یونیورسٹیاں اور جنسی درندے
(Malik Abdul Rehman Jami, Abbotabad)
پاکستان میں جب تک گنی چنی
یونیورسٹیاں تھیں۔نابغہ روزگار ہستیاں تعلیم وتعلم کے شعبہ سے جڑی تھیں ۔یہ
صاحب کردار لوگ تھے۔شاگرد بیٹا یا بیٹی تصور کیا جاتا تھا۔اسی طرح اس کی
بھلائی سوچی جاتی تھی۔اسی نہج پہ اس کی تربیت۔شاگرد اپنے مستقبل کے بارے کم
سوچتا تھا استاد کو زیادہ فکر ہوتی تھی۔بہت سارے ایسے قصے ہم نے سن رکھے
ہیں کہ شاگرد کا خرچہ تک استاد اپنی جیب سے ادا کیا کرتے تھے۔بہت سارے اپنی
تعلیم مکمل ہونے تک اپنے اساتذہ ہی کے گھر قیام پذیر ہوا کرتے۔استاد اور
شاگرد کے درمیاں تبھی احترام کا رشتہ باقی تھا۔گورنمنٹ کالج یونیورسٹی یا
گورڈن کالج کے پرانے طلباء آج بھی کبھی اپنے اساتذہ کو یاد کرتے ہیں تو ان
کے لفظوں میں انتہاء کا احترام ہوتا ہے اور وہ اس بات پہ فخر محسوس کرتے
ہیں کہ انہیں ان باکمال لوگوں کی شاگردی کی سعادت حاصل ہے۔اس وقت تعلیم و
تعلم پیشہ نہیں عبادت تھی۔اس میدان میں وہی ادب تھا احترام تھا اور خلوص جو
عبادت کے لئے درکار ہوتا ہے۔
پھر یوں ہوا کہ یہ عبادت عبادت نہ رہی پیشہ بن گئی۔پیشہ بن کے اس کا بھی
وہی حال ہوا جو پیشہ کرنے والیوں کا ہوتا ہے۔گھر گھر اور در در یونیورسٹیاں
کھل گئیں۔ہر ایرا غیرا نتھو اور خیرا استاد بن گیا۔کوئی پیسے کا بھوکا کوئی
شہرت کا اور کوئی جنس کا۔پیسے کمانے کی دوڑ لگ گئی۔ایک ایک شہر میں کئی کئی
یونیورسٹیاں کھل گئیں۔وطنِ عزیز میں آپ دوکان کھولیں اور اس کے سائن بورڈ
پہ لکھ دیں کہ یہاں ایٹم بم فروخت ہوتے ہیں۔مجال ہے جو کوئی حکومتی اہلکار
آپ کو چیک کرے کہ بھائی تم یہ بم کیسے بیچ رہے ہو۔اگر کوئی آبھی جائے تو وہ
سو دو سو لے کے ممکن ہے کہ آپ کو اجازت نامہ دے کے چلا جائے۔اسی طرح یہ بھی
ممکن ہے کہ رات تک کوئی سو دو سو آدمی آپ سے یہ بم خرید بھی لے۔ہمارے ہاں
نہ نوسر بازوں کی کمی ہے اور نہ ان کے ہاتھوں لٹنے والوں کو۔جس ملک میں فٹ
پاتھ پہ بیٹھ کے کینسر ،ایڈز اور شوگر جیسی مہلک بیماریوں کا لوگ علاج کرتے
اور کرواتے ہوں اور انہیں کوئی پوچھنے والا نہ ہو وہاں ایٹم بم کا بکنا
کوئی اچنبھے کی بات ہو گی۔
ایک دفعہ ایک دوست کے ساتھ ایک یونیورسٹی جانے کا اتفاق ہوا تو پتہ چلا کہ
یونیورسٹی کا سارا نظام دو کمروں میں چل رہا ہے۔مرد طالبعلم صرف فیسیں
بھرتے اور ڈگری حاصل کرتے ہیں۔ پرچے امتحان نتیجہ یہ سب کچھ یونیورسٹی کے
مالک کے ذمہ ہے۔یہ مالک ڈین بھی ہے۔استاد بھی ہے کلرک بھی اور چوکیدار
بھی۔پرچے بھی یہی مزدوری پہ حل کرواتا ہے اور چیک بھی خود ہی کرواتا ہے۔ہر
طالبعلم نہ صرف پاس ہوتا ہے بلکہ اعلی نمبروں سے۔کوئی حکومتی کارندہ اسے
مذاق سمجھے تو مجھ سے رابطہ کرے۔میں اسے اس یونیورسٹی میں لے جاوں گا۔میں
نے آج سے تین سال پہلے اس کے دورے کی سعادت حاصل کی تھی ۔مجھے یقین ہے کہ
