ایک یادگار سفرکی روداد

اساتذہ جماعۃ الدعوۃ کے زیرِانتظام منعقدہونے وا لے ایک یادگاراور شاندارتربیتی وسیاحتی دورہ کا اہتمام کیاگیاجس میں ملک بھرسے دینی وملی شعور کے حامل سینکڑوں اساتذہ کرام نے شرکت کی۔ اس یادگاردورہ کی رودادپیش خدمت ہے۔

پروگرام کے مطابق۲۰جون ۲۰۱۴ء بروزجمعۃ المبارک کوصبح ہی سے ملک بھرسے اساتذہ جماعۃ الدعوۃ کے قافلے مسجدقبا I-8 اسلام آبادپہنچناشروع ہوگئے۔ اکثرشرکاء نے نمازجمعہ مسجد قبامیں ہی اداکی۔ سہ پہرتک دورہ میں شامل ہونے والے تمام شرکاء مرکزپہنچ چکے تھے۔ قائدین کی طرف سے سفرسے متعلق تفصیلی ہدایات دی گئیں۔اس کے بعدکئی بسوں پرمشتمل قافلہ نمازمغرب سے پہلے سوئے منزل روانہ ہوگیا۔

مری کے راستے سے گزرتے ہوئے قافلہ رات کے پچھلے پہرمظفرآباداپنی منزل پر جاپہنچا۔ تقریبا ایک گھنٹہ آرام کرپائے تھے کہ فجرکی اذانیں شروع ہوگئیں اور سب شرکاء کونمازِفجرکے لئے بیدارہوناپڑا۔

۲۱جون۲۰۱۴ء بروزہفتہ:
نمازفجرکی ادائیگی کے بعدعلی الصبح اگلی منزل کی طرف روانگی کانقارہ بجادیاگیا۔ اس سلسلے میں عمررسیدہ اوربزرگ اساتذۃ کوگاڑیوں پرتربیت گاہ تک پہنچانے کاانتظام کیاگیاجبکہ منچلے نوجوانوں کوپیدل منزل تک جانے کی خبرسنائی گئی۔صبح سویرے تقریباپانچ بجے تمام شرکاء مختلف ٹولیوں میں بڑے جوش وخروش سے پیدل سفرپہ روانہ ہوئے۔ روانگی سے پہلے بتایاگیاکہ منزل مقصوددوگھنٹے کی مسافت پرہے ۔ہرچوٹی اور موڑپرمنزل کاگُماں ہوتالیکن منزل تھی کہ دُورسے دُورہوتی جارہی تھی۔ اس دوران کچھ نازک طبع لوگ سفرکی طوالت اورصعوبت کی شکایت کرتے ہوئے بھی سنے گئے لیکن جب بز رگوں اور بچوں کو منزل کی طرف گامزن دیکھتے تو اُن کوشرم آتی اوروہ پھراپنی منزل کی طرف چل پڑتے۔ بالآخر مختلف دشوارگزار راستوں سے گزرتے ہوئے طویل سفرطے کرنے کے بعدبارہ بجے دوپہرکے وقت تمام شرکاء اﷲ تعالٰی کی مہربانی وکرم سے بخیریت اپنی منزل پرجاپہنچے۔منزل پر پہنچ کرتمام احباب نے اﷲ تعالٰی کاشکراداکیااور راستہ کی تھکاوٹ اورصعوبت کواﷲ کی رضاکے لئے برداشت کرنے کاعزم ظاہر کیا۔

تربیت گاہ میں پہنچنے کے بعد تمام شرکاء کی پُرتکلف کھانے سے ضیافت کی گئی اوراس کے سفرکی تھکان کی وجہ سے عصر تک آرام کرنے کی اجازت دی گئی۔ عصر کے وقت ظھر اور عصرکی دونوں نمازوں کونبی اکرم ﷺ کی سنت کی پیروی کرتے ہوئے ایک ہی وقت میں جمع کیاگیا۔ اس کے بعدبھائی طلحہ سعیدنے افتتاحی خطاب فرمایا اور شرکاء کوعُمر اور علاقہ کے لحاظ سے مختلف گروپوں میں تقسیم کیاتاکہ انتظامی امور احسن طریق سے سرانجام دیئے جاسکیں۔

