آقا کا مہینہ:
رسولِ اکرم ﷺ کا ماہِ شَعْبانُ الْمُعَظّم کے بارے میں فرمانِ عالیشان ہے
کہ "شعبان میرا مہینہ ہے اور رمضان المبارک اللہ تعالیٰ کا مہینہ ہے "۔
مرنے والوں کی فہرست بنانے کا مہینہ :
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہافرماتی ہیں تاجدارِ سالتﷺ ماہِ
شَعْبانُ الْمُعَظّم کے پورے روزے رکھاکرتے تھے۔ مذید فرماتی ہیں کہ میں نے
عرض کی :یا رسول اللہ ﷺکیا سب مہینوں میں آپ ﷺکے نذدیک زیادہ پسندید شعبان
المعظم کے روزے رکھنا ہے ؟ تو محبوب ربّ ِ اکبر ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ
تعالیٰ اس سال مرنے والی ہر جان کو لکھ دیتا ہے اور مجھے یہ پسند ہے کہ
میرا وقت ِ رخصت آئےاور میں روزے سے ہوں۔
نازک فیصلے :
مسلمانو! نصف شَعْبانُ الْمُعَظّم کی رات کتنی نازُک ہے!نہجانے کس کی
قِسْمت میں کیا لکھ دیا جائے! بعض اوقات بندہ غَفْلت میں پڑا رَہ جاتا ہے
اور اُس کے بارے میں کچھ کا کچھ ہوچکا ہوتا ہے ۔''غُنْیَۃُ الطّالِبِین ''میں
ہے: بَہُت سے کَفَن دُھل کر تیّار رکھے ہوتے ہیں مگرکَفَن پہننے والے
بازاروں میں گھوم پھر رہے ہوتے ہیں، کافی لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ اُن کی
قَبْر یں کُھدی ہوئی تیّار ہوتی ہیں مگر اُن میں دَفْن ہونے والے خوشیوں
میں مَسْت ہوتے ہیں، بعض لوگ ہنس رہے ہوتے ہیں حالانکہ اُن کی موت کا وَقت
قریب آچکا ہوتا ہے۔کئی مکانات کی تعمیر ات کا کام پورا ہو گیا ہوتا ہے مگر
ساتھ ہی ان کے مالِکان کی زندگی کا وَقت بھی پورا ہوچکا ہوتا ہے۔(غُنْیَۃُ
الطّا لِبین، ج۱،ص۳۴۸)
محروم لوگ:
مسلمانو! شبِ برأت بے اہم رات ہے کسی صورت بھی اسے غفلت میں نہ گزارا
جائےاس رات خصوصیت کے ساتھ رحمتوں کی چھماچھم برسات ہوتی ہے اس مبارک شب
اللہ تبارک وتعالیٰ بنی کلب کی بکریوں کے بالوں سے بھی زیادہ لوگوں کو جہنم
سے آزاد فرماتا ہے ۔ کتابوں میں لکھا ہے کہ قبیلہ بنی کلب قبائل عرب میں سب
سے زیادہ بکریاں پالتا تھا آہ کچھ بدنصیب ایسے بھی ہیں جن پر اس شب بھی
برأت یعنی چھٹکارا پانے کی رات بھی نہ بخشے جانے کی وعید ہے ۔ حضورِ اکرم ﷺ
کا فرمانِ عبرت نشان ہے 6انسانوں کی اس رات بھی بخشش نہیں ہوگی : ۱۔ شراب
کا عدی ۲۔ ماں باپ کا نا فرمان ۳۔ زنا کا عادی ۴۔ قطع تعلق کرنے والا۵۔
تصویر بنانے والا۶۔ چُغَل خور۔اسی طرح عداوت والے اورکپڑا لٹکانے والےکی
