شادی ایک بہہت ہی مقدس عمل ہے جو انسان کی زندگی میں
تبدیلی کا باعث بنتی ہے،اگر بیوی نیک سیرت ہو تو شوہر کو بھی اپنے رنگ میں
ڈھال کر اس دنیا میں ہی گھر کو جنت کا نمونہ بنا دیتی ہے اور اگر کوئی مادہ
پرست اور چھوٹی چھوٹی باتوں پر جھگڑا کرنے والی مل جائے تو گھر دوزخ کا
نمونہ بن جاتا ہے، شوہر کی مثال بھی ایسی ہی ہے، اس کا مزاج بھی اگر سخت ہو
تو بیوی کیا اولاد بھی پریشان رہتی ہے، اس کے علاوہ کچھ لوگ ایک دوسرے کا
مزاج دیکھ کر اپنے آپ کو اس کے مطابق ڈھال لیتے ہیں اور جو نہیں ڈھال پاتے
ان کا جینا دوبھر ہو جاتا ہے یا تو ان مین علیحدگی ہو جاتی ہے یا پھر نوبت
مار پٹائی اور زندگی تماشہ بنکر رہ جاتی ہے۔
کچھ دن پہلے ایک خبر تھی کہ لندن میں ایک پاکستانی نے اپنی بیوی کو اس لیے
قتل کر دیا کہ اس نے گوشت کی جگہ دال کیوں پکائی جبکہ شوہر نے کام پر جاتے
وقت گوشت پکانے کا آڈر دیا تھا، خبر کی تفصیل میں جانے پر پتہ چلا کہ شوہر
کا بیوی کو قتل کرنے کا ارادہ تو نہیں تھا مگر مارتے پیٹتے وقت چوٹ کچھ
ایسی جگہ لگ گئی کہ وہ بیچاری اﷲ کو پیاری ہوگئی۔اس خبر سے ایک بات تو واضع
ہو گئی کہ ایک چھوٹی سی بات نے ہنستا بستا گھر ہی برباد کر دیا ، کیونکہ اب
شوہر بھی بچ نہیں پائے گا اور باقی عمر جیل میں پچھتاوے کا احساس اس کو دن
رات بے چین رکھے گا وہ کبھی بھی پوری نیند سو نہ سکے گا، ہر وقت اس کو گناہ
کا احساس ڈنک مارتا رہے گا۔
اگر شوہر گرم مزاج ہے جو کہ اکثر اس لیے ہوتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو گھر کا
مالک اور کما کر بیوی کو پالنے والا سمجھتا ہے،حالانکہ ایسا ہر گز نہیں رزق
دینے والی تو اﷲ کی ذات ہے مرد تو ایک وسیلہ ہے، جن گھروں میں مرد نہیں
ہوتے اس کے مکین بھی رات کو کھا کر ہی سوتے ہیں ، اگر اس بات کی سمجھ آ
جائے کہ مجھے وسیلہ بنا کر اﷲ کریم نے ایک بہت بڑی ذمہ داری دی ہے اور جس
کو ٹھیک سے نبھانا میرافرض اولین ہے تو بات کبھی بگڑتی ہی نہیں ، مگر کچھ
لوگ اس پر اترانے لگتے ہیں اور بیوی پر خواہ مخواہ رعب ڈالتے رہتے ہیں کہ
اگر میں نہ کماوئں تو تم بھوکی مر جاؤ ، بیوی بیچاری خاموش رہتی ہے وہ ا س
کا مزاج تو نہیں بدل سکتی مگر اپنے صبر اور تحمل سے آہستہ آہستہ اس کو راہ
راست پر لا سکتی ہے۔
جن گھروں میں بیویاں کمانے والی ہوتی ہیں ان کا مزاج تو اور بھی آسمان پر
ہوتا ہے، جو بات بات پر میاں کو طعنے دیتی رہتی ہیں کہ ہم کو تو باہر بھی