جمع بین صلوٰتین کی غرض سے نمازِمغرب کوتاخیرسے اداکیاگیااورنمازِ عشاء کو جلدی اداکیاگیا۔نمازکے بعدشرکاء کی سفرکی تھکاوٹ دورکرنے کے لئے بھائی اُسامہ عباس نے دینی ترانہ پیش کیا۔اس ترانے پر شرکاء تربیت گاہ میں کافی جوش اورولولہ پایاگیا۔ ترانہ کے اشعارکچھ یوں تھے:

ہم بڑھتے جائیں گے اورپڑھتے جائیں گے
لاالٰہ الااﷲ لاالٰہ الااﷲ
لاالٰہ الااﷲ محمدرسول اﷲ
محکم ہے ایمان ہمارا سچا ہے قرآن ہمارا
سوسوکافرپربھاری ہے ایک ایک جوان ہمارا
ہروادی گھاٹی چوٹی پر ہم چڑھتے جائیں گے
ہم بڑھتے جائیں گے اورپڑھتے جائیں گے
لاالٰہ الااﷲ ----- لاالٰہ الااﷲ
لاالٰہ الااﷲ ----- محمدرسول اﷲ
ہم ٹیپو کی تلواریں ہیں ہم قاسم کی یلغاریں ہیں
کافر کومٹانے اُٹھے ہیں کافرکو مٹاکردم لیں گے
ہروادی گھاٹی چوٹی پر ہم چڑھتے جائیں گے
ہم بڑھتے جائیں گے اورپڑھتے جائیں گے
لاالٰہ الااﷲ ----- لاالٰہ الااﷲ
لاالٰہ الااﷲ ----- محمدرسول اﷲ
ہم ایک ہی گھر میں رہتے ہیں دکھ مل جل کرہم سہتے ہیں
ہم آن سے جینے والے ہیں ہم شان سے جینے والے ہیں
ہروادی گھاٹی چوٹی پر ہم چڑھتے جائیں گے
ہم بڑھتے جائیں گے اورپڑھتے جائیں گے
لاالٰہ الااﷲ ----- لاالٰہ الااﷲ
لاالٰہ الااﷲ ----- محمدرسول اﷲ

دینی ترانہ کے بعدمفتی محمد رفیق طاہرصاحب نیـ انماالموئمنون اخوۃ کے موضوع پر بصیرت افروزخطاب کیا۔جس میں تمام مسلمانوں کوآپس میں اتحادواتفاق کادرس دیاگیااور زمین میں کسی بھی قسم کافسادپھیلانے سے منع کیاگیا۔ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پرجوحقوق ہیں اُن کوضروراداکیاجاناچاہئے۔اورمعروف کاموں میں امیر کی اطاعت کولازم پکڑنے کی تاکید کی گئی۔ اور یہ کہ اسلام کامزاج جوڑناہے توڑنانہیں۔ اس کے بعد سوال جواب کی نشست ہوئی جس میں حاضرین نے مختلف سوالات کے جواب طلب کئے۔

اس کے بعدتربیت گاہ میں پہلادن انجام پذیرہوا اور تمام شرکاء اپنی مخصوص آرام گاہوں میں محو خواب ہوئے اورسب نے میٹھی نیند کے مزے اُڑاے۔

