اﷲ جانے کیا ہو گا آگے
(Malik Abdul Rehman Jami, Abbotabad)
میرا گاؤں واقعی جنت نظیر
ہے۔سادہ دل لوگ ،سادہ غذا ،صاف ستھرا ماحول،مذہب سے لگاؤ،چھوٹی چھوٹی
خواہشیں اوروہ سب کچھ جو ایک پہاڑی گاؤں میں ہوتا ہے۔ ہم وہ حرماں نصیب ہیں
جنہیں اس جنت سے مدتوں پہلے ہمارے بزرگ تلاشِ معاش کے سلسلے میں نکال لائے
تھے۔ کچھ بچوں کو تعلیم دلانا بھی مقصود تھا کہ گاؤں میں اس وقت تعلیم کی
حالت بہت ناگفتہ بہ تھی۔نہ عشق کیا نہ کام کیا نہ ہی تعلیم میں ہم نے کوئی
خاص جھنڈے گاڑے اور نہ ہی معاش کی تنگنائیاں سر کر سکے۔ ہوا تو بس اتنا کہ
اب اس جنت گم گشتہ کی یاد میں آہیں بھرتے اور کبھی موقع ملے تو اپنے نصیبوں
کو کوستے ایک آدھ چکر لگا لیتے ہیں۔ ایک بار جو گاؤں جانا ہوا تو دیکھا کہ
گاؤں کی عورتوں بچوں بزرگوں نوجوانوں سب میں ایک اشتعال ہے۔ دریافت پہ پتہ
چلا کہ کسی بد بخت نے توہین قرآن کی ہے اور اب علاقے کا ہر شخص اسے قتل
کرنے کے درپے ہے۔سن کے افسوس ہوا کہ ایسا علاقہ جہاں لوگ سادات کی طرف پشت
کرنا بے ادبی خیال کرتے ہوں وہاں کسی کی اتنی ہمت کہ قرآن کی بے حرمتی کرے۔
پہلا تائثر اور سوچ وہی تھی جو گاؤں کے عام آدمی کی تھی لیکن پھر وہ شہر کی
تربیت کام آئی کہ ہر تصویر کے پہلے تو صرف دو ہی رخ ہوا کرتے تھے اب تصویر
ہمہ رخ ہوتی ہے۔
ہم نے معاملے کی تفتیش کا فیصلہ کیا۔ وہی رٹا رٹا یا ایک بیان کہ جناب وہ
بڑا ملعون آدمی ہے۔بہت خود سر ۔اس میں فرعونیت بہت ہے۔ بندے کو بندہ ہی
نہیں سمجھتا۔ ظالم آدمی ہے۔انتہاء کا بد تمیزکسی کا لحاظ نہیں کرتا۔اب تو
اس نے حد ہی کر دی۔اﷲ کے کلام کی بے حرمتی۔باقی سارے جرم معاف لیکن یہ
ناقابلِ معافی ہے۔بہت کریدا لیکن کوئی شخص یہ نہ بتا پایا کہ اس نے کیا کیا
ہے۔کچھ تو ہم بھی اس شخص کو جانتے تھے کہ اس کا باپ بڑا خوشامدی اور چاپلوس
تھا۔گاؤں کے ہر بڑے سمجھدار اور مالدار کے ساتھ بنا کے رکھتا تھا۔ طاقت کے
توازن کو بھانپنے میں ماہر، جونہی بازی پلٹتے دیکھا خود بھی پلٹ جاتا۔ اپنی
اس چالباز طبیعت کی بناء پہ اس نے خاموشی سے بڑا مال بنایا۔دلال حرام حلال
کی تمیز کب کرتے ہیں۔وہ اپنی مسکہ بازی میں ہی لیکن مر گیا۔بیٹاجوان تھا
اور مال حرام پہ بد مست۔اس نے انت مچا دی۔اپنی دولت پہ لوگوں کو خریدنے
لگا۔گاؤں کے سارے کھڑپینچ اور سارے شرفاء بھی اس سے دبنے لگے۔بڑ بولا جو
تھا۔اب نہ کسی کی عزت محفوظ تھی نہ پگڑی۔جسے وہ چاہتا اپنے کارندوں سے ذلیل
کرواتا۔شروع شروع میں اسے نکیل ڈالنے کی کوشش ہوئی لیکن بے سود۔
پھر ایک دن اس کا مسجد کے مولوی صاحب سے بھی پھڈا ہو گیا۔ مولوی صاحب مسکین
سے آدمی تھے۔علاقے کے دوسرے مولویوں تک بات پہنچی تو جمعے کے خطبوں میں اس
کے خلاف مذمت کی قراردادیں منظور ہوئیں۔پھر ایک دن اچانک ہی خبر آئی کہ اس
نے توہین قرآن کی ہے۔اگلے دن علاقے کی مرکزی جگہ پہ جرگہ تھا۔ جس میں اس
شخص کو مجرم قرار دیا جانا تھا۔میری تفتیش یہ کہتی تھی کہ اس شخص میں سارے
شرعی عیب ہیں لیکن توہین قرآن کا ارتکاب اس نے نہیں کیا۔ یہ بات سرگوشیوں
میں کچھ لوگوں نے مجھے بتائی تھی۔لوگوں کو یقین تھا کہ کوئی اس علاقے میں
توہین قرآن یا توہین مذہب کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا کہ اس گاؤں کے لوگ
اپنا خون معاف کر سکتے ہیں مذہب کی توہین برداشت نہیں کر سکتے۔جب سلمان