طرف اللہ تعالیٰ نَظَرِ رَحمت نہیں فرماتا۔(شعب الایمان، ج۳،
ص۳۸۴،الحدیث:۳۸۳۷)(حدیثِ پاک میں''کپڑا لٹکانے والے''کا جو بیان ہے، اِس سے
مُرادوہ لو گ ہیں جو تکبُّر کے ساتھ ٹَخنوں کے نیچے تہبند یا پاجامہ وغیرہ
لٹکاتے ہیں)
پندرہ شعبان کا روزہ: حضرتِ سَیِّدُنا علیُّ المُرتَضٰی شیرِ خدا کَرَّمَ
اللہُ تعالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم سے مَروی ہے کہ نبیِّ کریم، رءُ وْفٌ
رَّحیم عَلَیْہِ اَفْضَلُ الصَّلٰوۃِوَ التَّسْلِیم کا فرمانِ عظیم ہے :جب
پندَرَہ شعبان کی رات آئے تو اسمیں قِیام (یعنی عبادت)کرو اور دن میں روزہ
رکھو۔بے شک اللہ تعالیٰ غُرُوبِ آفتاب سے آسمانِ دنیا پر خاص تجلّی فرماتا
اور کہتا ہے:ہے کوئی مجھ سے مغفرت طَلَب کرنے والا کہ اُسے بخش دوں!ہے کوئی
روزی طلب کرنے والا کہ اُسے روزی دوں!ہے کوئی مُصیبت زدہ کہ اُسے عافِیَّت
عطا کروں!ہے کوئی ایسا!ہے کوئی ایسا!اور یہ اُس وَقْت تک فرماتا ہے کہ
فَجْرطُلُوع ہو جائے۔(سُنَنِ اِبن ماجہ، ج۲،ص۱۶۰،الحدیث: ۱۳۸۸)۔
مغرب کے بعد چھ نوافل:معمولاتِ اولیا ئے کرام رَحِمَہُمُ اللہُ السّلام سے
ہے کہ مغرِب کے فَرض وسنَّت وغیرہ کے بعد چھ رَکْعَت نَفل(نَفْ۔لْ)دو دو
رَکْعَت کر کے ادا کئے جائیں۔پہلی دو رَکْعَتوں سے پہلے یہ نیّت
کیجئے:''یااللہ عزوجل ان دو رَکعَتوں کی بَرَ کت سے مجھے درازئ عمر بالخیر
عطا فرما۔''دوسری دو رَکْعَتوں میں یہ نیّت فرمایئے:یااللہ عَزَّوَجَلَّ ان
دو رکعتوں کی بَرَکت سے بلاؤں سے میری حِفاظت فرما۔''تیسری دو رَکْعَتوں
کیلئے یہ نیّت کیجئے:''یااللہ عَزَّوَجَلَّ ان دو رَکعتوں کی بَرَ کت سے
مجھے اپنے سِوا کسی کا مُحتاج نہ کر''ان 6رَکعتوں میں سُورۃُ الفاتِحہ کے
بعد جو چاہیں وہ سورَتیں پڑھ سکتے ہیں، بہتر یہ ہے کہ ہر رَکعَت (رَکْ
۔عَت) میں سُورۃُ الفاتِحہ کے بعد تین تین بار سُورۃُ الإخلاص پڑھ لیجئے۔
ہر دو رَکْعَت کے بعداکیس بار قُلْ ہُوَ اللہُ اَحَدٌ(پوری سورت)یا ایک
بارسورہ یٰس شریف پڑھئے بلکہ ہو سکے تو دونوں ہی پڑھ لیجئے۔ یہ بھی ہو سکتا
ہے کہ کوئی ایک اسلامی بھائی بلند آواز سے یٰس شریف پڑھیں اور دوسرے خاموشی
سے خوب کان لگا کر سُنیں۔ اس میں یہ خیال رہے کہ دوسرا اِس دَوران زَبان سے
یٰس شریف بلکہ کچھ بھی نہ پڑھے اور یہ مسئلہ خوب یاد رکھئے کہ جب قراٰنِ