۲۲جون ۲۰۱۴ء بروز اتوار:
تربیت گاہ میں دوسرے دن کا آغاز حسبِ معمول نمازِ تہجد وفجرسے ہوا۔اس کے بعد صبح وشام کے مسنون اذکار کو یاد کرنے کے لئے گروپ بنادئیے گئے۔اس کے بعدخشک چنے،کھجور اورقہوہ سے تمام شرکاء کی تواضع کی گئی۔ بعدازاں ورزش کااہتمام کیاگیا۔ بزرگ افراد کو ایک گروپ میں جبکہ جوان افرادکودوسرے گروپ میں رکھاگیا۔ ورزش کے بعدبھائی اُسامہ عباس نے گزشتہ رات کو پیش کیاگیاترانہ دوبارہ پیش کیا۔ اس کے بعدبھائی ابوحفص انس حماد نے دشمن کے وار سے اپنے آپ کو بچانے کے لئے مختلف کرتب دکھائے۔ اس مظاہرہ کے بعد ساڑھے آٹھ بجے صبح تک آرام کرنے کی مہلت دی گئی توتمام احباب نے اس سے بھرپور فائد ہ اُٹھایا۔

نو بجے صبح بھائی ابوحنظلہ سجاد صاحب نے کلاشنکوف کی تاریخ وتعارف سے متعلق تفصیلی بریفنگ دی۔ اوراس سلسلے میں قرآن کی آیت ﴿واعدوا لھم مااستطعتم من قوۃ ومن رباط الخیل ترھبون بہ عدواﷲ وعدوکموآخرین لا تعلمونھم اﷲ یعلمھم۔۔۔﴾ [سورۃ الانفال آیت ۶۰]کے حوالے خصوصی بیان کیا۔

اس بریفنگ کے بعد۱۰بجے صبح چنے اورروٹی کاناشتہ دیاگیا۔ کچھ وقفہ کے بعد نمازِ ظہر وعصر کی تیاری کرنے کااعلان کیاگیا۔ دونوں نمازوں کی ادائیگی کے بعد معروف عالمِ دین احسان الحق شہباز صاحب نے اﷲ تعالٰی کے بندوں پر حقوق سے متعلق خصوصی خطاب کیا اورمندرجہ ذیل آیات قرآنیۃ سے اپنی بات کا آغاز کیا:﴿یاایھاالناس اعبدوا ربکم الذی خلقکم والذین من قبلکم لعلکم تتقون﴾ [سورۃالبقرۃ آیت۲۱]

ھوالذی ارسل رسولہ بالھدٰی ودین الحق لیظھرہ علی الدین کلہ وکفٰی باﷲ شہیدا۔ [سورۃالفتح آیت ۲۸]

اس کے بعد سہ پہر کے وقت ملٹی میڈیا پر تیراندازی (Archery)سے متعلق خصوصی بریفنگ دی گئی۔بریفنگ میں تیراندازی سے متعلق بڑی دلچسسپ معلومات پیش کی گئیں۔بتایاگیا کہ تیر اندازی زمانہ قدیم سے انسانی معاشرہ میں شکار،جنگ اورکھیل کے لئے جاری وساری ہے۔ اور سب سے پہلاتیرچونسٹھ ہزار سال پہلے براعظم افریقہ میں وجود میں آیا تھا۔

اس حوالے سے قرآن کی آیت ﴿واعدوا لھم مااستطعتم من قوۃ ۔۔۔﴾ کاخصوصی حوالہ دیا گیا۔آپ ﷺ نے اس کے بارے میں فرمایا: الا ان القوۃ الرمی۔ ( خوب سن لو کہ قوت سے مراد تیراندازی ہے) نبی اکرم ﷺ نے تیراندازی کو پسند فرمایااور اپنے ساتھیوں کو تیراندازی سیکھنے کاحکم بھی فرمایا۔ غزوہءِ اُحد میں آپ ﷺ نے پچاس تیر اندازوں کا ایک دستہ پہاڑی درے پر متعین فرمایااور انہیں کسی بھی صورت میں درہ نہ چھوڑنے کی تاکید فرمائی۔ آپ ﷺ نے اسی غزوہ کے کے موقع پر حضرت سعد بن معاذ ؓ کوتیراندازی کرتے وقت فرمایاتھا: ارم فداک ابی وامی۔ (تم تیرچلاؤ تم پر میرے ماں باپ قُربان)۔ سلمہ بن اکوع ؓ بیان فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ نے تیراندازی کی مشق کے وقت فرمایا: تم تیراندازی کرو تمہاراباپ اسمٰعیل ؑ بھی تیرانداز تھا۔آپ ﷺ نے یہ بھی فرمایاتھا: من علم الرمی ثم ترکہ فلیس منا۔ (جس نے تیراندازی سیکھ کراسے ترک کردیاوہ ہم میں سے نہیں)

