رمضان کا مہینہ شروع ہوتے ہی مہنگائی کا نیا طوفان بھی
بازاروں میں آگیا ۔ غر یب طبقہ جو پہلے سے مہنگائی کی وجہ سے پر یشان تھا ‘
اشیائے خوردو نوش خر ید نا اب مز ید مشکل ہو گیا ہے‘ رمضان شروع ہوتے ہی
قیمتیں ڈبل ہو نے سے ڈیلی ویجز ملازمین کے مسائل میں بھی گئی گنا اضافہ ہوا
ہے ۔اسلام کے نام پر قتل و غارت کر نے اور غیرت کے نام پر اپنی بچیوں اور
بیٹیو ں کو زند ہ درکوں کر نے والے ہم مسلمان اس وقت یہ بھول جاتے ہیں کہ
جن ممالک کو ہم اسلام دشمن اور مسلمانوں کا قاتل سمجھتے ہیں وہاں پر ان کے
مذہبی تہواروں کے موقعوں پر بازاروں میں اشیائے خوردونوش سمیت ہر قسم کی
چیز یں مز یدسستی ہو جاتی ہے ۔ ہم اسلام کے بنیادی تعلیمات ہی بھول چکے ہیں
کہ مسلمان ایک دوسرے کے بھائی ہے اور ذ خیرہ اندوزی اسلام میں جائز نہیں۔
دوسری طرف تبد یلی کے نام پر ووٹ حاصل کرنی والی حکومت شاید یہ بھول چکی ہے
کہ عوام کو بنیادی ضروریات ز ندگی دینا ان کا کام ہے ‘مہنگائی اگر چہ و
فاقی حکومت کے زیر کنٹرول اداروں اور فیصلوں سے کم و ز یادہ ہو تی ہے یعنی
پٹرولیم مصنوعات ، بجلی و گیس ،ڈالر کی قدر میں اضافے سمیت سیلزاور جنرل
ٹیکس میں اضافے سے اشیائے خوردو نوش سمیت ہر چیز کی قیمتوں میں اضافہ ہو
جاتا ہے لیکن اس کے باوجود صوبائی حکومتیں بھی بہت حد تک مہنگائی کو کنٹرول
کر سکتی ہے۔ دنیا بھر کے اوپن مارکیٹوں میں بھی ایک قیمت مقر ر ہو تا ہے جس
میں خر یدوفر وخت کی جاتی ہے جب کہ پا کستان میں اس کے بر عکس ہر بازار
اوردکاندار کا اپنا دام ہو تا ہے جس کو پوچھنے والا کوئی نہیں ۔وفاقی اور
صوبائی سطح کے علاوہ ضلعی سطح پر بھی ادارے اور محکمے مو جود ہے جن کا کام
بازاروں میں ریٹ کنٹرول کر نا اور ملو ٹی اشیا کی روک تھام کر نا ہو تا ہے
لیکن بد قسمتی سے ان اداروں کی کار کردگی صفر ہے بعض اوقات یہ ادارے چھاپے
اور پکڑدھکڑ بھی کر لیتے ہیں لیکن اس کے بعد وہی سسٹم اور کار وبار دوبارہ
شروع ہو جاتا ہے ۔اس سلسلے میں وفاقی حکومت سمیت چاروں صوبوں کا ایک جیسا
حال ہے‘کوئی صوبہ بہتر نہیں جس کی مثال دی جا سکیں۔ رمضان کے مقدس مہینے
میں پنجاب کے تو بعض شہروں میں سستے بازار لگائے گئے ہیں جس میں چیز یں تو
سستی نہیں ملتی لیکن پھر بھی دل کو تسلی ہو جاتی ہے کہ سستے بازار ہے کچھ
نہ کچھ تو سستا مل ہی جائے گاجب کہ باقی صوبوں کی طرح خیبر پختونخوا حکومت
نے بھی کوئی سستے بازار نہیں لگائے ہیں جس سے عوام کو فائد ہ ہو بلکہ ر
مضان شروع ہو تی ہی اشیائے خوردونوش سمیت موسمی فروٹ آم، تربوزو خر بوز،
آلوبخارے سمیت ہر چیز کی قیمت ڈبل ہو گئی ہے جبکہ دودھ اور دہی بھی سو روپے
کلوبگ رہاہے۔غریب آدمی جوپہلے سے کئی مسائل سے دو چار تھا اب رمضان کامہینہ
شروع ہوتے ہی عام آدمی کی قوت خر ید بھی جواب دے چکی ہے ۔ بازاروں میں من
پسند ریٹ چل رہے ہیں ‘سبزی سے لے کر مر غی اور گوشت تک ہر علاقے میں اپنا
اپناریٹ چل رہا ہے ‘ ناجائز منافع خوری عروج پر ہے ‘انتظامیہ وسائل اور
افرادی قوت کم ہونے کا بہانہ بنا کر خاموش تماشائی کا کر دار ادا کر رہی ہے
۔تبد یلی کے نام پر ووٹ لینی والی حکومت کو چاہیے کہ جنگ سے متاثر ہ ہو نے
والے صوبے کے عوام کو کم از کم اشیائے خوردونوش میں ریلیف اگر نہیں دے سکتی
تو کم از کم لو ٹ کھوسٹ کا بازار تو بند کر یں جس نے عام آدمی کے منہ سے
روٹی چھین لی ہے ۔ عوام کے مطالبات کو مد نظر رکھتے ہوئے مستقل سستے بازار
لگانے کے انتظامات ہر دس کلومیٹر کے احاطے میں کر نا چاہیے جہاں پر حکومت
کی طرف سے ہر چیز کا ریٹ مقرر ہواور مقرر ریٹ ہی میں خر ید و فروخت کی جاتی
ہو ‘ سستے بازار کے انعقاد سے مصنوعی مہنگائی پر بہت حد قا بوپایا جا سکتا
ہے اور بے روزگاری کو کم کر نے میں بھی بہت حد یہ بازار معاون ثابت ہو سکتے
ہیں ۔پشاور کے ضلعی انتظامیہ نے شہر میں سستے بازاروں کے نام پر کچھ جگہوں
پر محدود پیمانے پر دوکانداروں کو اکٹھا کر نے کی کوشش کی ہے جو نا صرف
ناکا فی اور بد نظمی کا شکار ہے بلکہ انتظامیہ کے اقدامات سے معلوم ہو تا
ہے کہ یہ صرف سستے بازار کے نام پر خانہ پوری ہو ئی ہے۔ مو جود اقدامات سے
عوام کو ریلف دینے اور اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں کمی نظر نہیں آرہی ہے
جس کودیکھتے ہوئے حکومتی اقدامات کو سراہا جائے۔ |