آج بھی اس کی حالت میں کوئی زیادہ بہتری نہیں آئی ہو گی۔بات ہوتی گلوں تک
تو سہہ لیتے ہم لیکن اس طرح کی یونیورسٹیوں میں بھی مرد طلبا صرف فیس بھرتے
ہیں جبکہ خواتین کی اکثریت وہاں پانی بھرتی نظر آتی ہے۔اس پانی سے
یونیورسٹی کا نام نہاد مالک یا استاد نہ صرف اپنی پیاس بجھاتا ہے بلکہ اس
کے دوستوں کو بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کا پورا موقع ملتا ہے۔
اس کے بعدغیر ملکی یونیورسٹیوں کا نمبر آتا ہے۔یہ یونیورسٹیاں دونوں ہاتھوں
سے عوام کو لوٹ رہی ہیں ۔لاکھوں میں فیسیں وصول کی جاتی ہیں لیکن نہ تو ان
کے پاس بلڈنگ پوری ہے۔لیب ہے تو کلاس روم نہیں۔کلاس روم ہے تو لیکچر ہال
نہیں۔ اسی وجہ سے طلباء کو رات آٹھ آٹھ بجے تک یونیورسٹی میں روک کے رکھا
جاتا ہے۔جن میں طالبات بھی شامل ہوتی ہیں۔ جو طالبہ نہ ٹھہرے اس کی حاضری
شارٹ ہو جاتی ہے اور اسے پیپر میں بیٹھنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔اسے بلیک
میل کیا جاتا ہے۔ایسی ایسی کہانیاں ہیں کہ بیان سے باہر ہیں۔لکھتے ہوئے سر
شرم سے جھک جاتا ہے۔کوئی بھی بیٹی کا باپ بھلا کیسے اس طرح کے نازک موضوع
پہ قلم اٹھا سکتا ہے۔معاملہ لیکن ایسا ہے کہ اب آواز اٹھائے بنا چارہ
نہیں۔والدین کو خصوصاََ بچیوں کے والدین کو انتظامیہ سے اس معاملے میں باز
پرس کرنی چاہئیے کہ کیسے وہ رات آٹھ اٹھ بجے تک بچیوں کو روک کے رکھتے ہیں۔
بچیوں کے ساتھ بھی اس سلسلے میں بات کرنی چاہئیے اور اس معاملے کواس کی
نزاکت کے حساب سے دیکھنا چاہئیے۔
آج کل قائد اعظم کے نام پہ قائم اسلام آباد میں واقع ایک یونیورسٹی کے کچھ
اساتذہ کے بارے میں خبریں ہیں کہ وہ طالبات کو جنسی طور پہ ہراساں کرتے ہیں۔
کچھ طالبات نے اس سلسلے میں خواتین کے حقوق کی تنظیموں تک بھی اپنی بات
پہنچائی ہے۔اخبارات بھی کچھ عرصے سے اس موضوع پہ لکھ رہے ہیں لیکن گل محمد
یعنی حکومت کے کان پہ کوئی جوں نہیں رینگتی۔جوں رینگنے کے لئے لیکن بالوں
کی ضرورت ہوتی ہے اور ہمارے اکثر حکمرانوں کے تو بال ہی نہیں۔خدا جانے
ہمارا وزیر تعلیم کون ہے۔جو بھی ہے بیٹھتا تو اسلام آباد ہی میں ہوگا۔اگر
اس نابغے کو اپنی ناک کے نیچے ہونے والے اس معاملے کی خبر نہیں تو اسے ایبٹ
آباد سے رات آٹھ بجے مانسہرہ کے دور دیہات میں جانے والی اس بے چاری طالبہ
کی کیا خبر ہو گی جو رات دس بجے جنگل بیاباں سے گذر کے رات دس بجے گھر
پہنچتی ہے۔اٹھارویں ترمیم کے ذریعے ویسے بھی اب یہ معاملہ قومی کی بجائے
صوبائی ہوگیا ہے۔تعلیم بھلے ہی صوبائی معاملہ ہو ،غیرت شرم حیا تو قومی
معاملہ ہے ناں۔ خدا را اس کی خبر لیں اور ایک آدھ مجرم کو سر بازار لٹکائیں
تا کہ باقی کے جنسی درندوں کو کان ہوں۔آپ تفتیش کرائیں گے تو آپ کو معلوم
ہوگا کہ ایک طالبہ کو تعلیم کے حصول کے بدلے کیا کیا قربان کرنا پڑتا ہے۔ |
|