جب نبی کریم ﷺ دنیاسے رُخصت ہوئے تو اُس وقت آپ ﷺ کے گھر میں نوتلواریں اورپانچ کمانیں موجود تھیں۔

اس کے بعدتیر اندازی کے اجزاء اور مختلف قسم کی قدیم وجدید اقسام کی کمانوں اور تیروں کے بارے میں بتایاگیا۔

دوپہر کے کھانے کے بعد بھائی ابورافع مدیر محمدیہ ماڈرن اکیڈمی مظفرآباد نے اپنی اکیڈمی سے متعلق بڑی تفصیلی بریفنگ دی جس میں محمدیہ ماڈرن اکیڈمی کی تاریخ وتعارف، اغراض ومقاصد، طریقہءِ تدریس اور نصابی وہم نصابی سرگرمیوں کے بارے میں سیر حاصل بحث کی گئی۔ اس بریفنگ کی غرض وغایت کے ضمن میں بتایاگیاکہ ہمارے وطنِ عزیزمیں لارڈمیکالے کے مروجہ نظام میں عربی زبان اور دینی عُلوم کی آج تک حوصلہ شکنی کی جارہی ہے اور عصری تعلیم کوہی ترقی کازینہ قراردیاگیاہے حالانکہ سائنس وٹیکنالوجی کی ترقی مروجہ تعلیم کی مرہونِ منت ہرگزنہیں۔ موجودہ ایجادات کے زیادہ تر موجد عصری تعلیم سے محروم افراد تھے۔ بلب کا موجد ایڈیسن صرف تین ماہ سکول گیاتھا۔ مشہورِزمانہ فورڈگاڑی کاموجد ہنری فورڈ پرائمری پاس تھا۔ھنڈا موٹرسائیکل بنانے والاھنڈانامی سائینسدان سائیکل مرمت کیاکرتاتھا۔ کمپیوٹرکی دنیا میں تہلکہ مچانے والابل گیٹ ایف اے پاس تھا۔ ایک تحقیق میں بتایاگیا ہے کہ امریکہ میں پچاس فی صد گریجوایٹس میٹرک سے بھی کم درجہ کے لوگوں کے ہاں ملازم ہیں۔

یہی حال ہمارے ہاں بھی ہے۔ بڑے بڑے سرمایہ دار اور صنعتکار معمولی درجہ کے تعلیم یافتہ افراد ہیں۔ اتفاق فاؤنڈری کے بانی میاں محمدشریف میٹرک پاس تھے۔ اربوں روپے کے مالک چوہدری ظہور الٰہی کی تعلیمی قابلیت بھی میٹرک ہی تھی۔اس طرح کی اور بھی بہت سی مثالیں پیش کی گئیں۔

تاریخ میں جتنے بھی عظیم لوگ گزرے ہیں وہ سب لارڈمیکالے طرز کے نظامِ تعلیم سے محروم ہی تھے۔ اب بھی اگر ہم سائنس وٹیکنالوجی اوردیگرعُلوم میں ترقی کرناچاہیں تواس مروجہ نظامِ تعلیم میں ایساممکن نہ ہے۔ ہمیں جدیدتقاضوں اور قومی وملکی ضروریات کے تحت اپنے نظامِ تعلیم کوجدیدبناناہوگا۔ اس سلسلے میں کسی کی ڈکٹیشن لئے بغیر قومی وملکی مفادمیں آزادانہ فیصلے کرنے کی اشدضرورت ہے۔اس نشست میں سامعین نے سب سے زیادہ اکیڈمی کے طلبہ کی آوٹ ڈور سرگرمیوں پر مبنی ویڈیوز کو سراہا۔

