ایک وقت تھا کہ والدین فخر سے
اپنی بیٹیوں کو یونیورسٹی میں داخلہ دلواتے مگر آج جہاں دنیا تعلیمی میدان
میں ترقی کر رہی ہے وہاں میں پاکستان میں اس قسم کے ہولناک واقعات رونما ہو
رہے ہیں کہ والدین ہی نہیں بچیاں خود بھی خوف کا شکار ہیں۔کہاوت ہے کہ
خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے ۔ یہ کہاوت اب یونیورسٹیوں پر بالکل
صادق آتی ہے پنجاب یونیورسٹی کے بعد اب قائداعظم یونیورسٹی میں بھی یہ رنگ
چڑھنے لگا ہے۔ اس واقع نے بھی سوشل میڈیا میں کافی چرچے کئے مگر اس کا حل
کیا ہوا۔
جنسی طور پر حراساں کئے جانے اس رسوا کن واقعے نے بے شک قائداعظم یونیورسٹی
کو ہلا کر رکھ دیا یونیورسٹی کے وائس چانسلر نے ہدایت کی ہے کہ ایک طالبہ
کی شکایت پہ پوری چھان بین ہونی چاہیے واقعے کچھ اس طرح بتایا جا تا ہے کہ
طالبہ یونیورسٹی میں ایم بی اے کر رہی ہے ۔ مارکس شیٹ کی غلطی کودرست
کروانے کیلئے جب وہ Management Scienceکے ایک پروفیسر کے دفتر میں گئی ۔ تو
اس پروفیسر نے طالبہ سے زبردستی چھیڑ چھاڑ سے کام لیا خوش قسمتی سے طلبہ
وہاں سے بھاگ آئی مگر دوپٹہ آفس میں ہی بھول آئی ۔ مگر پروفیسر نے اس واقعے
سے سراسر لاتعلقی کا اظہار کیا اور کہا کہ یہ میرے خلاف ایک سازش ہے اور وہ
محترم تیس سال سے درس و تدریس کے شعبے سے وابستہ ہیں ماضی میں ان کے بارے
میں ایسی کوئی شرمناک بات سننے میں نہیں آئی ۔ وائس چانسلر نے واقعے کی
تحقیقات کیلئے انکوائری کمیٹی تشکیل دے دی ہے ۔ اب اس رپورٹ پر پہ ہی کچھ
کہا جا سکتا ہے ۔ ایک بات قابل ذکر ہے کہ جنسی طور پر ہراساں کئے جانے کا
یہ دوسرا واقعہ قائداعظم یونیورسٹی میں پیش آیا۔
حقیقت میں یہ انتظامیہ کی نااہلی ہے ۔ مگر اس قسم کی کوئی شرمناک حرکت
سامنے آتی ہے تو اسے حقائق و ثبوت کی بنا پر عبرتناک سزا کا مستحق قرار
دینا چاہیے۔2010کے دوران پارلیمنٹ میں عورتوں کو ہراساں کئے جانے کیخلاف
خواتین کو تحفظ فراہم کرنے کا قانون بھی پاس ہوا۔ مگر اس کے بعد قائداعظم
یونیورسٹی وہ پہلا ادارہ تھا جہاں 2011میں ایک لڑکی کی جانب سے ہراساں کئے
جانے کی روداد سامنے آئی ۔ قابل فکر ہے کہ انکوائری کے بعد سٹاف کے سینئر
رکن قصور وار ٹھہرائے گئے اور انہیں برطرف بھی کر دیا گیا ۔ لیکن افسوسناک
عالم ہے کہ اثر ورسوخ کی بنا پر یونیورسٹی کے چانسلر صدر آصف علی زرداری نے
یہ سزا منسوخ کر کے ایک اور قبیح جرم کو سزادے دی اگر اس برائی کو اسی وقت
جڑ سے کاٹ دیا ہوتا تو پاکستان کی باقی سرکاری یونیورسٹیوں میں ایسا قدم
اٹھانے سے پہلے سوچا جاتا ۔
صد افسوس کہ جہاں علم سے نوازہ جاتا ہے وہیں حوا کی بیٹیوں کے ساتھ اس طرح
کا ہولناک ستم کیا جاتا ہے ۔ اچھے اور برے لوگ ہر جگہ ہوتے ہیں لیکن میرا
ماننا ہے کہ بروں کی تعداد زیادہ ہے ۔ ایسے جرائم کہاں نہیں ہوتے ۔ میڈیکل
کالجز ہی نہیں آئے روز ایسے واقعات ہوتے ہیں ۔ دارالامان جہاں عورتوں کو
پناہ دی جاتی ہے مگر وہاں پناہ سے بدترین اذیت دی جاتی ہے ۔ مدرسوں میں بھی
ایسے رنگ بھر ے جاتے ہیں ۔ اور تو اور معزز افراد کی کالونیز میں ایسے بے
شمار گناہ ہوتے رہتے ہیں ۔ مگر مجبور و بے کس لڑکیاں بول نہیں پاتی یا پھر
کوئی لالچ دے کر چپ کروائی جاتی ہیں ۔ یہ کالم لکھتے ہوئے مجھے ایک سکالر
کاقول یاد آرہا ہے اس نے کہا کہ "عورت کا جرم یہ ہے کہ وہ عورت پیدا ہوئی "بے
شک جب میں نے یہ قول پڑھا تو سب سے زیادہ میں نے ہی اس قول کو رد کیا اور
اس سکالر کو ایک Gender Discriministقرار دیا ۔ مگر اب جو حالات پیدا ہو
رہے ہیں تو میں سوچتی ہوں کہ اس نے ٹھیک ہی کہا تھا ۔ عورت کی مجبوری کا
فائدہ اٹھایا جاتا ہے ۔ اُسے کمزور سمجھ کر اس پر حاوی ہونے کی کوشش کی
جاتی ہے ۔
اس بات میں صداقت ہے کہ اچھے اور برے عمل ہر جگہ ہوتے ہیں اور المیہ یہ ہے
کہ اچھے کا کم اور برے کا زیادہ بول بالا ہوتا ہے ۔ وقت کی ضرورت ہے کہ حوا
کی بیٹی کو پرامن تحفظ فراہم کیا جائے ۔ بعض اوقات عورت اپنی صنف نازکی کا
فائدہ اٹھاتے ہوئے مرد پر الزام ٹھہراتی ہے مگر ضروری نہیں کہ ایسا ہر بار
ہو ۔ میڈیا کی آزادی سے احسن کارنامے یہ ہونے لگے ہیں کہ جرم بے شک ختم
نہیں ہوتا مگر سامنے تو آجا تا ہے ۔ آج کے آزاد میڈیا نے عورت کو اتنی
آزادی دے رکھی ہے کہ وہ اپنے حقوق کیلئے آواز بلند کرے مگر ساتھ ہی اپیل کا
عندیہ دیا جاتا ہے کہ حکمرانوں کو عورت کی اس درد نما آواز کو سننے اور
محسوس کرنے کی حس کو بیدار کرنا چاہیے اور سرکاری ، نجی یونیورسٹیوں ،
ہسپتالوں اور ایسی جگہیں جہاں عورتوں کی محنت سے زرمبادلہ کمایا جاتا ہے ان
کو باعزت مقام اور مکمل تحفظ فراہم کیا جائے تاکہ کوئی کہہ سکے کہ اسلامی
جمہوریہ پاکستان میں اسلامی معاشرت قائم ہے ۔ |