کریم بلند آواز سے پڑھا جائے تو جو لوگ سننے کیلئے حاضِر ہیں اُن پر فرضِ
عین ہے کہ چپ چاپ خوب کان لگا کر سُنیں۔اِنْ شَاءَاللہ عَزَّوَجَلَّ رات
شُروع ہوتے ہی ثواب کا اَنبار(اَمْ۔بار)لگ جائے گا۔ ہر بار یٰس شریف کے
بعد'' دُعائے نِصفِ شَعبان ''بھی پڑھئے۔
دعا نصف شعبان المعظم:
بِسم اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَللّٰھُمَّ یَا ذَا الْمَنِّ وَلَایُمَنُّ عَلَیْہِ یَا ذَا الْجَلَالِ
وَالْاِكْرَامِ ؕ یَا ذَا الطَّوْلِ وَالاَنْعَامِ لَا اِلٰہَ اِلَّا
اَنْتَ ظَھْرُاللَّاجِیْنَ ؕ وَجَارُ الْمُسْتَجِیْرِیْنَ وَاَمَانُ
الْخَائِفِیْنَ ؕاَللّٰھُمَّ اِنْ كُنْتَ كَتَبْتَنِیْ عِنْدَكَ فِیْ اُمِّ
الْكِتٰبِ شَقِیًّا اَوْ مَحْرُوْمًا اَوْمَطْرُوْدًااَوْ
مُقْتَرًّاعَلَیَّ فِی الرِّزْقِ فَامْحُ اَللّٰھُمَّ بِفَضْلِكَ
شَقَاوَتِیْ وَحِرْمَانِی وَطَرْدِیْ وَقْتِتَارِ رِزْقِیْ ؕ
وَاَثْبِتْنِیْ عِنْدَكَ فِی اُمِّ الْكِتٰبِ سَعِیْدًا مَّرْزُوْقًا
مُوَفَّقاًلِلْخَیْرَاتِ ؕ فَاِنَّكَ قُلْتَ وَقَوْلُكَ الْحَقُّ فِیْ
كِتَابِكَ الْمُنَزَّلِ ؕ عَلٰی لِسَانِ نَبِیِّكَ الْمُرْسَلِ یَمْحُوْا
اللہُ مَا یَشَاءُ وَیُثْبِتُ وَ عِنْدَہ اُمُّ الْكِتٰبِo،اِلٰھِی
بِالتَّجَلِّی الْاَعْظَمِ فِی لَیْلَۃِالنِّصْفِ مِنْ شَھْرِ شَعْبَانَ
الْمُكَرَّمِ الَّتِیْ یُفْرَقُ فِیْھَا كُلُّ اَمْرٍحَكِیْمٍ
وَیُبْرَمُطَانْ تُكْشَفُ عَنَّامِنَ الْبَلَآءِ وَالْبَلَوَ آءِ مَا
نَعْلَمْ ؕ وَاَنْتَ بِہ اَعْلَمُ اِنَّكَ اَنْتَ الْاَعَزُّ الْاَكْرَامُ
ؕ وَصَلَّی اللہُ تَعَالیٰ عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی اٰلِہ وَ
اَصْحَابِہ وَسَلَّمْ ؕ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ o
سال بھر جادو سے حفاظت:فرمانِ مفسرِ شہیر مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ
رحمۃ اللہ الغنی:اگر اس رات(یعنی شبِ براء َت)سات پتے بَیری(یعنی بَیر کے
دَرخت)کے پانی میں جوش دیکر (جب پانی نہانے کے قابل ہو جا ئے تو) غُسل کرے
اِن شاءَ اللہُ العزیز تمام سا ل جادو کے اثر سے محفوظ رہے گا۔(اسلامی
زندگی، ص۱۳۴)
شبِّ برأت اور قبروں کی حفاظت:اُمُّ المؤمِنین حضرتِ سَیِّدَتُنا عائشہ
صِدِّیقہ رضی اﷲ تعالٰی عنہا فرماتی ہیں:میں نے ایک رات سرورِ کائنات، شاہِ
