آپ علیہ السلام نے فرمایا ۔ آؤ ! آگے چلیں۔
چلتے چلتے ایک ریگستان میں پہنچ گئے جہاں ہر طرف ریت ہى ریت تھى۔ آپ علیہ السلام نے کچھ ریت جمع کى اور فرمایا۔ اے ریت اللہ عزوجل کے حکم سے سونا بن جا،تو وہ ریت فورا سونا بن گئى۔ آپ علہ السلام نے اس کے تین حصے کیے اور فرمایا، ایک حصہ میرا ، دوسرا تیرا اور تیسرا اس کا جس نے وہ روٹى لى ،۔ یہ سنتے ہى وہ شخص جھٹ بول اُٹھا۔ ’’ وہ روٹى میں نے ہى لى تھى‘‘ یہ معلوم ہونے کے بعد حضرت سیدنا عیسىٰ علیہ السلام نے اس شخص سے فرمایا یہ سارا سونا تم ہى لے لو، بس میرا اور تیرا اتنا ہى ساتھ تھا۔

اتنا کہنے کے بعد آپ علیہ السلام اس شخص کو وہیں چھوڑ کر آگے روانہ ہوگئے، وہ اتنا زیادہ سونا مل جانے پر بہت خوش تھا، جب سارا سونا ایک چادر میں لپیٹ کر واپس گھر کو لوٹنے لگا تو راستے میں اسے دو شخص ملے جنہوں نے اس کے پاس اتنا سونا دیکھ کر اسے قتل کرکے سارا سونا چھین لینے کا ارادہ کرلیا۔

چنانچہ جب وہ اسے قتل کرنے کے ارادے سے آگے بڑھے تو وہ شخص جان بچانے کى خاطر بولا تم مجھے کیوں قتل کرنا چاہتے ہو ؟ اگر سونا لینا چاہتے ہو تو ہم اس کے تین حصے کرلیتے ہیں ، اور ایک ایک حصہ آپس میں بانٹ لیتے ہیں، وہ دونوں اس پر راضى ہوگئے ، پھر وہ شخص بولا کہ بہتر یہ ہے کہ ہم میں سے ایک آدمى تھوڑا سا سونا لے کر قریب کے شہر میں جائے اور کھانا خرید لائے تاکہ کھاپى کر سونا تقسیم کریں۔

بس ان میں سے ایک آدمى شہر پہنچا ، کھانا خرید کر واپس ہونے لگا تو اس نے سوچا ، بہتر یہ ہے کہ میں کھانے میں زہر ملا دوں تاکہ وہ دونوں کھا کر مرجائیں اور سارا سونا میں ہى لے لوں۔ یہ سوچ کر اس نے زہر خرید کر کھانے میں ملادیا، ادھر ان دونوں نے یہ سازش کى کہ جیسے ہى وہ کھانا لے کر آئے گا ہم دونوں مل کر اس کو مار ڈالیں گے اور پھر سارا سونا آدھا آدھا بانٹ لیں گے۔ چنانچہ جب وہ شخص کھانا لے کر آیا تو دونوں اس پر بل پڑے اور اس کو قتل کردیا۔ اس کے بعد خوشى خوشى کھانا کھانے کے لیے بیٹھے تو زہر نے اپنا کام کردکھایا اور یہ دونوں بھى تڑپ تڑپ کر ٹھنڈے ہوگئے اور سونا جُوں کا تُوں پڑا رہا۔

کچھ عرصے کے بعد حضرت سیدنا عىسى علىہ السلام کا واپسى میں وہاں سے گزر ہوا تو کیا دیکھتے ہیں کہ سونا وہیں موجود ہے اور ساتھ میں تین لاشیں بھى پڑى ہىں تو یہ دیکھ کر آپ علیہ السلام نے اپنے ساتھ موجود لوگوں سے فرمایا ’’دیکھ لو ! دنیا کا یہ حال ہے، پس تم پر لازم ہے کہ اس سے بچتے رہو۔