نمازِ مغرب وعشاء کے بعد جماعۃ الدعوۃ کے بزرگ رہنماء جناب حافظ مسعودکمال الدین صاحب برادرعزیزجناب پروفیسرحافظ محمد سعید امیر جماعۃ الدعوۃ نے جہاد فی سبیل اﷲ کے عالمی اثرات کے موضوع پر نہایت اہم اورایمان افروز خطاب کیا جس میں قدیم وجدیدادوارمیں جہاد کے نتیجے میں مسلمانوں کونصیب ہونے والی کامیابیوں اور کامرانیوں کی مثالیں پیش کی گئیں۔ حافظ مسعودصاحب چونکہ کافی عرصہ امریکہ میں مقیم رہے تھے اورعالمی امور میں اُن کی دلچسپی بھی بھرپورتھی، اس وجہ سے انہوں نے اپنے موضوع کاخوب حق ادافرمایا۔ انہوں نے فرمایاکہ روس کے خلاف جہاد سے پہلے مغربی دنیا میں اسلام اور مسلمانوں کوقدر کی نگاہ سے نہیں دیکھاجاتاتھا لیکن افغان جہاد میں مجاہدین کی کامیابیوں کی بدولت اسلام کومغربی دنیامیں خوب پذیرائی نصیب ہوئی۔

بعدازاں مختصروقفہ کے بعد بھائی سیف الرحمٰن نے ملٹی میڈیاپر کشمیر میں برسرپیکار مجاہدین کے کارناموں سے متعلق بڑی مفصل اورجامع بریفنگ دی جس میں جہادِکشمیر میں درپیش مشکلات ومسائل اور برسرپیکارمجاہدین کے بلندمورال کاتفصیل سے تذکرہ کیاگیا۔ اس بریفنگ کی سب سے اہم بات انڈین میڈیا کی ویڈیوزاوربھارتی حکومتی نمائندوں اورفوج کے اعلٰی عُہدیداران کے وہ بیانات تھے جن میں ان کی بے بسی اور مجاہدین کی برتری اور کامیابیوں کااظہارکیاگیاتھا۔

اس بریفنگ کے بعدتمام شرکاء اپنی آرام گاہ میں محوخواب ہو گئے۔

۲۳جون ۲۰۱۴ء بروز سوموار:
تربیتی وسیاحتی دورہ کے آخری دن کاآغاز حسبِ معمول نمازِ تہجد وفجر سے ہوا۔ نماز کے بعد بھائی طلحہ سعید صاحب نے اﷲ تعالٰی کے ذکر کی اہمیت سے متعلق نہایت جامع خطاب کیا۔ مندرجہ ذیل آیات قرآنیہ کابطورِ خاص تذکرہ کیاگیا۔ ومن یعش عن ذکر الرحمٰن نقیض لہ شیطانا فھو لہ قرین۔ [الآیۃ] (اورجو کوئی رحمان کے ذکر سے منہ موڑے گا ہم اُس پر ایک شیطان مسلط کردیں گے جوہروقت اُس کے ساتھ چمٹا رہے گا)

یاایھاالذین آمنوا اذا لقیتم فئۃ فاثبتوا واذکرواﷲ کثیرا لعلکم تفلحون ۔[سورۃالانفال آیت ۴۵]