کام کرنا پڑتا ہے اور جب تھک ہار کر گھر آتے ہیں تو گھر میں بھی چین نصیب
نہیں ہوتا، یہ بات سن کر شوہر بیچارہ خون کے گھونٹ پی کر رہ جاتا ہے جبکہ
کام وہ بھی کر رہا ہوتا ہے مگر بیوی اپنی اہمیت جتانے کو کہہ دیتی ہے،
تمہاری کمائی سے تو گھر کا چولہا بھی نہیں جل سکتا باقی کے اخراجات پورے
کرنے کے لیے مجھے باہر نکلنا پڑتا ہے، حلانکہ اگر وہ گھر گرہستی کو سوچ
سمجھ کر اور دیکھا دیکھی کی فضول خرچی سے پرہیز کرے اور اپنے شوہر کی آمدنی
کے مطابق چلے تو اسے باہر نکلنے کی ضرورت نہیں پڑتی ۔
اکثرمیاں بیوی میں ایک دوسرے پر اعتماد کا فقدان ہوتا ہے جو بے سکونی کی جڑ
ہے ایک دوسرے پر بے جا شک کر کے ہر وقت لڑائی جھگڑا کرنے سے بھی گھر ٹوٹ
جاتے ہیں ، اگر شک کی جگہ ایک دوسرے پر یقین کر لیا جائے کہ دونوں میں سے
کوئی بھی خراب راستے پر نہیں ہے اور اگر ہے بھی تو اس کی سزا دنیا اور آخرت
میں بھی اس کو ضرور ملے گی ، تو دلوں میں سکون رہتا ہے ، اس کی مثال یوں ہے
کہ ہر کسی کو اپنے اعمال کا حساب دینا ہے ،کوئی کسی کی رکھوالی نہیں کر
سکتا اور نہ ہی زبردستی کسی کو راہ راست پر لا سکتا ہے ،ہاں پیار سے کھلایا
ہوا ایک روٹی کا ٹکڑا تو جانوروں کو بھی اشاروں پر چلنا سکھا دیتا ہے باقی
ہدایت تو اﷲ کی طرف سے ملتی ہے وہ چاہے تو چور کو قطب بنا دیتا ہے۔
بعض لوگ شادی بیاہ کے موقعے پر بھی دکھاوے کے لیے قرض لے کر بھی ایسے ایسے
فضول اور شیطانی کام کرتے ہیں کہ اﷲ کی پناہ آج ایک ایسی ہی خبر پر دل میں
خیال آیا کہ ا س پر ایک کالم علیحدہ سے لکھوں ، خبر کچھ یوں ہے کہ وہاڑی
میں ایک شادی کی تقریب میں دولہے کے کچھ اوباش دوستوں نے گانے بجانے کے
پروگرام میں کسی وجہ سے ہنگامہ کر دیا جس میں مووی میکر کے ساتھ ساتھ دولہے
کے باپ کی بھی پٹائی کر دی اور جاتے جاتے اپنی جیپ سے ایک آدمی کو کچل کر
جان سے مار دیا، جہاں شادی ہو رہی تھی وہاں بربادی کا سما ں بن گیا،ایسی
حرکتوں کے پیچھے جہالت کے سوا کچھ نظر نہیں آتا ،اسلامی تعلیمات سے دوری
ریا کاری کو جنم دیتی ہے جس سے انسان شیطان کے راستے پر چل نکلتا ہے۔
اﷲ کریم سے دعا ہے کہ ہمارے گھر وں میں سادگی اور پرہیزگاری کا دور دورا ہو
جائے، ہم اپنے بچوں کو دولت کے نشے میں الٹے کاموں سے دور کھنے میں کامیاب
ہو جائیں اور میاں بیوی میں چھوٹی چھوٹی باتوں پر جو نفاق اور نفرت پیدا ہو
جاتی ہے اس سے بھی اﷲ محفوظ فرمائے۔آمین |