محترم قارئین! دیکھا آپ نے کہ اس شخص کو جھوٹ اور مالِ دنیا کى محبت نے برباد کردیا اور نہ اسے دولت ملى اور نہ ہى جھوٹ سے کوئى فائدہ ہوا بلکہ جان سے ہاتھ دھونے کے ساتھ ساتھ دنیاو آخرت کا نقصان بھى اٹھانا پڑا۔(اتحاف السادۃالمتقین،ج۹ص۸۳۵)
نہ مجھ کو آزما دنیا کا مال وزر عطا کرکے
عطا کر اپنا غم اور چشمِ گریاں یارسول اللہ

کامیاب زندگی گزارنے کے لیے انسان کامیاب لوگوں کا طرز زندگی اختیار کرتاہے ۔چنانچہ ہمارے لیے سب سے کامیاب ترین ہستی ۔ہماری آنکھوں کی ٹھنڈک ہمارے دل کا چین ۔سرورکونین حضرت محمد ﷺ ہیں ۔جن کی زندگی قیامت تک کے انسانوں یعنی ۔بچے ،جوان ،بوڑوں سبھی کے لیے یکساں مشعل راہ ہے ۔جیسا کہ قران مجید فرقان حمید میں ارشاد فرمایا: لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیۡ رَسُوۡلِ اللہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ

بے شک تمہیں رسول اللہ کی پیروی بہتر ہے۔(پ21،الاحزاب:21)

آج کو ن سا در در کھنے والا دل ہے جو مسلمانوں کی موجودہ پستی اور ان کی موجودہ ذلت وخواری اور ناداری پر نہ دکھتا ہو اور کون سی آنکھ ہے جو ان کی غربت، مفلسی ، بیر رز گاری پرآنسو نہ بہاتی ہو ، حکومت ان سے چھنی دولت سے یہ محروم ہوئے، عزت ووقار ان کا ختم ہوچکا زمانہ کی ہر مصیبت کا شکار مسلمان بن رہے ہیں۔ ان حالات کو دیکھ کر کلیجہ منہ کو آتا ہے مگر دو ستو فقط رو نے او ر دل دکھانے سے کام نہیں چلتا بلکہ ضروری ہے کہ اس کے علاج پر خود مسلمان قوم غور کر ے علاج کے لئے چند چیزیں سوچنا چاہیں ۔

اوّل یہ کہ اصل بیماری کیا ہے دو سرے یہ کہ اس کی وجہ کیا ؟ کیوں مرض پیدا ہوا ؟ تیسرے یہ کہ اس کا علاج کیا ہے چوتھے یہ کہ اس علاج میں پر ہیز کیا ہے ۔؟ اگر ان چا ر باتو ں کو غور کر کے معلوم کرلیا گیا تو سمجھو کہ علاج آسان ہے ۔….

اسلام مکمل نظام حیات ہے جس میں سیاسی،ثقافتی ،انفرادی،اجتماعی ،اخلاقی،مذہبی،ملی،تربیت کا ساماں موجود ہے ۔اسی نظام تربیت پر ہمیں ایسے ادارے اور گنی چنی تنظیمات نظر آرہی ہیں جن کا معاشرتی کردار بہر حال نظر آرہا ہے جنھیں ہمیں صدق دل سے قبول کرنا چاہیے ۔جیسا کہ دعوت اسلامی ،سیلانی ویلفیر ٹرسٹ وغیرہ ۔

دنیا بھرمیں اصلاح امّت و فکر آخرت کا یہ کاروان رواں دواں ہے ۔ اس عظیم کاروان میں آپ بھی شامل ہوجائیں تاکہ نہ صرف ہم بلکہ ہماری نسلیں اسلام کے شجرہ کی آبیاری میں کوشاں رہیں اور دارین کی فلاح و کامرانی ہماری مقدربن جائے ۔اللہ کریم ہمیں نفع بخش اور سچا انسان بنائے ۔آمین
DR ZAHOOR AHMED DANISH
About the Author: DR ZAHOOR AHMED DANISH Read More Articles by DR ZAHOOR AHMED DANISH: 380 Articles with 542286 views i am scholar.serve the humainbeing... View More