مسئلہ رؤیت

بسم اللہ الرحمن الرحیم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

مسئلہ رؤیت: یہ ان مسئلوں میں سے ایک مسئلہ ہے جس سے آج تک امت مسلمہ نبرد آزما ہے مختلف لوگوں اور فرقوں کی مختلف آرا ہونے کی وجہ سے یہ مسئلہ آج بھی امت میں موجود ھے، قرآن وحدیث اور فہم صحابہ میں اسکا شافی علاج موجود ھے ہم اسی کو جاننے کی کوشش کریں گے، ان شاء اللہ. اللہ تعالی کا فرمان ہے،مفہوم:

"جو کوئ تم میں سے اس مہینے میں موجود ہو،اسے چاہیے کہ وہ اس کے (پورے) روزے رکھے"

(حوالہ:سورۃ البقرہ سورۃ نمبر 2 آیت نمبر: 185)

اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کا فرمان ہے، مفہوم:

"تم چاند دیکھ کر ہی روزہ رکھو (رمضان کا آغاز کرو) اور چاند دیکھ کر ہی روزہ افطار (روزہ رکھنا ترک اور عید)کرو ،اگر تم پر بادل چھا جائیں تو شعبان کے 30 دنوں کی گنتی پوری کرو."

(حوالہ: صحیح بخاری، الصوم، حدیث 1909)

اس آیت اور صحیح حدیث سے معلوم ہوا کہ روزے رکھنا اور رؤیت کے لیے قمری سلسلہ پر نظر رکھنا مسلمانوں کے لۓ ضروری ہے-

واللہ اعلم

چاند دیکھنے کے حوالہ سے ایک واقعہ کا مفہوم:

حضرت کریب رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں، مفہوم: کہ مجھے أم الفضل نے (سیدنا) معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس کسی کام سے شام بھیجا، شام میں رمضان کا چاند جمعہ کی رات کو نظر آیا، پھر جب میں مہینے کے آخر میں مدینہ واپس آیا تو (سیدنا) ابن عباس رضی اللہ عنہ نے مجھ سے چاند کے متعلق پوچھا، میں نے جمعہ کی رات کا بتایا، (سیدنا) ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا، مفہوم: ہم نے یہاں (مدینہ میں) ھفتہ کی رات کو دیکھا، چنانچہ ہم تو پورے 30 روزے رکھیں گے اور یا پھر (29 رمضان کو) ہم چاند دیکھ لیں: میں نے کہا: کیا آپ کے لۓ (سیدنا) معاویہ رضی اللہ عنہ کی رؤیت اور ان کا روزہ رکھ لینا کافی نہیں؟ انہوں نے فرمایا، مفہوم: نہیں، ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی طرح حکم دیا ہے

(حوالہ: صحیح مسلم، الصیام)

امام ترمذی رحمہ اللہ نےجامع ترمذی میں اس حدیث پر باب باندھا، مفہوم: "اس بات کا بیان کہ ھر علاقہ کے لوگوں کے لۓ ان کی اپنی رؤیت ہے" اسی قسم کا باب امام نووی رحمہ اللہ نے بھی باندھا-

اس سے ثابت ہوا کہ چاند دیکھ کر اور مختلف جگہوں کی مختلف رویت قرار پاۓ گی جیسے کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت سے صاف ظاہر ہے جس طرح ھر ملک کے نمازوں کے اوقات جدا ہیں اور اسکو اسلام کی وحدت کے خلاف نہیں سمجھا جاتا اسی طرح ھر ملک کی رؤیت ھلال بھی جدا ہوسکتی ہے اور وھ وحدت اسلام کےخلاف نہیں، بعض علماۓ احناف نے پاکستان کی حد تک بھی ایک ہی دن رؤیت ہلال کو غیر ضروری قراد دیا.
)حوالہ:جواہر الفقہ، جلد 1 صفحۂ 397، 398(


مطلع کے معنی ہیں چاند کے ظاہر ہونے کی جگہ اور مطالع اسکی جمع ہوئ. غیر متعصب حنفی عالم عبدالحی لکھنوی نے اختلاف مطلع پر مختلف آرا نقل کرنے کے بعد لکھا مفہوم:
"صحیح مسلک یہ ہے کہ مطلع کے بدلنے سے رؤیت بدلے گی جسکی مسافت 1 ماہ ہے"

)حوالہ:مجموع الفتاوع علی ھامش جلد 1صفحہ 255،256(

یہ ایک اچھی راۓ ہےمگر حافظ صلاح الدین یوسف کے بقول اس میں ایک ماہ کی مسافت کی بجاۓ ماھرین فلکیات کی راۓ اور ان کے حساب پر اعتماد زیادھ بہتر ہے.

رؤیت ھلال میں علم فلکیات سے مدد لینا اور ان کی راۓ کو اھمیت دینا ایک بہتر عمل ہے جس طرح طلوع اور غروب اور زوال یا طلوع فجر سے متعلق علم رصد پر اعتبار کرتے ہوۓ نمار کے لیے دائمی اوقات نامے بناۓ گۓ ہیں اور ہم ان پر اعتبار کرتے ہیں اسی طرح چاند کی رفتار اور افک پر کب نظر آسکتا ہے یا ولادت یا عدم ولادت سے متعلق فلکیات کی راۓ لینا ایک احسن عمل ہے اور رؤیت کے حوالہ سے اس علم سے مدد لینے میں قباحت نہیں-

اس سلسلہ میں یقینا گواہوں کی گوائ کو بھی شریعت کے حوالہ سے دیکھا جاۓ گا اس کو ہم ان شاء اللہ ایک مثال سے سمجھتے ہیں اگر یوں کہا جاۓ کہ چاند کی پیدائش غروب آفتاب سے قبل نہ ہوئ ہو یا اس دن سورج غروب ہونے سے قبل ہی چاند غروب ہو جاۓ یعنی کہ چاند کے نظر آنے کا سوال ہی نہیں اور فلکیات کا بھی یہی فیصلہ ہو، مگر اس علاقہ میں گواھی دینے والا پھر بھی گواھی دے رھا ہو تو ایسی گواہی پر شک کیا جاسکتا ہے.