خطاب میں بتایاگیاکہ نبی کریم ﷺ نے ہرموقع کی مناسبت سے دعائیں اپنی اُمت کو سکھائی ہیں۔ ہمیں اپنامحاسبہ کرناچاہئے کہ ہم کس حد تک ان دُعاؤں کا اہتمام کرتے ہیں۔ بطور خاص صبح وشام کے مسنون اذکارکاضرورانتظام کرناچاہئے اور اپنی اولادکوبھی موقع محل کی مناسبت سے مسنون دُعائیں ضرور سکھانی چاہییں۔

اس کے بعد ناشتہ میں چنے وانڈے اور روٹی پیش کئے گئے۔ تمام شرکاء نے خوب مزے سے ناشتہ کیا اور اﷲ کا شکرادا کیا۔ ناشتہ کے بعدحسبِ معمول خصوصی نشست کا آغاز باقاعدہ تلاوت قرآن پاک سے ہوا۔ تلاوت کے بعد بھائی محمد ارشد محمدی نے جہادی ترانہ پیش کیا جس کا ایک مصرعہ تھا:
بہارآئی چمن میں اُترالہوشہیدوں کا پھول بن کر

اس کے بعد بھائی اُسامہ عباس نے یہ ترانہ پیش کیا:
جہادی نبی کے جہادی غلام
لڑیں لڑیں گے خُداکی قسم
نہ ہرگِزجُھکیں گے خُداکی قسم
کریں گے اگرچہ یہ مشکل ہے کام
جہادی نبی کے جہادی غلام

اس کے بعد جماعت، اِدارہ اورتنظیم کے موضوع پر بھائی سعید نے بڑی شانداراورجاندار بریفنگ دی۔ اُن کی بریفنگ کی خاص بات ، جس کو بہت زیادہ پسند کیا گیا، مثالوں،سمبلزاورعلامات کے ذریعے بات کوسمجھانا تھا۔ اس بریفنگ میں بتایاگیاکہ دنیامیں جتنے بھی بڑے بڑے عجوبے موجود ہیں ، وہ سب موزوں تنظیم کے باعث وجود میں آسکے۔ اس سلسلے میں نہرسویز، اہرامِ مصر، دیوارِ چین ،غزوہءِ احزاب کے موقع پرخندق کی کُھدائی اور ان جیسی بہت سی مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں ۔

ایک مثال یہ بھی پیش کی گئی کہ سمندر میں ڈوبنے والاشخص کشتی کو مضبوطی سے تھام لیتا ہے کیونکہ اُسے اُس کوتھامنے میں اپنی بقاء نظر آتی ہے۔ اگرکشتی میں سوارافراد اُسے کشتی کوتھامنے سے منع بھی کریں، وہ کشتی کوتھامنے سے پھر بھی بازنہیں آتا کیونکہ اُسے اپنی بقا کی صورت صرف کشتی کوپکڑنے میں ہی نظر آتی ہے۔ بالکُل اسی طرح جو فردجماعت کے ساتھ وابستگی کو اپنے دین کی بقاکے لئے ضروری سمجھتاہے وہ ضرور جماعت کے ساتھ وابستہ رہتاہے۔

جس طرح جسم میں پاورآف اٹارنی دماغ کوحاصل ہے اسی طرح جماعت میں پاورآف ٹارنی امیرِ جماعت کو حاصل ہونی چاہیے۔ اگر جسم کاکوئی حصہ دماغ کاکہنا ماننے سے انکارکردے تو اُس حصہ کو فالج زدہ اور ناکارہ قرار دیدیا جاتاہے، بالکل اسی طرح جو شخص امیرِ جماعت کی اطاعت نہ کرے وہ بھی فالج زدہ عُضو کی طرح بے کارہوجاتاہے۔

ماتحت چونکہ اپنی سطح سے کسی چیز کو دیکھ رہا ہوتاہے اس لئے وہ اپنی رائے دے سکتاہے لیکن امیرِجماعت چونکہ اونچی جگہ سے تمام امورکودیکھ رہاہوتاہے، اس لئے وہ بہترفیصلہ کرنے کی صلاحیت رکھتاہے۔

