متاع ِ کا رواں

شش جہات میں سکون عنقاء ہے ۔ انسانوں کے مابین نفرتیں وجود پاچکی ہیں ۔ جس کا انجام روز بروز کی سنجیدہ اور بھیانک صورت حال کی شکل میں پیش نظر ہے ۔ بھائی بھائی کا خون پی رہا ہے ۔ محبتیں ختم ہو گئی ہیں ۔ رشتوں کا تقدس پا مال ہو چکا ہے ۔ بیٹے کے دل میں باپ کیلئے احترام کی کوئی گنجائش نہیں رہی ۔ بڑوں کی حد درجہ بے ادبی کے مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں بزرگوں کی نصیحتیں چھوٹوں پر اثر نہیں کرتیں ۔ دوسرے لفظوں میں ادب و احترام اور غیرت کا جنازہ اٹھ چکاہے ۔ جب کسی معاشرے یا سماج میں ادب و احترام کی جگہ خبط سے کام لیتے ہوئے بزرگوں اور بڑوں کو بے وقوف اور خبطی کہا جاتا ہو تو کیا ایسا معاشرہ یا ایسی نسل دانا و دانش مند کہلائے گی ۔۔۔۔؟

بزرگوں سے سنا ہے کہ پرانے وقتوں میں احترام ہی ماحصل حیات ہوتا تھا ۔ نئی نسل کی اوّلین ترجیح ہوتی تھی کہ بزرگوں کا ادب و احترام کر کے حکمت و دانائی کے جواہر انمول سے مالا مال ہوا جائے یہی سچائیاں ہی تھیں کہ جن کی بنیاد پر وہ لوگ با ادب و با مراد تھے ۔ صاحب ِ عزت اور صاحب ِ عظمت تھے ۔ مگر نسل نو ہے کہ تمام روشن اور مثبت روایات کو پس پشت ڈالتے اور اصول احترام آدمیت کو توڑتے ہوئے ناکامی کی طرف گامزن ہے ۔ نسل نو کہ جیسے احساس سود و زیاں تک نہیں ہے کیلئے اقبال کا شعر پیش ہے تا کہ ان کی اصلاح اخلاقیات ممکن ہو سکے ۔
؂ وائے ناکامی متاع کا رواں جاتا رہا
کار واں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا

متاع کار واں اور رخت ِ سفر جو اب لٹ چکا ہے یا کہیں کھو چکا ہے ۔ کے زیاں کا نئی نسل کو احساس دلانا چاہیے ۔ احساس بھی ذمہ دارانہ ۔۔۔۔۔! ورنہ یہ نئی نسل جو اس وقت تربیت کے مراحل سے گزر رہی ہے۔۔۔۔ کہیں مستقل بنیادوں پر اندھیروں میں نہ جاگر ے یہ اور بات کہ جدید تعلیم سائنس اور فنی حوالے سے مکینک ٹائپ یہ نئی نسل اعلیٰ تعلیم یافتہ ہے اور فضاؤں کو تسخیر کر رہی ہے ۔ لیکن روشن روایات و اقدار کا خون کر کے تباہ ہو رہی ہے ۔

ابلاغ کے بے شمار ذرائع ہیں ۔ ہر شخص آج عالمی سطح پر پوری دنیا کے ساتھ مربوط ہے ۔ ایسے میں معیار کے انتخاب کے معاملے میں فیصلہ انتہا ئی پیچیدہ ہے ۔ یہ عمل انتخاب نسل نو جو اپنے جذبات و اظہار پر قابو نہیں پا سکتی بسااوقات بہت بڑے نقصانات کا پیش خیمہ بنتا ہے ۔ بار دگر عرض ہے کہ اگر نسل نو کو بے لگا چھوڑ دیا جائے گا ( نئی نسل پر اگر مختلف افعال کی انجام دہی کے ضمن میں ضروری اور مناسب قد غنیں اور پاپندیاں نہ لگائی گئیں یا تربیت کے حوالے سے بخل کا مظاہرہ کیا گیا ) تو اس نقد آور فصل سے پیداوار کی مطلوبہ مقدار حاصل نہ ہوگی بلکہ اولاد کی پیداوار یعنی نئی نسل کا حصول سو فیصد گھاٹے کا سودا ہوگا ۔ قوموں کے عروج و زوال کا دارو مدار نسلوں پر ہوتا ہے ۔ جب نئی نسل ہی بے ادب اور خلاقی و شعوری سطح پر جاہل ہوگی تو کیا اقوام ترقی کے زینے طے کریں گے۔۔۔۔؟ بھا جاہل ، خبطی اور بے ادب نسل قوم کی ترقی کا سبب بنے گی ۔۔۔۔؟

افرا تفری اور انتشار کے باعث پیدا شدہ معاشرتی بے راہروی ، اخلاقی انحطاط اور تربیتی بگاڑ نے جس طرح نئی نسل سے ادب و احترام کا صفایا کیا ہے ۔ شاید ہی کسی دیگر ایجنڈے نے ہمیں کوئی اس قدر نقصان پہنچایا ہو۔ ہاں ۔۔۔ جب بھی بیرونی تہذیب کسی تہذیب پر حملہ آور ہوتی ہے تو اس کا پیداوار نئی نسل کی تربیت پر ہوتا ہے ۔ پھر ذہن سازی کرکے نئی نسل /نسل نو کے ذریعے بڑے بڑے مقاصد حاصل کیے جاتے ہیں ۔ آج اگر ہم ترجیحی بنیادوں پر نسل نو کی تربیت کے مراحل میں احترام و ادب انجیکٹ کریں گے تو ترقی خصوصاً شعوری و اخلاقی سطح پر ترقی کے اعلیٰ مدارج طے کریں گے ۔
Mansha Fareedi
About the Author: Mansha Fareedi Read More Articles by Mansha Fareedi: 66 Articles with 51893 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.