رشدی والا معاملہ ہوا تھا تو اس گاؤں کے لوگوں نے اس تحریک میں اپنا خون
دیا تھا۔ تسلیمہ نسرین والے معاملے میں بھی اس گاؤں کے لوگوں نے پورا شہر
بند کرا دیا تھا۔ کیسے ممکن تھا کہ یہاں کا کوئی شخص توہین قرآن کا مرتکب
ہوتا۔ جذبات لیکن اتنے بھڑکا دئیے گئے تھے کہ کوئی شخص یہ بات کرنے کی ہمت
نہیں کر پا رہا تھا۔ہم چونکہ گاؤں کی سیاست کے کھلاڑی نہیں اور پھر ذرا
الٹے دماغ کے بھی ہیں اس لئے ہمیں اس جرگے سے دور رکھنے کی دانستہ کوشش کی
گئی۔ہم جب وہاں بن بلائے پہنچ گئے تو بھی ہمیں وہاں سے بھیجنے کی کوشش کی
گئی۔ ہم بھی تلے بیٹھے تھے کہ سچ جان کے رہیں گے۔
جرگہ شروع ہوا۔بیانات ہوئے۔ملزم نے صحت جرم سے انکار کیا۔مولوی صاحب ہی اس
واقعے کے واحد چشم دید گواہ تھے۔ ان پہ جرح ہوئی تو اپنی سادگی میں انہوں
نے تسلیم کیا کہ وہ بھی چشم دید گواہ نہیں۔ انہوں نے صرف اوراق بکھرے ہوئے
دیکھے اور دور سے اس شخص کو جاتے دیکھا۔ معاملہ اب عام آدمی کی سمجھ میں
آگیا۔ اس کے بعد تو خیر منظر ہی بدل گیا۔ ہم نے لوگوں کو بتایا کہ توہین
مذہب ایک بڑی نحوست ہے۔ اﷲ کے کلام یا اس کے برگزیدہ بندوں کو اپنے دنیاوی
مقاصد کے لئے استعمال کرنا سخت جرم ہے اور جو بھی یہ جرم کرے لائق تعزیر
ہے۔جس طرح یہ فعل قابل معافی نہیں اسی طرح کسی کو اس میں ملوث کرنا بھی
قابلِ معافی نہیں۔
آج کل ملکی سطح پہ ہمیں یہ مسئلہ در پیش ہے۔ جنگ جیو گروپ کے ماضی اس کی
فرعونیت اور اس کی من مانیوں سے کسی کو انکار نہیں۔ ان کے ملک دشمن ایجنڈے
سے بھی ساری دنیا آگاہ ہے۔ ان کی غیر ملکی فنڈنگ کا بھی اداروں سمیت سب کو
علم ہے۔ انہوں نے جس طرح آئی ایس آئی چیف کے خلاف پروپیگنڈہ کیا اس کی
میڈیا کے ذمہ داروں سمیت ہر شخص نے مذمت کی۔اب جنگ جیو گروپ فوج سے اور آئی
ایس آئی سے تو معافی مانگ چکا۔معافی بھی انہوں نے تب ہی مانگی ہو گی جب
انہیں اس کی قبولیت کا یقین دلا دیا گیا ہو گا لیکن کوئی مجھے یہ بھی بتا
دے کہ جیو معافی کس بات پہ مانگ رہا ہے۔ آئی ایس آئی اور فوج کی تذلیل پہ
یا توہین اہل بیت پہ۔فوج اور آئی ایس کے پاس جیو کو معافی کا اختیار ہے
لیکن توہین اہل بیت پہ اب جیو کو معافی دینے کی جرات کون کرے گا۔دنیا جانتی
ہے کہ جیو نے یہ پروگرام توہین اہل بیت کی نیت سے نہیں چلایا۔یہ کیمرہ مین
کی بد بختی اور اس بدنام زمانہ فاحشہ اینکر اورمہمان کی نحوست تھی کہ یہ سب
ہوا۔ چینل کو صرف بغضِ معاویہ میں ملوث کیا گیا۔ جس میں پاکستان کے باقی
سارے چینل بھی ایک دوسرے پر بازی لے جانے کی کوشش کرتے رہے۔
اگر جیو کو معافی ملتی اور معاملہ ختم ہوتا ہے تو اس کا صاف مطلب ہے کہ ہم
اپنا سکور برابر کرنے کے لئے مذہب کو بھی داؤ پر لگانے سے نہیں چوکتے۔کیا
ہمارے ملک میں کہیں ادارے ہیں؟ کوئی قانون اور کہیں انصاف ہے؟ کیا ہماری
عدلیہ واقعی آزاد ہے؟ کیا ہم واقعی غیرت مند مسلمان ہیں۔کیا ہم سلمان رشدی
اور تسلیمہ نسرین سے کم گستاخ ہیں۔ کیا ہم خود ہی اپنے شعائر کی توہین کے
مرتکب نہیں ہوئے۔ کیا ہم نے کل اﷲ کی عدالت میں پیش نہیں ہونا۔ کیا ہمارے
ہاں اپنے مطلب کے سچ کے علاوہ سچ بولنا عنقا ہوا؟جیو چل رہا ہے جیو چلتا
رہے گا لیکن توہین مذہب اور توہین اہل بیت کی جو کالک ہم نے خود اپنے منہ
پہ ملی ہے اسے تو شاید قیامت کی سختی بھی ہمارے چہروں سے نہ اتار سکے۔ |
|