رمضان،ضیاء اور زکوٰۃ

میں ان دنوں غربت کا مارا تھا۔اب بھی ہوں لیکن ان دنوں نوبت فاقوں پہ آگئی تھی۔مسلمان اس وقت بھی تھا لیکن سود کی تباہ کاریوں سے نا واقف۔ہم اﷲ کے حکم کو اﷲ کا حکم سمجھ کے اس وقت تک نہیں مانتے جب تک پھانسی کا پھندہ ہمارے گلے میں نہیں ڈل جاتا۔ہم نہیں سوچتے کہ اﷲ کریم کو ہماری کسی ریاضت اور عبادت سے کوئی غرض نہیں۔بندے کو اﷲ کے احکامات بندے کی زندگی بہتر بنانے کو ہے دنیوی بھی اور اخروی بھی۔سود اﷲ کے ساتھ کھلی جنگ ہے لیکن گھسن بالکل منہ کے قریب تھا اس لئے میں نے بینک سے کسی طور ساڑھے چار لاکھ روپے کا قرض منظور کروا لیا۔ان دنوں بنک ہر ایرے غیرے کو بلا بلا کے قرضے دیا کرتے تھے۔میری خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا۔میں ہواؤں میں اڑتا پھرتا تھا کہ اب زندگی کے سب دلدر دور ہو جائیں گے۔قرض کی منظوری کے بعد ہونا تو یہ چاہئیے تھا کہ میں وہ رقم نکلوا کے کوئی کام شروع کرتا لیکن ہائے رے شوبازی۔دل نے کہا چند دن یہ پیسے بینک میں رہنے دو تا کہ زندگی میں کبھی کہہ سکو کہ ایک وقت میں میرے اکاؤنٹ میں لاکھوں ہوتے تھے۔

اس زمانے میں ساڑھے چار لاکھ کافی پیسے ہوتے تھے۔اسی اثناء میں رمضان شروع ہو گیا۔ میں خوش تھا کہ سود پہ حاصل کئے گئے پیسوں سے میں رمضان کے مبارک مہینے میں کام شروع کروں گا اور مجھے یہ بھی یقین تھا کہ حرام کی اس رقم سے شروع کئے گئے کاروبار میں اﷲ برکت ڈالے گا۔ تین یا چار رمضان کو میں واسکٹ وغیرہ پہن کے بینک پہنچا تو بینک مینجر نے استقبال کیا۔ بٹھایا حال احوال پوچھا اور اپنے لائق کوئی خدمت بتانے کو کہا۔مجھے لگا کہ میں معاشرے کا معزز فرد ہوں۔میں نے ساڑھے چار لاکھ کا چیک کاٹا اور بنک مینجر کے حوالے کر دیا۔ساتھ ہی کہا کہ ذرا جلدی کروا دیں تو عنائت ہو گی۔رقم دیکھ کے پہلے تو مینیجر نے اوپر سے نیچے تک مجھے دیکھاجیسے کہہ رہا ہو یہ منہ اور مسور کی دال۔پھر گھنٹی بجائی۔چیک دفتری کے حوالے کیا اور اسے جلدی آنے کا کہا۔شک لیکن جیسے اس کی آنکھوں میں ٹھہر سا گیا تھا۔ مجھے اندر ہی اندر ڈر لگنے لگا کہ یہ کہیں بہروپیا سمجھ کے پولیس ہی نہ بلا لے۔پھر میں یونہی اپنے آپ کو تسلی دینے لگا کہ بھلے بلا لے ۔پیسے تو میرے پڑے ہیں مجھے کیا ۔ابھی میں اسی سوچ و بچار میں تھا کہ دفتری لوٹ آیا۔اس نے آ کے خبر دی کہ اکاؤنٹ میں چیک کے برابر رقم نہیں ہے۔ میرے پیروں تلے سے زمین نکل گئی۔