موجودات صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو نہ دیکھا تو بقیعِ پاک
میں مجھے مل گئے ،آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے مجھ سے
فرمایا:کیا تمہیں اس بات کا ڈر تھا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ اور اس کا رسول
صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم تمہاری حق تلَفی کریں گے؟ میں نے عرض
کی:یا رسولَ اللہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم !میں نے خیال کیا
تھا کہ شاید آپ اَزواجِ مُطَہَّرات(مُ۔طَہْ۔ہَرات)میں سے کسی کے پاس تشریف
لے گئے ہوں گے۔ تو فرمایا:بیشک اللہ تعالیٰ شعبان کی پندرَہویں رات آسمانِ
دُنیا پر تجلّی فرماتا ہے ،پس قَبیلہِ بنی کَلب کی بکریوں کے بالوں سے بھی
زیادہ گنہگاروں کو بخش دیتا ہے۔(سُنَنِ تِرمِذی، ج۲،ص۱۸۳،الحدیث:۷۳۹)
قبرستان کی حاضری:
نبیِّ کریم ، رَء ُوْفٌ رَّحیم عَلَیْہِ اَفْضَلُ الصَّلٰوۃِوَالتَّسْلِیم
کا فرمانِ عظیم ہے: میں نے تم کو زیارتِ قُبُور سے منع کیا تھا، اب تم
قبروں کی زیارت کرو کہ وہ دُنیا میں بے رغبتی کا سبب ہے اور آخِرت کی یاد
دلاتی ہے۔ (سُنَنِ اِبن ماجہ ج۲ص۲۵۲حدیث۱۵۷۱)
:(ولیُّ اللہ کے مزار شریف یا)کسی بھی مسلمان کی قَبْر کی زیارت کو جانا
چاہے تو مُستَحَب یہ ہے کہ پہلے اپنے مکان پر (غیر مکروہ وقت میں) دو
رَکْعَت نَفْل پڑھے، ہر رَکْعَت میں سورۃ الفاتحہ کے بعد ایک بار اٰیۃ
الکرسی ، اور تین بار سورۃ الاخلاص پڑھے اور اس نَماز کا ثواب صاحبِ
قَبْرکو پہنچائے، اللہ تعالیٰ اُس فوت شدہ بندے کی قَبْر میں نور پیدا
کریگا اور اِس(ثوا ب پہنچانے والے) شخص کو بَہُت زیادہ ثواب عطا فرمائے
گا۔(فتاوی عالمگیری، ج۵،ص۳۵۰)
:مزارشریف یا قَبْر کی زیارت کیلئے جاتے ہوئے راستے میں فُضُول باتوں میں
مشغول نہ ہو۔(ایضاً)
:قبرِستان میں اس عام راستے سے جائے،جہاں ماضی میں کبھی بھی مسلمانوں کی
قبریں نہ تھیں، جوراستہ نیابناہواہو اُس پرنہ چلے۔ ''رَدُّالْمُحتار''میں
ہے:(قبرِستان میں قبریں پاٹ کر)جونیاراستہ نکالا گیاہو اُس پرچلنا حرام ہے
۔ (رَدُّالْمُحتار،ج۱،ص۶۱۲) بلکہ نئے راستے کا صِرف گمانِ غالب ہو تب بھی
اُس پر چلنا ناجائز وگناہ ہے۔ (دُرِّمُختار،ج۳،ص۱۸۳)
:کئی مزاراتِ اولیاء پر دیکھا گیا ہے کہ زائرین کی سہولت کی خاطر مسلمانوں
کی قبریں مسمار(یعنی توڑ پھوڑ )کر کے فرش بنادیاجاتا ہے،ایسے فرش پر لیٹنا،
