ایک مسلمان عورت کا اپنے خاوند کی خدمت کرنا
(manhaj-as-salaf, Peshawar)
بسم اللہ الرحمن الرحیم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
الشیخ الدکتور صالح فوزان بن عبداللہ فوزان حفظہ اللہ سے پوچھا گیا ایک
سوال و جواب اردو ترجمہ و مفہوم کے ساتھ.
سوال: آپ کے لۓ بہتری ہو اے شیخ، سائل پوچھتا ہے:
ہم آج کل یہ بہت سنتے ہیں کہ ایک بیوی کا اپنے خاوند کی خدمت کرنا ضروری
نہیں ہے مثلا کھانا پکانا، صفائ، اس لیے ہم اس مسئلہ میں آپ کی راۓ / نصیحت
جاننا چاہیں گے؟
الشیخ الدکتور صالح فوزان بن عبداللہ فوزان حفظہ اللہ کا جواب: عورت آج کل
تبدیل (ارتقاء میں) ہو گئی ہے. وہ اپنے خاوند کا خیال نہیں رکھتی. اب اگر
آپ یہ چاہتے ہیں کہ وہ آپ کی کچھ ضروریات کا خیال رکھے تو وہ گھر پر ہی
نہیں رہتی.
خاوند آتا ہے اور بیٹھا رہتا ہے اور انتظار کرتا ہے اور وہ نہیں آتی (گھر)،
یا پھر وہ رات (شام) کے آخری حصہ میں آتی ہے.
اب عورتیں باغی ہیں.
ہاں، یہ سنت میں سے ہے کہ عورت اپنے خاوند کی خدمت کرے. صحابیات...، اللہ
ان سے راضی ہو، اپنے خاوندوں کی خدمت کرتیں، وہ کھانا پکاتیں، گھروں کا
خیال رکھتیں اور وہ خواتین صحابیات تھیں،امت کی بہترین عورتیں.
نعم (ہاں)
سیدہ فاطمہ بنت محمد صلی اللہ علیہ وسلم، ورضی اللہ عنہا اپنی گردن پر پانی
اٹھا کر لیجاتیں حتی کے رسی کا نشان انکی گردن پر رہ گیا.
انہوں نے نبی صل اللہ علیہ وسلم سے گزارش کی کہ ان کو (رضی اللہ عنہا)
خادمہ دی جاۓ اور آپ (صل اللہ علیہ وسلم) نے (وہ گزارش) رد کر دی.
آپ صل اللہ علیہ وسلم نے خادمہ دینے سے انکار کر دیا اور آپ صل اللہ علیہ
وسلم نے انکو حکم دیا کہ وہ اللہ عزوجل کے ذکر سے مدد لیں اور اللہ عزوجل
سے استغفار کریں، اور وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹیں تھیں.
|
|