اس نشست کے بعد ساڑھے گیارہ بجے صبح بھائی طلحہ سعید حفظہ اﷲ کی زیرِصدارت ایک نشست منعقد کی گئی جس میں اپنی موجودہ حالت کامحاسبہ اور آئندہ کی زندگی میں اس تربیت گاہ میں حاصل شُدہ تربیت کے مطابق زندگی گُزارنے کاعہدوپیمان کیاگیا۔ اس مجلس میں کئی اساتذہ نے نبی اکرم ﷺ کی اتباع میں ڈاڑھی رکھنے کے عزم کااظہارکیا۔ اﷲ تعالٰی اُن سب بھائیوں کے اپنے عہد پر ثابت قدم رکھے۔ آمین۔

اس موقع پر بھائی طلحہ سعید نے الوداعی کلمات وقیمتی ہدایات سے تمام سامعین وحاضرین کو نوازا۔ خصوصی طورپر تعمیرِ ملک وملت میں اساتذہ کے کردار پر تفصیل سے روشنی ڈالی گئی۔ اورمحفل میں شریک اساتذہ کرام سے عہدلیاگیاکہ وہ اپنے ملک وملت کی خدمت میں کوئی کسراُٹھانہ رکھیں گے۔

نمازِظہر وعصرکی ادائیگی کے بعدنہایت اہم آخری نشست منعقدکی گئی جس میں عسکری ونگ کے ذمہ داربھائی احمدمزمل نے افغانستان پرامریکی حملہ کے بارے میں بتایاکہ امریکہ کی سرپرستی میں نیٹو فورسز کا افغانستان پر حمل کا اصل ھدف پاکستان کاایٹمی پروگرام اورجہادِکشمیرتھا۔

نبی اکرم ﷺ کے فرمان ـالحرب خُدعۃ کے مصداق ہماری پاک فوج نے دشمن کی ہرچال کوناکام بناکر رکھ دیا۔ آج امریکہ کی حالت دنیاکے سامنے ہے۔ وہ اس جنگ میں بُری طرح ناکام ہونے کے بعدواپس اپنے دیس جانے کے جتن کررہاہے۔

اس موقع پر عوام الناس میں پاک فوج کے خلاف پائے جانے والے تاٗثرات کی بڑی سختی سے تردیدکی گئی اور کہاگیاکہ ہمارادشمن یہی چاہتاہے کہ عوام کااعتماد پاک فوج سے اُٹھ جائے تواُسے اپنے مذموم مقاصد حاصل کرنے میں کسی مُزاحمت کاسامنانہ کرناپڑے۔ جہاں تک غلطیوں کاتعلق ہے تو وہ ہرفردسے ہوسکتی ہیں توایک ادارہ سے بھی ہوسکتی ہیں۔ ہمیں پاک فوج کی غلطیوں کی بجائے اُس کے کارناموں پرنظر رکھنی چاہئے۔ یہ پاک فوج ہی ہے جس نے مجاہدین کی مدد کرکے کشمیر کابہت بڑا حصہ انڈیاکے قبضہ سے آزاد کروایا۔ اسی نے ۱۹۶۵ء میں بھارت کی فوج کو ناکوں چنے چبوائے۔ کارگل آپریشن میں بہادری کی تاریخ رقم کی۔ ایٹمی صلاحیت اور بھارت کے مقابلے میں بہترین میزائیل ٹیکنالوجی حاصل کی۔ یہ پاک فوج ہی ہے جوہرطرح کے مشکل ترین اور بلندترین برفانی محاذوں پر وطنِ عزیز کی سرحدوں کی حفاظت کررہی ہے۔ جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کی وجہ سے ہماری مساجدومدارس محفوظ ومامون ہیں۔ اس دوران شرکاء نے پاک فوج کے حق میں خوب نعرے لگائے۔ اُن نعروں میں سے درج ذیل نعرے شرکاء کے جذبات کی خوب عکاسی کرتے ہیں۔
تیرامیرارشتہ کیا؟ ----- لاالٰہ الااﷲ ----- کشمیریوں سے رشتہ کیا؟ لاالٰہ الااﷲ
پاک فوج سے رشتہ کیا؟ لاالٰہ الااﷲ ----- پاک فوج -----زندہ باد۔۔۔