چلنا،کھڑا ہونا ، تِلاوت اور ذِکرو اَذکار کیلئے بیٹھناوغیرہ حرام ہے،دُور
ہی سے فاتِحہ پڑھ لیجئے ۔
: زیارتِ قبر میّت کے مُوَاجَہَہ میں (یعنی چِہرے کے سامنے)کھڑے ہو کر ہو
اور اس( یعنی قبر والے)کی پائِنتی(پا۔اِن۔تِی یعنی قدموں)کی طرف سے جائے کہ
اس کی نگاہ کے سامنے ہو، سرہانے سے نہ آئے کہ اُسے سر اُٹھا کر دیکھناپڑے۔
(فتاوٰی رضویہ مخرّجہ، ج ۹،ص۵۳۲)
:قبرستان میں ا ِس طرح کھڑے ہوں کہ قبلے کی طرف پیٹھ اورقبر والوں کے
چِہروں کی طرف منہ ہو اس کے بعد کہے :اَلسَّلامُ عَلَیْکُمْ یَا اَھْلَ
الْقُبُوْرِ یَغْفِرُ اللہُ لَنَا وَلَکُمْ اَنْتُمْ لَـنَا سَلَفٌ
وَّنَحْنُ بِالْاَثَر. ترجمہ:اےقَبْر والو! تم پر سلام ہو، اللہ
عَزَّوَجَلَّ ہماری اور تمہاری مغفرت فرمائے، تم ہم سے پہلے آگئے اور ہم
تمہارے بعد آنے والے ہیں۔(فتاوٰی عا لمگیری ج ۵ ص ۳۵۰)
:جو قبرستان میں داخل ہو کر یہ کہے:اَللّٰہُمَّ رَبَّ الاْجْسَادِ
الْبَالِیَۃِ وَالْعِظَامِ النَّخِرَۃِ الَّتِیْ خَرَجَتْ مِنَ الدُّنْیَا
وَہِیَ بِکَ مُؤْمِنَۃٌ اَدْخِلْ عَلَیْہَا رَوْحًا مِّنْ عِنْدِکَ
وَسَلاَمًا مِّنِّیْ۔ ترجمہ: اے اللہ عَزَّوَجَل!(اے) گل جانے والے جِسموں
اور بوسیدہ ہڈّیوں کے رب!جو دنیا سے ایمان کی حالت میں رخصت ہوئے تو ان پر
اپنی رحمت اور میرا سلام پہنچا دے۔ توحضرتِ سیِّدُنا آدم عَلَیہ السّلام سے
لے کر اس وقت تک جتنے مومن فوت ہوئے سب اُس (یعنی دُعا پڑھنے والے)کے لیے
دعائے مغفِرت کریں گے۔(مُصَنَّف ابن اَبی شَیْبہ،ج۱۰،ص۱۵)
:شفیعِ مُجرِمان صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کافرمانِ شَفاعت
نشان ہے:جو شخص قبرِستان میں داخِل ہُوا پھر اُس نے ،سورۃ الفاتحہ ،سورۃ
التکاثراورسورۃ الاخلاص پڑھی پھر یہ دُعا مانگی: یااللہ عزوجل ! میں نے جو
کچھ قراٰن پڑھا اُس کا ثواب اِس قبرِستان کے مومِن مَرد وں اور مومِن
عورَتوں کو پہنچا ۔ تو وہ تمام مومِن قِیامت کے روز اس(یعنی ایصالِ ثواب
کرنے والے )کے سِفارشی ہونگے۔ (شَرْحُ الصُّدُور،ص۳۱۱) حدیثِ پاک میں ہے
:جو گیارہ بار سورۃ الاخلاص یعنی قل ھواللہ احد(مکمَّل سورۃ)پڑھ کر اس کا
ثواب مُردوں کو پہنچائے،تو مُردوں کی گنتی کے برابر اسے(یعنی ایصالِ ثواب
کرنے والے کو) ثواب ملے گا۔(دُرِّمُختارج۳ ص۱۸۳)
: قَبْر کے اوپر اگر بتّی نہ جلائی جائے |