ذرا نم ہو تو۔۔۔۔۔
(Farrukh Shahbaz, Lahore)
تاریخ گواہ ہے وہ قومیں کبھی
زوال کا شکار نہیں ہوئیں۔ جنہوں نے اپنی نسلوں کی معیاری تعلیم اور تربیت
کا اہتمام کیا۔ کسی بھی قوم کی ترقی کا راز اس قوم کے شعبہ تعلیم کی
کارکردگی میں مضمر ہوتاہے۔ آج بھی ترقی یافتہ اقوام کاجائزہ لیں تو پتا
چلتاہے کہ انہوں نے تعلیم کو اپنی پہلی ترجیح کے طور پر اپنایا ۔ جس کے
نتیجے میں بے شمار ترقی کی ۔ ملکوں کی ترقی میں نوجوانوں کا کردار کسی سے
ڈھکا چھپا نہیں ۔ وطن عزیز کی آبادی کا بڑا حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے۔
ہمارے پر عزم نونہالوں نے محنت کرکے سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں پوری
دنیا میں پاکستان کانام روشن کیا۔ ہمارے ملک کے نامساعد حالات کے باوجود ان
شاہینوں نے وطن کو ایک الگ پہچان عطا کی ہے۔ ذہین نوجوانوں کی فہرست میں
بھی پاکستان نے نیا عالمی ریکارڈ قائم کیاہے۔ جب بھی کوئی نوجوان کارنامہ
سرانجام دیتاہے ۔ یقین کیجیے بجھے ہوئے چراغ جیسے پھر سے جل اٹھتے ہیں۔ابھی
بھی اس اندھیرے میں روشنی کی کرنیں نظر آتیں ہیں۔ ایسی ہی ایک روشنی کی کرن
کی تلاش مجھے لاہور کے کریم پارک تک لے گئی ۔ صرف ساڑھے چھ سال کی عمر میں
مائیکرو سافٹ سے سرٹیفائیڈ مہروز یاور سے ملنے میں ان کے گھرپہنچا تو اس
محنتی اور ننھے بچے نے دروازے پر میرا استقبال کیا ۔ ایک لمحے کے لیے تو
میں عجیب کیفیت میں چلا گیاتھا۔ یہ حیرانگی اور خوشی کی ملی جلی کیفیت تھی۔
اس سے پہلے ارفع کریم جس نے پوری دنیا میں پاکستان کانام روشن کیا ۔ ہزیر
اعوان ، حارث منظور ،علی معین ، نوازش کے عزیز و اقارب سے ملاقات کرچکاتھا۔
میں ان کے والدین کے دمکتے چہرے آج تک نہیں بھول پایا۔ لیکن آج مہروز
یاورکی والدہ اور والد سے بات کرتے ہوئے ان کے چہروں پر سرشاری اور اطمینان
کی ایسی خوبصورت کیفیت تھی ۔ جسے شاید میں لفظوں میں بیان نہ کرپاؤں۔
میں مزید محنت کروں گا اور ان شاء اللّہ اپنے ماما ،پاپا اور پاکستان کانام
پوری دنیا میں خوب روشن کروں گا۔ یہ اس ساڑھے چھ سالہ مہروز یاور کاپہلا
جملہ تھا۔ جسے سن کر میں کیا آپ بھی مسحور ہوجاتے ۔ والدہ کہتی ہیں ،ہمارے
لیے بھی یہ بہت مشکل تھاکہ اتنی چھوٹی سی عمر میں صبح سکول بھیجنا پھر
کمپیوٹر اکیڈمی ، صبح آٹھ بجے سے رات دس بجے تک بچہ پڑھائی میں مصروف
رہتاتھا ۔۔ مہرو ز کے والد پرمنگھم میں ایک ملٹی نیشنل کمپنی کے ساتھ
کنسلٹنٹ کے طور پر کام کرتے ہیں۔اس کم عمر ترین مائیکروسافٹ سرٹیفائڈ کے
والدخوشی کے جذبے کے ساتھ بتانے لگے ’’شروع سے یقین تھا کہ بچہ کچھ نہ کچھ