وسوسے کمزور اور غریب آدمی کو یونہی ادھ موا رکھتے ہیں۔ میرے دل میں خیال آیا کہ ہو نہ ہو اس بد معاش بینک مینجر نے کوئی ساز باز کر کے میری رقم پار کر لی ہے تبھی تو یہ ایسی خشمگیں نگاہوں سے مجھے گھور رہا تھا۔میں تھوڑی دیر پہلے کی اپنی متانت اعزاز سب بھول گیا اور لگا چلانے کہ یہ بھلا کیسے ممکن ہے۔ میں نے بینک ہی سے قرض لیا تھا۔پورے ساڑھے چار لاکھ۔میں نے ایک پائی نہیں نکلوائی اور رقم کیسے نہیں۔میرا واویلا سن کے دوسرے لوگ بھی میری طرف متوجہ ہو گئے۔سرمایہ دار اور اس کے ایجنٹ اپنی ریپیوٹیشن کا بڑا خیال رکھتے ہیں۔بینک مینجر نے دیکھا کہ ایک گاہک کے شور کی بناء پہ اس کے دوسرے گاہک متاثر ہو رہے ہیں تو اس نے فوراََ میرے پاس آ کے مجھے تسلی دی تو اور کہا کہ آپ حوصلہ رکھیں ۔اگر آپ نے پیسے نہیں نکلوائے تو آپ کی رقم بالکل محفوظ ہے ۔کوئی غلط فہمی ہو گئی ہو گی۔کمال ہے آپ کو یہ غلط فہمی کسی غریب ہی کے باب میں کیوں ہوتی ہے۔کبھی آپ نے یہ تو نہیں کہا کہ آپ کی رقم بڑھ گئی ہے۔اس کے علاوہ بھی بہت کچھ جو ہمارے منہ میں آیا ہم نے کہا۔وہ بندہ جس نے دفتری کو یہ ہولناک خبر دی تھی براہ راست ہمارے حضور پیش کر دیا گیا۔ اس نے ہمیں بتایا کہ ہماری رقم بالکل محفوظ ہے ۔بس یکم رمضان کو اس میں سے حکومت کے حکم سے زکٰوۃ کٹ گئی ہے۔اسی وجہ سے میں نے بتایا تھا کہ اکاونٹ میں اتنی رقم نہیں جتنے کا آپ نے چیک لکھا ہے۔

ہم کہ تھوڑا بہت فقہ میں بھی شد بد رکھتے ہیں۔ بہت پیٹے کہ یہ تو حکومت کا استحقاق ہی نہیں۔ یہ تو میرا اور اﷲ کا معاملہ ہے۔زکوۃ ٹیکس کی طرح نہیں کاٹی جا سکتی۔یہ تو سود پہ لئے گئے قرض کے پیسے ہیں۔ ان پہ ابھی سال بھی نہیں گذرا وغیرہ وغیرہ۔بینک مینیجر بھلے مانس آدمی تھا پہلے تو منت سماجت سے ہمیں سمجھانے کی کوشش کرتا رہا لیکن جب ہم بھی اڑے رہ کے ہلا مچاتے رہے تو اس نے ہمیں ساتھ چلنے کو کہا۔بینک راولپنڈی کے محلے لالکڑتی میں تھا۔ باہر نکل کیاس نے ہمیں اپنی گاڑی میں بٹھایا اور ضلع کچہری کی طرف لے آیا۔ کچہری سے تھوڑا آگے نکل کے اس نے گاڑی ایک سائیڈ پہ روکی اور ایک گھر کی طرف اشارہ کر کے کہنے لگا۔آپ کی رقم سے زکوٰۃ اس شخص کے حکم سے ہوئی ہے جو اس گھر میں رہتا ہے۔جائیں اور جا کے اس سے پوچھیں کہ فقہ کے کس اصول کے تحت اس نے آپ کے سود پہ حاصل کئے گئے قرضے سے زکوٰۃ کاٹی ہے۔

گھر کے سامنے ایک ماٹھا سا بئیریر تھا۔باہر فوج کے چند جوان اور ان کے پہرے میں وہ آدمی جس نے اﷲ کے قانون کو پس پشت ڈال کے اسلام کا اپنا ماڈل ہم پہ لاگو کر دیا تھا۔پہلے سوچا بھڑ جائیں پھر بڑھنے کا سوچا کہ ان دنوں ہم ایک نومولود کے باپ بن گئے تھے اور وہ دشمنِ جان ہمیں اچھا بہت لگتا تھا۔بینک مینیجرپہلے ہی جا چکا تھا۔ہم واپس بینک آئے چپکے سے اپنی رقم پتہ کی جو انہوں نے بتائی ہم نے وصول کی اور سر جھکائے گھر چلے آئے۔کل ہم نے اردو کی ایک بڑی ویب سائیٹ پہ پڑھا کہ بینک سے اپنی رقم جلدی نکلوا لیں ورنہ آپ کو ایک بڑے صدمے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ہم نے جانا کہ ماضی میں کٹھ ملائیت اورنیم حکیمی ہمارے مذہب کے ساتھ کیسے کیسے کھلواڑ کرتی رہی ہے۔سودی قرضے پہ زکوٰۃ ہے ناں حیرت کی بات۔
Malik Abdul Rahman jami
About the Author: Malik Abdul Rahman jami Read More Articles by Malik Abdul Rahman jami: 283 Articles with 268444 views I am from Abbottabad presently living at Wah.I retired as Lt Col from Pak Army. I have done masters in International Relation and Political Science. F.. View More