پاک فوج دنیا کی ۸۶ممالک کی افواج میں سے عسکری صلاحیت کے لحاظ سے پہلے نمبر ہے۔ عالمِ اسلام کوپاک فوج پر فخر اورناز ہے۔ پاک فوج کی ISIاپنی کارکردگی کے لحاظ باقی تمام انٹیلیجنس ایجنسیوں کے مقابلے میں اول نمبر پر ہے۔ الغرض ہمیں پاک فوج پر نازہوناچاہئے نہ کہ اُس کی کردارکُشی پرزبان دراز ہو۔ اﷲ تعالٰی اس ملک وملت اور پاک فوج کو اپنی حفظ واماں میں رکھے۔ آمین

بالآخر نمازِ ظھروعصر کے بعد تمام شرکاء کو نیک دعاؤں وتمناؤں کے ساتھ واپسی پر روانہ کیاگیا۔ بزرگ اساتذہ کو پہلے روانہ کیاگیا۔ اُن کے بعد باقی گروپوں کو بالترتیب روانہ کیاگیا۔ تمام شرکاء بڑے جوش وخروش کے ساتھ اپنے گھروں کی طرف واپسی کے لئے پیدل روانہ ہوگئے۔ تقریبا ڈیڑھ دو گھنٹے کی اُترائی کے بعد تمام شرکاء کے سفر کے لئے گاڑیوں کاانتظام کیاگیا تھا۔ دریائے نیلم پرلینڈ سلائیڈنگ کی وجہ سے ٹریفک کافی درہم برہم ہوئی۔ اس وجہ سے شرکاء سفرکو زیادہ دیر پیدل چلناپڑ الیکن جماعت کے ذمہ داراراکین ہر لمحہ شریک سفررہے اورتازہ ترین صورتِ حال سے متعلق آگاہی دیتے رہے۔ جب ہم دریائے نیلم پر مظفرآباد کی طرف عازمِ سفر ہوئے تو راستے میں جناب بھائی طلحہ سعید کو راستے میں الوداع کرنے کے لئے منتظرپایا۔ بھائی طلحہ سعید نے ٹریفک مسائل کی وجہ سے تاخیر پر معذرت کی۔ تمام شرکاء نے بھائی طلحہ سعید اورجماعت کے دیگرتمام احباب وارکین کاخصوصی شکریہ اداکیا جنہوں نے تربیت گاہ میں تین دن قیام کے دوران مہمان نوازی کاحق اداکیا اور اس دوران تمام مہمانوں کی خوب مہمان نوازی کی اوران کے ہرطرح کے آرام وآسائش کا تن دہی سے خیال رکھا۔ حقیقت میں یہ لوگ بڑے ہی عظیم المرتبت ہیں جو صرف اﷲ کی رضا کے لئے اپنے سب کچھ قربان کرنے کے لئے ہر وقت تیار ہیں۔ اﷲ تعالٰی ملک وقوم کادرد رکھنے والی اورنظریہ اسلام وپاکستان کی محافظ تنظیموں کو دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی عطا فرمائے۔ آمین۔

تمام شرکاء اس یادگار سفر کی قیمتی یادیں سینوں میں لئے اپنے منازل کی طرف خیریت سے روانہ ہوگئے۔
 
Akbar Ali Javed
About the Author: Akbar Ali Javed Read More Articles by Akbar Ali Javed: 21 Articles with 58075 views I am proud to be a Muslim... View More