شیر باغ کے شہر میں

 رات آٹھ بجے کا وقت تھا گھر والے افطاری کے بعد اپنے اپنے کاموں میں مصروف تھے کہ اچانک ایک بچی کو پیٹ میں درد شروع ہو گیا ،پہلے تو گھر والوں نے اسے نارمل لیا مگر جب درد تیز ہوا توگھر والوں کی توجہ اس کی طرف ہوئی ،کوئی طبعی سہولت نہ ہونے کی وجہ سے دیسی ٹوٹکے ازمانے لگے مگر ان سے کام نہ چلا بچی کو درد تیز ہوتا گیا،گھر والوں کے پاس اب سوائے اس کے اور کوئی حل نہ تھا کہ کسی نہ کسی طرح اس کو ہسپتال پہنچایا جائے،رات کا وقت تھا گاڑی کی سہولت بھی نہ تھی،پھر گھر والوں نے اس کو سڑک تک پہنچایاگاڑی بک کی اور باغ ڈسٹرکٹ ہسپتال لے گئے یہاں پر اس وقت کوئی بھی موجود نہ تھا ،ایک پر دیسی ڈاکٹر جو آنے والے مریضوں کوبس بنیادی طبعی امداد دیتا اور پھر ایک لمبی کہانی سناتا اور مریضوں کے پاس بے بسی کے سوا کچھ نہ ہوتا،اس بچی کو جب ڈاکٹر نے دیکھا تو ڈاکٹر نے بتایا کے اسے، اپینڈیکس کا درد ہے اس کا اپریشن ہوگا،بچی کے گھر والوں نے ڈاکٹر سے کہا کہ کچھ انتظام کرو مگر ڈاکٹر بے بسی کی تصویر بنا کہنے لگا کہ میں اکیلا ہوں میں اس وقت چپڑاسی سے لیکر ڈاکٹر تک سب کچھ خود کرتا ہوں،میرے پاس ایسی کوئی سہولت نہیں کہ میں اپریشن کر سکوں،اس کا کہنا تھا کہ میں نے اپنی زندگی میں اتنی لمبی ڈاکٹروں کی ہڑتال نہیں دیکھی،کہ تین ماہ ہونے والے ہیں اور کوئی بھی اس مسئلے کی طرف توجہ نہیں دیتا ،مجھے اس بات سے بھی حیرانی ہے کہ ڈاکٹر بھی آپ کے ،اس محکمے کا وزیر بھی آپ کا بچے بھی آپ کے مریض جو بھی آتا ہے وہ سب ایک ہی علاقے ایک ہی ضلع کے ہوتے ہیں مگر پھر بھی کوئی نہیں سنتا، اگر یہ عوام چاہئے تو یہ ہڑتال ایک گھنٹے میں ختم ہو سکتی تھی مگر یہاں پر لوگوں کو آپنے بچوں کی ، ماں باپ کی، رشتے داروں کی زندگی عزیز نہیں سیاسی لیڈر عزیز ہیں کوئی کسی کے خلاف آواز نہیں اٹھاتا،یہاں تک کہ ڈاکٹر جن کا مطالبہ ایک ہے ،جن کی ضروریات ایک ہے ،جن کی کاز ایک ہے ،مگر جب کسی احتجاج کی بات آتی ہے تو سیاسی بیس پر تقسیم ہو جاتے ہیں،کوئی کسی سیاسی لیڈڑ کا پجاری ہے کوئی کسی کا، میں نے ایسا سیاسی تعصب کہیں بھی نہیں دیکھا،مریض آتے ہیں خوار ہوتے ہیں گالیاں، بدعائیں دیتے ہیں اور پھر کسی مسیحا کی تلاش میں نکل جاتے ہیں،بچی کے ساتھ جاننے والوں نے جب یہ دیکھا کہ یہاں پر کوئی صورت نہیں بنتی تو انہوں نے بچی کو وہاں واپس ایک پرائیویٹ ہسپتال میں منتقل کیا جہاں ڈاکٹروں نے بتایا کہ پندرہ ہزار لگے گا اپریشن کا ،۔کسی نے کہا کہ ہم فلاں کے رشتے دار ہیں، کسی نے کہا ہم قمر زمان کے رشتے دار ہیں ،کسی نے کہا فلاں عہدیدار ہمارا یہ لگتا ہے مگر اس وقت ان کے سب تعلقات ناکام ہو گئے ایک ہی حل تھا کہ پندرہ ہزار کا بندو بست کرو اور آپریشن ہوگا،پھر انہوں نے ادھر ،اُدھر فون کرنے شروع کئے پیسوں کا بند بست ہوا اور بچی کااپینڈیکس کا اپریشن کیا گیا۔