اس بات کو ایک اور زاویے سے سمجھتے ہیں، مثلا سورج غروب ہو چکا ہو اور ایک شخص آۓ اور پھر بھی دعوی کرے کہ اس نے سورج غروب ہونے کے بعد بھی دیکھا ہے تو ایسے شخص کی گواہی یقینا نہیں لی جاۓ گی اور شریعت میں ایسی گواہی کی کوئ حیثیت نہیں، اگر فلکیات کی راۓ کے مخالف قرآئن اور شواھد سے شریعت کے مطابق گواہیاں موجود ہوں تو اسکےخلاف بھی فیصلہ سنایا جاسکتا ہے کیونکہ اصل نقطہ شریعت کی بالادستی ھے مگر اسکے بہانے بالکل علم فلکیات کا کلی انکار صحیح نہیں ہے.

بعض علاقوں میں عام رجحان بن چکا ہے. علماء اور عام عوام الناس اگر ان نقاط کو سمجھ جائیں تو پاکستان میں خیبر پختونخواہ کا مسلہ رؤیت حل کرنا بہت آسان ہے مگر پھر بھی حدیث سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کی رو سے خیبر پختونخواہ کی علیحدہ رؤیت میں شرعا گنجائش بھی موجود ہے اگر اس مسئلہ کو شریعت کے دائرے میں حل کیا جاۓ اور رؤیت کا احتمام کیا جاۓ

اسی طرح شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے بقول،مفہوم:

"جن علاقوں میں چاند دیکھا جاۓ توان سے آگے مغرب کی جانب روزہ رکھنا فرض ہوگا بحرین کی رؤیت حجاز، نجد اور مصر کے لۓ ھو سکتی ھے مگر بحرین کی رؤیت بحرین سے پہلے واقع مثلا ہندوستان، سندھ ماوراء النہر (روس کے بالائ علاقے) پر روزھ واجب کرنے کا باعث نہیں بنے گی."
حوالہ: فتاوی الصیام صفحہ 72

اس مثال سے ظاہر ہوا کہ پاکستان میں سعودی عرب کی رؤیت پر روزہ یا عید کرنا صحیح نہیں اور حدیث سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کے بھی خلاف ہے کیونکہ پاکستان اور عرب ممالک کے اختلاف مطلع (چاند کے ظاھر ھونے کی جگہ) میں فاصلہ بہت زیادہ ہے.

اس سلسلہ میں جب حافظ زبیر علی زئ رحمہ اللہ سے فون پر رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا یہ تھا، ان کے قول کا مفہوم:

"کہ اپنے اپنے شہر کے لوگوں کے ساتھ کریں، ہر شہر کے لوگ علیحدہ علیحدہ اپنا چاند دیکھیں. اسلام میں مجھے نہیں پتہ کہ ایک دن (عید/رمضان) کا کوئ مسئلہ ہے، یہ کوئ مسئلہ نہیں ہے.حضرو، کراچی، کوئٹہ والے سب اپنا دیکھیں. یہ مسئلہ اجتہادی ہے. لوگ اسپر ایک دوسرے پر رد کرتے ہیں مگر ہمارے پاس اسکا حل نہیں".‏

بعض احباب کا یہ کہنا ہے کہ سعودی عرب کے ساتھ رمضان وعید کو اس لۓ شروع کیا جاۓ کیونکہ سعودی عرب مرکز توحید ھے، رؤیت ہلال میں غلط ھونے پر واضع اعلان کرتے ہیں اور اپنی غلطی کو تسلیم کرتے، ایک ساتھ آغاز وحدت کی علامت ہے وغیرھ

اس سلسلہ میں عرض ہے کہ کبھی بھی کامیابی غلطی پر غلطی کرنے سے نہیں ہوتی، اگر ھمارے اندر وہ غلطیاں موجود ھیں جن کا ذکر کیا گیا اسکا یہ مطلب نہیں کہ ہم جان بوجھ کر حدیث کریب رحمه الله (فہم صحابہ) کے خلاف جائیں بلکہ ھمیں رؤیت کے حوالے سے خامیوں کو دور کرنا چاھیے، اپنے معاشرے کو توحید کا معاشرہ بنانےکی کوشش کرنی چاھیے اور عوام میں رؤیت ھلال کے حوالہ سے شعور بیدار کرنا چاھیے، حکومت لاکھوں روپیہ فضول اشتہارات اور ٹنڈرز پر خرچ کرتی ہے اگر کچھ پیسہ ھر ماہ عوام میں رؤیت ہلال کی آگاھی پر خرچ کیا جاۓ تو ان شاء اللہ ھم بہت جلد اس انتشار سے نکل جائیں گے،
وما علينا إلا البلاغ
manhaj-as-salaf
About the Author: manhaj-as-salaf Read More Articles by manhaj-as-salaf: 291 Articles with 448890 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.