سحری و افطار اور محکمہ برقیات

دوعورتیں آپس میں پڑوسی تھیں ان کا رہنا سہنا کھانا پینا ایک جیسا تھا ،ان کے طور طریقہ،رسم و رواج،بھی ملتا جلتا تھا ،ان کی عادتیں،مزاج بھی ایک جیسے تھے یہاں تک کہ کسی ایک کے گھر کوئی پریشانی، دکھ، تکلیف آتی تو دونوں برابر کی متاثر ہوتیں،کوئی نقصان ،یا تبدیلی آتی تو بھی دونوں ہی پر ان کے اثرات پڑتے،یہاں تک کہ تمام شعبہ زندگی،جس میں جینے سے لیکر مرنے تک،اور خوشی سے لیکر غمی تک دون کے سانجے تھے،ان دونوں کا ایک دوسرے کے بغیر جینا مشکل تھا،ان کی سوچ،خیال،مزاج، سب کچھ ایک ہونے کے باوجود،ایک وجود کے دو حصے ہونے کے بعد بھی ان میں ایک فرق تھا ، اور وہ فرق یہ تھا کہ دونوں عورتیں اگر باہر کہیں جاتیں،یا کوئی بھی روز مرہ کا کام کرتیں تو دونوں کا انداز ایک جیسا ہوتا مگر ایک عورت اپنا کام کچھ بہتر کرنے کی کوشش کرتی ،جب کہ دوسری کو اس کی پرواہ نہ ہوتی، کام ہوا نہ ہوا اسے کوئی فرق نہیں پڑتا،ایک دن دوسری عورت نے پہلی عورت سے پوچھا کہ تم اتنی ڈرتی کیوں ہو، تم کچھ کام بہتر کرنے کی کوشش کیوں کرتی ہو،اس پر پہلی عورت نے جواب دیا کہ اصل بات یہ ہے کہ جب میں کام ٹھیک نہیں کرتی تو مجھے گھر سے بہت تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے،میری بے عزتی کی جاتی ہے،مجھے کرپٹ اور بدمعاش کہا جاتا ہے ،مجھے اپنے گھر سے مخلص نہ ہونے کا طعنہ دیا جاتا ہے،گھر کا بچہ بچہ میرے خلاف ہو جاتا ہے پھر مجھے ان کو سمجھا نا اور سنبھالنا مشکل ہو جاتا ہے ،اس لئے میری مجبوری ہے کہ اپنے وجود کو قائم رکھنے کے لئے کچھ گھر والوں کی بھی سن لیتی ہوں،مگر اکثر کرتی اپنی مرضی ہی ہوں،کچھ کام ایسے ہوتے ہیں جن سے گھر والے برائے راست متاثر ہوتے ہیں تو ان کو کچھ سوچ کر کرتی ہوں۔۔پہلی نے دوسری سے پوچھا کہ ہمارا سب کچھ سانجھا ہے ہمارا نظام زندگی بھی ایک جیسا ہے پھر تم اتنی بہادر کیسی ہو تم کو کسی کی پراوہ کیوں نہیں ہوتی،تمہارے گھر والے بھی تو میری طرح کے ہیں مگر تم ٹس سے مس نہیں ہوتی اس کی کیا وجہ ہے؟،دوسری عورت نے جواب دیا کہ کام غلط کرنے سے جن مشکلات سے تم گزرتی ہو میں بھی ان سے گزرتی ہوں مگر فرق یہ ہے کہ میں اس شور شرابے پر جو میرے غلط کام پر اٹھتا ہے اس پر کان نہیں دھرتی،کہنے والے کہتے رہتے ہیں میں گھر والوں کو اتنی اہمیت ہی نہیں دیتی،اس کے علاوہ میں نے اپنے گھر کے اندر رہنے والے تمام افراد کو کسی نہ کسی حوالے سے تقسیم کر رکھا ہے وہ افراد جن کے شور سے میں متاثر ہونگی ان کو میں نے اپنے ساتھ ملا رکھا ہے اور جو عام افراد ہیں جن کی آواز سے مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا ان کو الگ کیا ہوا ہے اس لئے شور تو میرے گھر میں بھی ہوتا ہے مگر میں اس کی پرواہ نہیں کرتی۔۔

ان دونوں عورتوں کی کہانی پاکستان اورپاکستان کے زیر سایہ کشمیر سے ملتی ہے،ان دونوں میں تمام شعبہ زندگی ایک جیسے ہیں کوئی ایک بات کا بھی فرق نہیں کرپشن ،چور بازاری،لوٹ مار،بے روزگاری، منافقت، مسائل،جھوٹ، دونمبری،میرٹ کی پامالی،انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی،تمام شعبہ زندگی کی بددیانتیو ں میں ان دنوں خطوں کے حکمرانوں،بیورکریٹس میں کانٹے دار مقابلہ ہوتا ہے،اس کے علاوہ سیاست اور سیاست دان کا رویہ، سرکاری محکموں میں نااہل لوگوں کی اجاراداری،عوام کو انسان تک نہ سمجھنا،میں بھی ایک دوسرے سے اگے نکلنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔اس وقت ماہ صیام میں دونوں خطوں میں مہنگائی،چور بازاری،رمضان میں ایشائے خورونوش کی قیمتوں میں بے پناہ اضافہ،بلیک میلنگ،اور جو مال کبھی نہیں بکتا اس کو اس میں میں بیچنادونوں جگہوں میں برابر ہے ان مسائل اور ان سے بھی بڑی مشکلات کے علاوہ اس وقت سب سے بڑا مسئلہ بجلی کی لوڈ شیڈنگ کا ہے،جو کہ شروع سے ہے مگر دونوں اطراف کے حاکم وقت نے ان محکموں کے نا خداوں نے یہ بیانات دیے کہ باقی کچھ ہو نہ ہو رمضان میں افطار اور سحری کے اوقات میں بجلی کی بندش نہیں ہوگی،یہ بیانات بھی ان کے تمام ماضی کے کھوکھلے بیانات کی طرح جھوٹے نکلے، پاکستان میں افطار اور سحری کے وقت بجلی بند ہوتی ہے تو وہاں کا میڈیا شور مچانا شروع کر دیتا ہے ،عوام باہر نکل آتی ہے، سڑکیں بند کر دی جاتیں ہیں،جب یہ ہنگامے اور شور کی آواز ان محکموں کے اعلیٰ افسروں کے کانوں سے ٹکراتی ہے تو وہ اپنی عزت بچانے کی خاطر پھر کچھ ہاتھ پاوں مارتے ہیں اور کچھ دنوں کے لئے بجلی بحال کر دیتے ہیں۔ مگر آزاد کشمیر میں اس سے بالکل الٹ ہے یہاں خاص کر کے باغ اور اس کے مضافاتی علاقے جن میں خاص کر بیر پانی، اندروٹ،ریڑبن شامل ہے بجلی دیکھنے کو نہیں ملتی،اور اگر کسی وقت آ بھی جائے تو سحری اور افطار کے وقت چلی جاتی ہے،عوام خاص کر کے ان دونوں اوقات میں بددعاہوں سے اپنا روزہ افطار کرتے اور سحری بند کرتے ہیں۔عوام بجلی نہ ہونے سے کتنی مشکلات کا سامنا کرتی ہے اس کا اندازہ ان بیوروکرٹس اور حکمرانوں کو نہیں ہو سکتا کیوں کہ وہ ان مشکلات سے نہیں گرزتے اور دوسری بڑی وجہ خاموشی اوربے فکری کی یہ بھی ہے کہ یہاں پر میڈیا جو آئینہ دیکھائے نام کی کوئی چیز نہیں،بس اندھیر نگری چوپٹ راج والی بات ہے۔راقم نے ایک دو بار بجلی کی بندش پر عوام کی مشکلات اور پریشانی پر لکھا تو حدِ انصاف دیکھیں کہ یہاں کے محکمے والے گھر تک پہنچ گئے کہ آپ نے ہماری پگڑی اچھال دی۔خیر وہ اپنا کام کرتے ہیں میں اپنا،یہاں پر قسم توڑنے کے لئے ہفتے میں ایک ادھ بار چند منٹ کے لئے بجلی کے بٹن کو آن کیا جاتا ہے مگر اکثر ادھا نوالہ منہ میں ہوتا ہے کہ بجلی بند ہو جاتی ہے،باغ کے دیہاتوں میں سب سے بڑی جو مصیبت ہے وہ یہ کہ ایک بار بجلی بند ہوتی ہے تو پھر واپس آنا بھول جاتی ہے ،ڈیوٹی پر تعینات اہلکار لمبی تان کے سو جاتا ہے ،بچے،بوڑھے، خواتین انتظار کرتے ہی راہ جاتے ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کشمیری عوام اپنی شکایات لے کر کہاں جائیں،اپنا دکھ ،اپنی پریشانیاں کس کو بتائیں،بڑے بڑے کمروں میں بیٹھے عوام کی مشکلات سے بے خبر بادشاہوں کو سب اچھا ہے کی رپورٹ مل جاتی ہوگی،اور وہ بھی اس جھوٹ کو سچ مان کر سکون میں آجاتے ہونگے کہ سب ٹھیک ہے،اتنی زحمت کرنا ان کو گوارہ نہیں کہ وہ عوام سے بل تو لیتے ہیں ایک بار ان کی خبر بھی لے لیں۔کھانے پینے کی ناقص اشاء پر تو رمضان کے نام سے ہاتھ دھوئے جاتے ہیں،کم از کم محکمہ برقیات سحری اور افطار کے اوقات کا احترام کرتے ہوئے لوڈشیڈنگ کو ختم کر کے ہزاروں لاکھوں لوگوں کی دعاہوں میں شامل ہو جائیں۔اور اعلیٰ انتظامیہ بھی لوڈشیڈنگ کے خلاف سختی سے نوٹس لیتے ہوئے ان برکات میں اپنا حصہ ڈالے ۔۔
iqbal janjua
About the Author: iqbal janjua Read More Articles by iqbal janjua: 72 Articles with 75143 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.