بڑا کرے گا۔ اندازہ بھی تھا اور مہروز کی والدہ کی توجہ اور محنت کے بعد
یقین ہوگیا تھا۔ مہروز نام روشن کرے گا ۔ میں بیرون ملک تھا ۔ لوگ فون کرتے
تھے کہ آپ کے بچے نے پاکستان کانام روشن کردیا۔ بہت خوشی ہوتی تھی۔
الحمدللّٰہ ، اللّٰہ تعالیٰ کی دی گئی خوشیاں انجوائے کررہے ہیں۔اس مطمئن
خاندان سے مل کر جیسے مجھے بھی جیسے اطمینان حاصل ہو گیا۔جب ان سطور کے
لکھنے والے نے اس ننھے بچے کے گھر والوں سے حکومتی پذیرائی کے متعلق سوال
کیا تو روایتی جلے کٹے اور حکومت کو کوسنے والے الفاظ کی بجائے حکومت اور
میڈیا کے لئے خوبصورت الفاظ سننے کو ملے۔
ہمارے ہاں دیکھنے میں آیا ہے کہ اگر کسی بچے نے کوئی پوزیشن حاصل کر لی یا
کوئی کارنامہ سر انجام دے دیا،اس پرخاندان والے حکومت کی طرف سے دئے گئے
انعام و اکرام پر اعتراض کرتے نظر آئیں گے۔اس بچے کے والد نے بتایا وزیر
اعلی پنجاب میاں شہباز شریف جو ٹیلنٹ کی حوصلہ افزائی کے حوالے سے شہرت
رکھتے ہیں ان کے بیٹے کو لیپ ٹاپ تحفے میں دیا اور اس کی حوصلہ افزائی
کی۔اس سے پہلے بھی وزیراعلی شہباز شریف ہر سال پوزیشن ہولڈرز کا حوصلہ کسی
نہ کسی طرح بڑھاتے رہتے ہیں۔وفاقی سطح اور باقی صوبوں کی جانب سے یہ کمی
محسوس کی گئی ہے۔وفاق اور صوبوں کو شہباز شریف صاحب کے اچھے اقدامات کی
تقلید کرنی چاہئے۔یہ بچے ہمارے ملک کا سرمایہ ہیں پہلے ہی ہمارے ہاں ٹیلنٹ
کی کمی کا رونا رویا جاتا ہے۔جو بچے اپنی کارکردگی کے بل بوتے پر آگے آرہے
ہیں ان کو شاباشی تھپکیاں ضرور ملنی چاہئے۔تاکہ وہ دنیا میں اپنے وطن کا
نام روشن کرنے میں اپنا کردار ادا کرتے رہیں۔
مہروزیاورکو نہ صرف وزیر اعلی مختلف تعلیمی اداروں اور مختلف سیاسی پارٹیوں
کی جانب سے تحائف دیے گئے بلکہ بچے کے تمام تعلیمی اخراجات اٹھانے کی آفر ز
بھی کی گئیں۔یہ اچھی روایت ہے اس کو آگے بڑھانا چاہیے۔ملکی ترقی کے لیے
سیاسی پارٹیاں ان مثبت اقدامات پر متحد ہو جائیں تو ملکی ترقی کی بند ہوتی
راہیں کھل سکتی ہیں۔مغربی ممالک اس حوالے سے بڑی توجہ کے ساتھ کام کرتے ہیں
۔اگر بچے میں تخلیقی صلاحیتیں ہیں تو اس کو آگے بڑھنے کے لئے زیادہ سے
زیادہ مواقع فراہم کئے جاتے ہیں۔دوسری طرف ہم اپنی عدم توجگی سے ٹیلنٹ کو
مسلسل ضائع کر رہے ہیں۔حالانکہ ابھی بھی ہماری دھرتی مسلسل ارفع کریم،حارث
منظور،مہروز یاور اور ان جیسے سینکڑوں ہیرے پیدا کر رہی ہے۔
علامہ اقبال نے بڑی امید کے ساتھ کہا تھا
نہیں ہے نا امید اقبال اپنی کشت ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی |
|