، بچی کے ساتھ آنے والوں نے سڑک پر پھر پھر کے رات گزاری ،ان کا کہنا تھا کہ ہمیں اب اندازہ ہوا کہ ہم لوگ کس قدر مفاد پرست ہیں،ہمارے سیاسی لیڈر اور پھر خدمت خلق کا نام استعمال کر کے نوکریاں حاصل کرنے والے یہ ڈاکٹر تین ماہ سے ہڑتال پر ہیں عوام کی کسی کو پرواہ نہیں،حرت کی بات یہ ہے کہ جنگ کے دوران بھی ہسپتالوں کو بند نہیں کیا جاتا مگر یہاں پر امن کی صورت میں بھی یہ حال ہے کہ مریض تڑپ تڑپ کر مرتے ہیں۔عوام اپنی اپنی برادریوں میں تقسیم ہے ، ایک اگر آواز اٹھاتا ہے تو دوسرا بند کروا دیتا ہے ،دوسرا اگر کوئی احتجاج کرتا ہے تو تیسرا مخالف ہو جاتا ہے۔ہمارے وزیر صحت کا علان ہے کہ یہاں آنے کے بجائے سائی جاوید کے پاس چلے جاو مگر اس کا کوئی علاج نہیں۔اب سننے میں آیا کہ آدھے مطالبات ابھی مانے گئے اور کچھ اگلے مرحلے کے لئے چھوڑ دیے گئے،اگر ایسا ہی ہونا تھا تو پہلے ہو جاتا ،تا کہ عوام اذیت سے بچ جاتی، اب ہڑتال ختم ہوئی مگر سوال تو یہ ہے کہ اتنی لمبی مدد کے لئے ضلعی ہسپتال میں ڈاکٹروں سمت حملے کا موجود نہ ہونا شیر باغ کے لئے سوالیہ نشان تھا۔ ایک دفعہ سیٹھ کی فیکٹری میں ایک ملازم نے انوکھا احتجاج کیا اس نے اپنی سائیکل پر فیکٹری کے احاطے میں چکر لگانے شروع کر دیے اس کا کہنا تھا کہ میں اس وقت تک اس سے نیچے نہیں اتروں گا جب تک میرا مطالبہ نہیں مانا جاتا،چوبیس گھنٹے گزرے تھے کہ فیکٹری کہ مالک نے اس کا مطالبہ مان کر اس کو نیچے اتروا دیا ،کسی نے مالک سے پوچھا کہ آپ نے اس کی بات کیوں مانی یہ پھرتا رہتا آخر کب تک یہ چکر لگاتا ،مالک نے جواب دیا کہ اصل بات اس کے مطالبے کی نہیں بلکہ میری عزت کی ہے اگر اسے کچھ ہو جاتا تو سب یہی کہتے کہ میری اتنی اقات نہیں تھی ، اس لئے میں نے ایسا کیا، یہاں ہماری بد قسمتی یہ ہے کہ خاندان، برادری، علاقہ، قبیلہ،سے جو فرق رہتا ہے وہ ہم سیاسی تعصب کر کے پورا کرتے ہیں،ہم یہ نہیں دیکھتے کہ ہم نے اپنے حکمرانوں کو کیوں ووٹ دیا ان کو اتنی عزت کس لئے دی ،ان کے پیچھے اپنے دن رات کیوں ضائع کئے،یہ ہسپتال،سکول، کالج، یہ دفاتر عوام کے لئے ہیں نہ کہ سیاسی جنگ لڑنے کے لئے، یہ سڑکیں،پل،بجلی، پانی،تمام تر زندگی کی سہولیات سے اگر عوام محروم ہے تو پھر کیا فائدہ اس نام کا اس اقتدار کا ،اس سیاست کا ،اس عہدے کا،ان ہڑتالوں کے دوران مریضوں کے ساتھ کیسا کیسا سلوک ہوا اگر بتا دیا جائے تو انسانیت افسوس کرنے لگتی ہے،ماوں کے سامنے بچے تڑپتے رہے مگر کوئی دیکھنے والا پوچھنے والا نہیں تھا،امیر تو یہاں آتا ہی نہیں غریب جس کے پاس کوئی اور راستہ نہیں ہوتا وہی آتا ہے مگر یہاں پر اس کے ساتھ کیا ہوتا یہ وہی جانتا ہے۔ایسی دل ہلا دینے والی بے شمار کہانیاں ہیں،عوام کے ساتھ ہونے والے اس سلوک کا زمہ دار کون ہے یہ تو اﷲ ہی جانتا ہے عوام خود یا پھر ان کے قائد ، یہ سب کچھ کسی جنگل میں نہیں، فلسطین کے شہر میں نہیں،بھارت کے زیر کنٹرول کشمیر میں نہیں بلکہ شیر باغ کے شہر میں ہوا ۔ہوتا تو یہاں پر بہت کچھ ہے بجلی کا سنگین بحران،مہنگائی کا بے قابوں طوفان مگر ان کے قلم دان ان کے پاس نہیں اس لئے یہ شکوہ بھی ان سے نہیں۔
iqbal janjua
About the Author: iqbal janjua Read More Articles by iqbal janjua: 72 Articles with 75017 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.