اسلامی جمہوریہ پاکستان ایک ایسا مک ہے جسے خالصتاً اسلام
کے اصولوں کی پاسداری کیلئے قائم کیا گیا ۔اس مملکت خدا داد کی بنیاد ہی دو
قومی نظریے پر رکھی گئی اور اس بات کا عزم کیا گیا کہ یہاں ہندوؤں اور دیگر
غیر مسلم قوتوں سے آزاد ہو کر مسلمان عین اسلامی تعلیمات کے مطابق اپنی
زندگیاں گزارینگے۔اسلام نے ازل ہی سے خواتین کو انتہائی اہمیت و عزت دی ہے
اور ان کی تذلیل سے منع کیا گیا ہے اسلام سے خدا واسطے کا بیر رکھنے والے
بھی کم از کم اس بات پر متفق ہیں کہ خواتین کا احترام کیا جائے اور حتی ا
لمقدور ان کی بلا وجہ تذلیل نہ کی جائے کم از کم چوراہے کے بیچوں بیچ تو ہر
گز نہیں۔ملک بھر کی بد نام زمانہ پولیس جسے ایک امریکی سٹیٹ سیکریٹری نے
کہا تھا کہ پاکستان کی پولیس تو پیسے کے خاطر کچھ بھی کر سکتی ہے ۔اگر لفظ
کچھ بھی پر غور کیا جائے تو معلوم ہو جائیگا کہ ہماری پولیس کیا کیا کر
سکتی ہے اور اور اس ’’کچھ بھی ‘‘سے امریکی رہنماء کی کیامراد تھی۔ہماری
پولیس اخلاقی انحطاط کا جس قدر بھی شکارہو لیکن اس کے باوجود آخر کار وہ
ایک اسلامی ریاست کی پولیس ہے لہٰذا فیصلہ کیا گیا کہ خواتین کے مسائل حل
کر نے ، انکی داد رسی کر نے اور انھیں انصاف فراہم کر نے کیلئے خواتین
پولیس کا ایک الگ شعبہ بنایا جائے جہاں تھانیدار سے لیکر کانسٹیبل تک
خواتین ہی ہوں ۔اور اس پر عمل بھی ہوا یہ الگ بات ہے کہ جب خواتین کو بطور
پولیس افسران اختیارات ملے تو انھوں نے ظلم و بر بریت کے وہ کارہائے نمایاں
سر انجام دئے کہ الامان الحفیظ۔بحر حال جو کچھ بھی ہو صنف نازک کیلئے صنف
غیر نازک ہی سہی کم از کم خواتین ملزمان ہو ں یا انصاف کے حصول کیلئے’’
خواتین تھانے‘‘ آنے والی مستورات سب کو خواتین پولیس اہلکار ہی ڈیل کر تی
ہیں۔یہ توبات تھی ہماری عام پولیس کی اب اگر اپنی ٹریفک پولیس پر ایک
طائرانہ نظر دوڑائی جائے تو معلوم ہو تا ہے اس کے اہلکار افسران ہر قسم کی
اخلاقی و قانونی حدود سے نہ آ شنا ہیں ۔گھمنڈ یہ ہے کہ ہم بہت قانون پر عمل
کر نے والے ہیں اور ہمیں بہت زیادہ اختیارات بھی تفویض کر دئے گئے ہیں۔
بھرے بازار میں جس کی جب چاہیں بے عزتی کر دیں ہمیں کو ئی پوچھنے والا نہیں
ہے ۔اکثر سڑکوں اور چوراہوں پر خواتین سے بد اخلاقی کر نا اپنا فر ض سمجھتے
ہیں ۔بندے جو بھی کر لیں پرواہ نہیں لیکن ٹریفک کے تمام اصولوں پر عمل کر
نے والی خاتون کو روک کر اس کے ساتھ بحث کر نا ان کا محبوب مشغلہ ہے ۔راقم
کو اس بات پرکو ئی اعتراض نہیں کہ اگر کوئی خاتون ڈرائیونگ کے دوران ٹریفک
کے کسی اصول کی خلاف ورزی کر تی ہیں تو اسے کیوں روکا اور اس سے کیوں باز
پرس کی گئی یا اس کا چالان کیوں کیا گیا ۔اگر ایسا ہے تو ان کے خلاف بھی
قانون کے تحت کارروائی کی جائے لیکن پولیس اہلکاروں کا کام عوام کو سہولت
فراہم کر نا ہے کسی بھی قانون کے تحت انھیں یہ اختیار حاصل نہیں ہے کہ وہ
خواتین کے ساتھ بد تمیزی کرنا شروع کر دیں یا اس کی اوراس کے ساتھ بیٹھی ہو
ئی خواتین کی تصاویر بنانا شروع کر دیں ۔جیسا کہ 3جولائی کو ایف سیون ٹو
میں دن گیارہ ساڑھے گیارہ بجے کے دوران ایک پولیس اہلکا محمد صادق نے ایک
خاتون ماہر تعلیم کے ساتھ کیا ۔ظاہر ہے کہ اس نے یہ سب اپنے افسران بالا کی
شہہ پر ہی کیا ہوگا ۔سوال یہ پیدا ہو تا ہے جب جرائم پیشہ خواتین سے ڈیل کر
نے کیلئے خواتین پولیس اہلکار بھرتی کی گئی ہیں اور انھیں استعمال بھی کیا
جارہا ہے تو ٹریفک پولیس میں بھی بہت سی خواتین پولیس بھرتی ہو ئی ہیں لیکن
وہ کہاں لا پتہ ہیں اس حوالے سے کو ئی خیر خبر نہیں ہے ۔کبھی ٹریفک پولیس
کے دفتر جانا ہو تو کچھ خواتین پولیس اہلکار نظر آ جاتی ہیں یا کسی خاص
تقریب کے موقع پر بھی یہ خواتین پولیس اہلکار دکھائی دے جاتی ہیں لیکن
سڑکوں پر وہی مرد پولیس اہلکارایک ہی لاٹھی سے سب کو ہانک رہے ہو تے
ہیں۔سوال یہ پید ا ہو تا ہے کہ آخر ان خواتین پولیس اہلکاروں سے کیوں ڈیوٹی
نہیں کرائی جاتی کیا انھیں صرف افسران کی تفریح طبع کیلئے ہی رکھا گیاہے ۔ |